”سورۃ بقرہ کی آیت 12 اور یہودی سلطنت“

178

یہودی قوم بلاشبہ دنیا کی تمام اقوام سے کہیں زیادہ بدتر، بدترین، گھٹیا، شرانگیز، فتنہ گر، فتنہ ساز، سرکش، محسن کش، نافرمان، بے لگام، دھتکاری وپھٹکاری ہوئی قوم ہے۔ یہ سازشی قوم ازل سے تاحال اپنی بدترین فطری عادات واطوار اور خود سری وخباثت کے باعث اقوام عالم بالخصوص عالم اسلام کے لیے اپنی آویزش پھیلائے خطرے کا موجب بنے کھڑی ہے۔ توریت ہی کے الفاظ ہیں کہ”یہ سب لوگ کج رو اور ٹیڑھی نسل ہیں۔“(ارستثنا5:35)” اور ہارونؑ نے موسیٰؑ سے کہا کہ میرے مالک کا غضب نہ بھڑکے، تو ان لوگوں کو تو جانتا ہی ہے کہ یہ ہر لمحہ بدی پر تلے رہتے ہیں۔ “(خروج 21-22-33) ”بس اس کہا میں اپنا منہ ان سے چھپالوں گا اور دیکھوں گا کہ ان کا انجام کیسا ہوگ اکیونکہ وہ گردن کش نسل اور بے وفا اولاد ہیں۔“ (استثنا۔20:32) حضرت موسیٰؑ نے اپنے آخری ایام میں لاویوں کو اپنے پاس بلایا (جو خداوند کے عہد کے ضدوق کو اٹھایا کرتے تھے) اور ان سے فرمایا! ”دیکھوابھی تو میرے جیتے جی تم خداوند سے بغاوت کرتے ہو تو میرے مرنے کے بعد کتنا زیادہ نہ کروگے، تم اپنے قبیلے کے سب بزرگوں اور منصب داروں کو میرے پاس جمع کرو تاکہ میں یہ باتیں ان کے کانوں میں ڈال دوں اور آسمان اور زمین کو اس کے برخلاف گواہ بناؤں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد تم اپنے آپ کو بگاڑ لوگے اور اس طریق سے، جس کا میں نے تم کو حکم دیا ہے، پھر جاؤ گے تب آخری ایام میں تم پر آفت ٹوٹے گی کیونکہ تم اپنی کرنیوں (بداعمالیوں) سے خداوند کو غصہ دلانے کے لیے وہ کام کروگے جواس کی نظر میں برا ہے۔“ (24:31 تا 29) چنانچہ یہی وہ وہ فتنہ ساز شرپسند قوم ہے جس نے اپنی شرانگیزیوں کے باعث پوری دنیا کے امن کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ اس قوم کی ابلیسی ذہانت اور فطری وباطنی خباثت اقوام عالم کے لیے ایک ناسور کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ سازشوں وسازشیو ں کا مرکز و محور ”اسرائیل“ جو خالصتاً مذہب کے نام پر وجود میں لایا گیا۔ آج سے تقریباََ ڈیڑھ صدی قبل دنیا بھر کے یہودی داناؤں اور منصوبہ سازوں نے اپنے خفیہ مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک صیہونی ریاست کے قیام کا منصوبہ ترتیب دیا تاکہ اسے مرکز بنا کر پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کیا جاسکے چنانچہ اس سلسلہ میں ”بلڈ برج“ نامی ایک خفیہ تنظیم قائم کی گئی جس میں دنیا بھر سے متعصب وقابل اعتماد لوگوں کو شامل کیا گیا جو قابلیت کے علاوہ دھن دولت کے اعتبار سے بھی انتہائی مضبوط تھے۔ اس خفیہ تنظیم میں بالخصوص مالی طور پر وہ لوگ شامل کیے گئے جو امریکی معیشت پر قابض تھے۔ یعنی امریکی اکنامکس،زراعت،سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم، صحت اور اسی طرح کے دیگر اہم شعبوں میں ان کا اہم ترین کردار تھا لہٰذا ستر فیصد ایسے یہودی جو امریکا کی ترقی کا باعث تھے، اس خفیہ تنظیم میں شامل کرلیے گئے تاکہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے امریکا جیسی سپر پاور کو استعمال یابلیک کیا جاسکے اور پھر ایسا ہی ہوا کہ اسرائیل کے قیام کے لیے ہرجائز وناجائز حربہ استعمال کرتے ہوئے یہودیوں کی ایک الگ ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا جس کی تمام تر منصوبہ بندی،رہنمائی وسرپرستی امریکا نے کی۔ اس تنظیم اور یہودیوں کی مالی وسیاسی قوت کا اندازہ آپ صرف اس ایک بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ 18,17 مئی 2003 میں پیرس میں منعقد ہونے والے اس اہم ترین اجلاس میں ہالینڈ کی ملکہ بیا تریس، سپین کا بادشاہ خوان کارلوس، اس کی اہلیہ ملکہ صوفیا، فن لینڈ کا سابق وزیر اعظم بافو لیبونان، سابق امریکی وزیر خارجہ ہندی کسنجر،امریکی وزیر دفاع ڈونالڈ رامس فیلڈ اور اس کا نائب پال ولفوئیز، امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل اور وائٹ ہاؤس سے وابستہ مشیر رچرڈ بیرل نمایاں تھے۔ اس خفیہ ترین اجلاس کی خبر سوائے ”وائٹ بلور“ نامی ایک جریدے کے ایڈیٹر جوزف فرح کے علاوہ کسی نے نہ دی جوزف فرح جس نے اپنے جریدے کی ویب سائٹ www.woridnetdaily.com پر ان الفاظ پر روشنی ڈالی ”کیا آپ نظریہ سازش پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا ایسے طاقتور لوگوں پر آپ یقین رکھتے ہیں جو ہرسال خفیہ اجلاس میں دنیا پر اپنے قبضے کو مزید مضبوط کرنے اور اس کے گرد اپنے منصوبوں کی مختلف لائنوں کا دائرہ کھینچتے ہیں؟ ایسے طاقتور لوگ یقیناً موجود ہیں جن کا دنیا پر حقیقی غلبہ ہے اور جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دنیا بھر میں سازشوں کا جال بچھاتے ہیں۔ “ایک انگریز صحافی جان رانسن پرتگال میں ہونے والے بلڈر برج کے اس خفیہ اجلاس میں نقب لگانے میں کامیاب ہوگیا تھا جس کے بعد اس ” Adventures with Extremists“ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا کہ ”اس تنظیم کا اجلاس خفیہ طور پر ہر سال منعقد کیا جاتا ہے جس پر بے پناہ اخراجات آتے ہیں۔ اس کی سرگرمیاں عالمی میڈیا سے خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ اس میں شرکت کرنے والی شخصیات عالمی سیاست کی کرتا دھرتا ہیں۔ میرایقین ہے کہ بلڈر برج نامی تنظیم عالمی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لیے خفیہ اجلاس طلب کرتی ہے۔ “عرب ذرائع کے مطابق اس عالمی صیہونی تنظیم کے مقاصد صرف سیاسی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اقتصادی معاملات بھی اہم ترین ہیں کیونکہ سیاسی شخصیات کے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلقات بھی قائم ہیں۔2000 میں اس عالمی صیہونی تنظیم کا سربراہ نیٹو کا سابق سیکرٹری جنرل لارڈ گیر نگٹن تھا۔اس تنظیم کا پہلا باقاعدہ اجلاس 1959 میں ترکی کے دارالحکومت استنبول کے ایک ہوٹل ”جنار“ میں منعقد ہوا جبکہ دوسرا اجلاس ترکی ہی کے ایک سیاحتی علاقے ”بشمہ“ میں التن یونس کے خوبصورت قربہ میں 1975 میں ہوا اور اس اجلاس میں ترکی کی معروف سیاسی واقتصادی شخصیات نے شرکت کی جن میں مشہور صنعتکار صلاح الدین بایزید نے بھی شرکت کی۔ اس سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ ہم خود ان یہودیوں کے آلہ کار ہیں اور اپنی اپنی ذات اور اپنے اپنے مفادات کے لیے ہر وہ کام کرگذرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں جو ملک وملت اور دین اسلام کے لیے منافی اور زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔لیکن چونکہ ہر کام یاعمل کی ایک حدتک اور جس وقت وہ کام یا عمل اپنی حد پار کرتا ہے تو اس کی تباہی کا وقت شروع ہوجاتا ہے یہی عالم اس وقت یہود ونصاریٰ کا ہے کہ طاقت ودولت کے نشے میں وہ اپنی ہر حد پار کرچکے ہیں۔ قرآن کی یہ آیت کہ ”یہودیوں کی ذلت تو یہ ہے کہ دنیا میں نام کو ان کی کوئی سلطنت نہیں“ (سورۃ البقرہ:12) مجھے یقین ہے کہ امریکا سمیت اسرائیل کی تباہی بہت قریب ہے چاہے وہ ایران کے ہاتھوں ہو یا روس کے، سورۃ بقرہ کی آیت نمبر12 کے پورا ہونے کا وقت اب قریب تر ہے۔

تبصرے بند ہیں.