نظریں اسٹیبلشمنٹ پر لگی ہیں

30

بد بختوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت و حکمت سے آسمان پر اٹھا لیا اب وہ اللہ کے حکم سے زمین پر اتریں گے، ثور پھونکا جائیگا مردے زندہ کیے جائینگے۔ یہ روز قیامت ہو گا۔ جاری ماہ و سال میں اہل پاکستان پر کئی قیامتیں بیت گئیں ہم جناب قاضی فائز عیسیٰ کے آنے کا انتظار کرتے رہے۔ بندیالی بس نے جاتے جاتے اقتدار کی بس میں سوار ہونے کی خواہشیں لیے شاہراہ اقتدار کے دونوں طرف کھڑے سو سے زائد افراد کو کچل دیا ہے۔ کون زخمی ہے، کون شدید زخمی اور کون ہمیشہ کیلئے مسند اقتدار سے منہ موڑ گیا ہے۔ اسکا علم آئندہ دس روز تک ہو گا۔ نئی ایگزٹ کنٹرول لسٹ بھی آ سکتی ہے کچھ لوگ فرار بھی ہو سکتے ہیں۔ بندیالی فیصلے کے مطابق نیب ترامیم سوائے ایک کے کالعدم قرار پائی ہیں پس نیب کے ختم شدہ مقدمات وہیں سے شروع کیے جائیں جہاں انہیں ختم کیا گیا تھا۔ ان مقدمات کی زد میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت انکے قریبی عزیز و اقارب اور دیگر پارٹی ممبران سمیت چھتیس کے قریب ہیں جبکہ مسلم لیگ ن میں نواز شریف شہباز شریف، مریم اور حمزہ کے علاوہ پچاس کے لگ بھگ شخصیات کے مقدمات کھولنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کچھ بیورو کریٹ ہیں، کچھ کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے ہے، فیصلے کے بعد راولپنڈی، لاہور، کراچی، دُبئی اور لندن میں اس پر غور و فکر شروع ہو گیا مختلف آپشن زیر بحث ہونگی، کیا ہوا تو کیا کرنا ہو گا، کیا نہ ہوا تو کیا نہ کرنا ہو گا۔ قانونی حلقے اس معاملے پر تقسیم ہیں کچھ کے خیال میں بہت اچھا فیصلہ ہے نئے روزگار کے مواقع ملیں گے، کچھ کے خیال میں بہت بُرا فیصلہ ہے کہ آخر کس کس کو نااہل کر کے سیاست سے باہر رکھنا کیوں ضروری ہے۔ یاد رہے ایسے ہی ایک مقدمے میں جس روز جناب شہباز شریف پر فرد جرم عاید ہونا تھی انہیں پی ڈی ایم حکومت میں وزیر اعظم نامزد کر دیا گیا۔ انکے حلف اٹھاتے ہی یوں لگا جیسے اب کوئی مرد نہیں بچا جو مردانہ وار آگے بڑھے اور قانون کے تقاضے پورے کرے پھر پوری حکومت کی ترجیح اول یہ نظر آئی کہ نیب کے صرف پر ہی نہ کاٹے جائیں بلکہ انہیں جڑ سے اُکھیر دیا جائے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ترامیم آئیں اور یوں پاس ہوتی چلی گئیں جیسے نرسری میں سب بچے پاس ہو جاتے ہیں کوئی ایک بھی فیل نہیں ہوتا۔ اِدھر نیب ترمیم کے ذریعے مقدمات ختم ہوئے اُدھر شور برپا ہوا تمام مقدمات جھوٹے تھے انکی زد میں آنے والے تمام افراد بے گناہ تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ مقدمات چل رہے تھے چلتے مقدمات بند ہوئے اور فائلیں اندھیرے کنوئیں میں ڈال دی گئیں۔ نیب میں بیٹھے بھی شیر خوار نہ تھے جانے کہاں کہاں کا پانی پی کر آئے تھے، انہوں نے یہ مقدمات ترمیم کے بعد ایف آئی اے، کسٹم اور ایف بی آر کو نہ بھجوائے بلکہ بند فائلیں کھولنے کی تیاری جاری رکھی، اب دیکھنا ہے نیب کیس دیکھتا ہے یا فیس دیکھتا ہے اور نیب مقدمات کی زد میں آنے والے جب اپیل میں جائینگے تو وہاں کیا ہو گا۔ اپیل وہی جج صاحبان سنتے ہیں جو فیصلہ دیتے ہیں۔ اپیل میں سطح پر تیرتی ہوئی اس مکھی یا کچھ مکھیوں کا پایا جانا ضروری ہے جو فیصلہ کرنے والوں کو جُل دے کر کہیں چھپ گئی ہوں اور پھر اپنے آپ کو محفوظ پا کر سطح پر تیرنے اور موج میلے میں مصروف ہو چکی ہوں۔ بندیال صاحب گھر چلے گئے، ان کی نمائندگی اب بینچ میں کون کریگا، کوئی معزز جج صاحب ہونگے یا جناب چیف جسٹس بذات خود یہ اپیل سنیں گے جو شخصیات اسکی زد میں آئی ہیں وہ اس بنچ پر راضی ہونگی یا کسی نہ کسی بہانے کسی معزز جج پر اختلاف اور پھر کسی نئی شخصیت کی بنچ میں شمولیت کی کوشش کی جائے گی یا پھر موقف اختیار کیا جائیگا کہ ہماری تسلی کیلئے لارجر بنچ تشکیل دیا جائے۔ اس فرمائش کی راہ میں ایک رکاوٹ آئے گی کہ قوائد و ضوابط سے ہٹ کر لارجر بنچ کیوں تشکیل دیا جائے کیا صرف اس لیے کہ کچھ لوگوں کو من پسند انصاف ملنے کی راہ ہموار ہو جائے۔ ان باتوں کا انحصار اب اس شخصیت پر ہے جو اپنی منصف المزاجی کے حوالے سے بہتر سمجھی جاتی ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ اس دوراہے پر کون کدھر کا رخ کرتا ہے۔ ایک طرف ملزمان کو وہی معافی مل سکتی ہے جو انہوں نے از خود نیب قوانین میں ترمیم کر کے حاصل کی جبکہ دوسری طرف ان میں بیشتر کو سزا سنائی جا سکتی ہے کیونکہ بیشتر ملزمان کے خلاف ناقابل تردید ثبوت موجود ہونے کے دعوے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں، مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ تمام اہم ترین ثبوت جو حاصل کر لیے گئے تھے کیا وہ اب بھی فائلوں میں موجود ہیں یا غائب کیے جا چکے ہیں۔ نیب ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں تحریک انصاف گئی تھی یوں ان ترامیم کے خاتمے کے بعد اپیل کا فیصلہ ہونے تک یہ مقدمہ عدالت لے جانے والے خود بھی اسکی زد میں آئے ہیں۔ پرانے قوانین بحال ہونے پر نوے روز کا ریمانڈ ہو گا، کسی کو ضمانت کی سہولت میسر نہ ہو گی۔ نیب مقدمات کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پی ڈی ایم حکومت بننے کے بعد کچھ نیب زدگان نے اپنے مقدمات حکومت کے زور پر ختم کرائے تھے کیا وہ بھی کھلیں گے یا جو کچھ کھوہ کھاتے ڈل گیا وہ قصہ ماضی ہوا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اہم ترین مقدمے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کیا ہو گا سیاسی معاملات میں دخل اندازی سے کنارہ کشی کا اعادہ تو متعدد بار سامنے آیا یہ معاملہ سیاسی ہونے کے ساتھ قانونی و عدالتی بھی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے دو راستے ہیں، مقدمات کو مانیٹر کریں لیکن میرٹ پر جو ملزم قرار پاتا ہے اسکی مدد کو نہ آئیں اور کسی بے گناہ کو سزا نہ ہونے دیں، بد کردار اور ملک کو لوٹ کر اسے ننگا کرنے والوں کو ننگا ہونے دیں اور ان سے ہمیشہ کیلئے جان چھڑا لیں تا کہ ملکی سیاست میں نئے، شفاف اور بہتر کردار کے لوگوں کی جگہ بن سکے۔ ملک کسی درست ڈگر پر آ سکے بصورت دیگر تباہی تو دروازے پر ہے۔ نظریں اسٹیبلشمنٹ پر لگی ہیں وہ کدھر جاتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.