ہمارے ہاں معاملات معاشی ہوں یا سیاسی دگرگوں ہو چکے ہیں۔ جاری سیاسی بحران کے ڈانڈے 2011 کے اس جلسے سے ملتے ہیں جو مینار پاکستان میں عمران خان کو لانچ کرنے کے لئے سجایا گیا تھا۔ کسی کو لانچ کرنا اپنی جگہ، لیکن کسی کو ہٹانے یا کمزور کرنے کے لئے منصوبہ سازی نے سیاسی ہیجان کی بنیادیں رکھیں پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ”شعلہ بیان اور جواں عزم“ قیادت نے نوجوان نسل کو متاثر کرنا شروع کیا۔ تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو اس عظیم الشان لانچ کو کامیاب بنانے پر مامور کر دیا گیا۔ ایک عظیم الشان ہیجان برپا ہو گیا۔ گالم گلوچ اور دنگا فساد کا کلچر فروغ پانے لگا سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کیا جانے لگا پھر 2017 میں نواز شریف کو سیاسی منظر سے ہٹا دیا گیا 2018 کے عام انتخابات میں قاسم کے ابوجی کو کسی بھی صورت میں جتوانے کی سر توڑ کاوشیں کی گئیں۔ پارٹیوں کے امیدواروں کو ڈرا دھمکا کر یا تو الیکشنوں سے دست بردار کرا دیا گیا یا انہیں پی ٹی آئی میں شمولیت کی راہ دکھائی گئی پھر عین الیکشن کے دن آر ٹی ایس بٹھا کر اسے عارضی طور پر ناکارہ بنا کر مرضی کے نتائج تیار کے گئے اور پھر قاسم کے ابوجی کو بڑے اہتمام و شان کے ساتھ ایوان اقتدار میں داخل کیا گیا۔ انہوں نے جو طریقہ 2011 اور اس سے پہلے اپنایا ہوا تھا، اسی طریقے کو بطور حکمران آگے بڑھایا ذرائع ابلاغ بشمول سوشل میڈیا اسی بیانیے کے فروغ کے لئے استعمال کئے گئے جو وہ اقتدار میں آنے سے پہلے اپنائے ہوئے تھے دشنام کی سیاست کو فروغ دیا ”میں نہ مانوں“ اور اپوزیشن کے ساتھ نہ بیٹھنے کی روش اختیار کی۔ ابو جی نے اپنے 44 ماہی دور حکمرانی میں سیاست و معیشت کو رج کر گندہ کیا۔ قومی سیاست و معیشت کو غیر مستحکم کیا حتیٰ کہ سفارتی سطح پر بھی پاکستان تنہائی کا شکار ہو گیا۔ سی پیک سست روی کا شکار ہوا۔ سعودی عرب، یو اے ای، قطر، ترکی جیسے دوست ممالک ہم سے دور ہو گئے ایران کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ آئی ایم ایف ہمارا سہارا تھا، وہ بھی ناراض ہو گیا اس سے معاہدہ کر کے، معاہدے کی شرائط کے برعکس اقدامات اٹھانے کے باعث، فنڈ نے قرض کی قسطیں ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ عالمی اداروں نے پاکستان کے ساتھ لین دین سے انکار کر دیا، پاکستان مکمل طور پر تنہائی کا شکار ہو گیا۔ قومی معیشت کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہونے لگیں۔ سیاسی افراتفری کے فروغ کے ساتھ ساتھ ملک معاشی ابتری کا شکار ہو گیا 10 اپریل 2021 عمرانی دور کا خاتمہ ہوا۔ ابو جی کی حکومت آئینی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے ختم کر دی گئی۔ لیکن ابوجی اور ان کے حواری سیاسی عدم استحکام کے لئے کوشاں رہے حتیٰ کہ 9 مئی کا سانحہ ہو گیا۔
ابوجی اور ان کی دشمن ملک وقوم اولاد جیلوں میں بند ہے لیکن اس کی باقیات حسب جرأت و ہمت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے
لئے اپنے تئیں کاوشیں کرتی رہتی ہے عارف علوی صاحب ریاستی و آئینی سربراہ کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ خود ایک اچھے آدمی کے طور پر بھی جانے اور پہچانے جاتے ہیں لیکن وہ پی ٹی آئی کے وفادار بھی ہیں تربیت یافتہ بھی ہیں انہوں نے اپنے دور صدارت کے دوران اپنی پارٹی کے ساتھ وفاداری بھی نبھائی ہے گو 9 مئی کے بعد ان کے ابوجی کے ساتھ تعلقات مثالی نہیں رہے ہیں وہ اپنے طور پر پارٹی اور اس کے سربراہ کو بچانے کی کاوشیں بھی کرتے رہے ہیں لیکن وہ طاقتور حلقوں کے ساتھ بھی جڑے رہے ہیں اپنی تنخواہ، پنشن وغیرہ محفوظ کرنے کی حکمت عملی نے انہیں حکمران حلقوں کے ساتھ مصالحانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کیا لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ صدارت کے بعد بھی انہیں سیاست میں زندہ رہنے کے لئے پارٹی کی ضرورت ہو گی اس لئے پارٹی کا حقِ نمک بھی ادا کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ پارٹی قائد پاکستان کی قیادت بشمول کیئر ٹیکر اور سالار اعلیٰ کو ناکام بنانے کے لئے حتیٰ الوسع کاوشیں کر رہے ہیں کبھی سپریم کورٹ کا دروازہ بجا بجا کر اور کبھی ایوان صدر کو ہلا جلا کر وہ جاری نظام کو کمزور اور ناکام ثابت کرنے کی سعی کر رہے ہیں صدر مملکت کو وہ مسلسل کہتے رہے ہیں کہ وہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں تا کہ قومی معیشت میں آنے والا تھوڑا بہت ٹھہراؤ اور بہتری ایک بار پھر ڈسٹرب ہو جائے اور مشکلات میں اور بھی اضافہ ہو جائے صدر مملکت کو بتا دیا گیا تھا کہ وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے جس سے کسی قسم کا عدم استحکام پیدا ہو۔ صدر پارٹی قائد کے حکم اور مقتدر حلقوں کی واضح ہدایات کے درمیان پھنسے ہوئے تھے وہ چاہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں کراچی سے ان کے صاحبزادے کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ ملے اس لئے انہوں نے پارٹی قیادت کی خوشنودی کے لئے 6 نومبر کو الیکشن کرانے کے لئے الیکشن کمیشن کو ایک خط کے ذریعے مشورہ دے ڈالا۔ انہوں نے لکھا کہ الیکشن کمیشن آئینی ضرورت کے مطابق الیکشن 90 روز کے اندر کرانے کے لئے نہ صرف سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرے بلکہ عدلیہ سے بھی رہنمائی حاصل کرے۔ چاروں صوبائی حکومتوں کا خیال ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے، کمیشن ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لئے اعلیٰ عدلیہ سے رہنمائی حاصل کرے، صدر علوی کے اس خط سے جاری سیاسی بے یقینی میں اضافہ ہو سکتا ہے ہماری قومی سیاست جو پہلے ہی گومگو اور افراط و تفریط کا شکار ہے اس خط کے بعد ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے کہ الیکشنوں کا 90 روز میں ہونا کتنا ضروری ہے، مردم شماری کے بعد ڈی لمیٹیشن بھی کیا اتنی ہی ضروری نہیں ہے؟ اگر ہے تو پھر الیکشن 90 روز میں کیسے ہونگے؟ الیکشن کمیشن اس بات کا بھی آئینی طور پر پابند ہے گویا آئینی بحث جو پہلے سے ہی جاری تھی، اور وکلا برادری اس حوالے سے تحریک چلانے کا اعلان بھی کر چکی ہے اور سیاسی جماعتیں بھی تقسیم نظر آتی ہیں ایسے میں صدر کے خط نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
ایک نئی بحث کہ آئین کے مطابق کیا ہونا چاہئے، شروع سے کنفیوژن بڑھتا چلا جا رہا ہے 90 دنوں میں الیکشنوں کا انعقاد آئینی ضرورت و تقاضا ہے لیکن نئی مردم شماری کے مطابق ڈی لمیٹیشن بھی تو آئینی تقاضا ہے پھر ایک تقاضا پورا کرتے ہیں تو دوسرا متاثر ہو جاتا ہے پیپلز پارٹی 90 دنوں میں انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے ویسے تو اس حوالے سے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے درمیان بھی فکری و نظری اختلاف سامنے آ چکا ہے۔ ن لیگ ڈی لمیٹیشن کے آئینی تقاضے کے ساتھ ہے۔ وکلا بھی اس حوالے تقسیم نظر آتے ہیں۔
الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے حوالے سے بھی متضاد باتیں ہو رہی ہیں اعلان کون کرے گا؟ صدر مملکت یا الیکشن کمیشن۔ آئین کیا کہتا ہے؟ 16 ماہی حکمرانوں نے بل کے ذریعے یہ اختیار کسے دیا تھا؟ کیا اس طرح صدر کا اختیار ختم کیا جا سکتا ہے؟ یہ بھی ایک لا ینحل مسئلہ ہماری قومی سیاست پر چھایا ہوا ہے صدر کے خط نے جاری منظر کو مزید دھندلا دیا ہے کنفیوژن میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ لڑکھڑاتی معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے۔ معلوم نہیں عارف علوی ریاست کے ساتھ ہیں یا قاسم کے ابو جی کے بچے ہیں؟۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.