امریکی میڈیا کی خوبی کہہ لیں یا خرابی کہ جب ان کے ریڈار پر کسی بڑے حکومتی عہدیدار کا ذاتی سکینڈل آ جائے تو پاکستان کی طرح اُسے دبایا نہیں جاتا بلکہ اُسے میڈیا میں لا کر چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ امریکی صدر کلنٹن کا وائٹ ہاؤس کی ملازمہ کے ساتھ معاشقہ سب کو یاد ہے جب صدر کو جھوٹ بولنے پر مواخذے کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح امریکہ کے ایک بہت بڑے فوجی جرنیل ڈیوڈ پیٹریاس جو عراق اور افغانستان میں بھی تعینات رہے جب وہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر تھے تو ایک صحافی خاتون جو ان کی سوانح نگاری کے سلسلے میں ان سے منسلک تھی اس کے ساتھ ان کے ناجائز تعلقات کی بنا پر انہیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور جنرل صاحب کو اپنی نوکری اور عزت دونوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ میڈیا نے اس معاملے کو جتنا اچھالا جا سکتا تھا خوب اچھالا۔ آج کل امریکی میڈیا کے ہاتھ ایک بہت بڑی Love story لگی ہے جس میں پاکستان کا نام گونج رہا ہے، یہ سٹوری پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد یعنی مارگلہ کی پہاڑیوں اور شہر کے مضافات اور ڈپلومیٹک اینکلیو کی رعنائیوں اور رنگینیوں سے پردہ اٹھاتی ہے اس میں اسلام آباد میں تعینات سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن کے ایک پاکستانی لڑکی کے ساتھ خفیہ تعلقات اور طویل معاشقے کی روداد کی تفصیلات منظر عام پر آرہی ہیں۔ بقول شاعر:
اب اس میں آگے تمہارا بھی نام آئے گا
جو حکم ہو تو یہیں روک دوں فسانے کو
2011ء میں ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکہ اور پاکستان کے مخدوش تعلقات کی بحالی کیلئے امریکہ نے 2012ء میں ڈپلومیسی کے سب سے اچھی شہرت رکھنے والے رچرڈ اولسن کو تین سال کے لیے یہاں تعینات کیا جو 2015ء تک یہاں مقیم رہے۔ آج کل انہیں اپنی اسلام آباد اور کچھ دیگر تعیناتیوں میں غیر اخلاقی رویے اور بدعنوانی کا سامنا ہے اور حالات و شواہد بتا رہے ہیں کہ ان الزامات پر ان پر فرد جرم عائد ہونا اور 6 ماہ تک قید بھی یقینی ہے۔ آج کل امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے Foreign Influence Law پر عمل درآمد میں سختی کا مظاہرہ کیا ہے جس کے تحت امریکہ سے باہر فوجی جرنیلوں اور سفارت کاروں کے Conduct پر گہری نظر رکھی جاتی ہے خصوصاً ریٹائرمنٹ کے بعد دوسرے ممالک میں ایڈوائزر رکھے جانے والے افسران کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے کہ دوسری حکومتیں ان جرنیلوں اور سفیروں کو آخر کس لئے بڑی بڑی مراعات پر بھرتی کرتی ہیں اس میں ایسے کیس سامنے آتے ہیں کہ ان امریکی اعلیٰ عہدیداروں نے اپنی امریکی ملازمت کے دوران ایسی غیر ملکی حکومتوں کی کیا Favor کی ہوتی ہے جس کے صلے میں انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں نوکری ملتی ہے۔ رچرڈ اولسن بھی کسی ایسے ہی ریڈار میں آگئے ان پر ایک الزام یہ ہے کہ جب وہ متحدہ عرب امارات میں امریکہ کے سفیر تھے تو ان کی ساس کو امیر آف دوبئی کی طرف سے 60 ہزار ڈالر کا ہیرے کاایک سیٹ گفٹ دیا گیا جو انہوں نے امریکہ کے تو شہ خانہ میں جمع نہیں کرایا۔ دوسرا الزام یہ ہے کے ریٹائر منٹ ہونے کے بعد حکومت قطر نے انہیں بزنس کلاس کا ایک ائیر ٹکٹ مفت بھیجا کہ وہ قطر آکر نوکری کے لیے انٹرویو دیں۔ تیسرا الزام یہ ہے کہ اسلام آباد میں قیام کے دوران انہوں نے ایک صحافی خاتون مونا حبیب کے ساتھ خفیہ تعلقات استوار کر لیے جو سالہا سال تک جاری رہے۔ الزام کا حساس حصہ یہ ہے کہ ان تعلقات کے بارے میں انہوں نے سی آئی اے کو اطلاع دی اور نہ ہی فارن آفس کے متعلقہ شعبے کو اس کی خبرہونے دی۔ ان تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ مونا حبیب کے ساتھ امریکی سفیر کا معاشقہ اس وقت اپنے انجام کو پہنچا جب مونا کو پتہ چلا کہ موصوف کے اس کے علاوہ اور عورتوں سے بھی تعلقات ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد دونوں میں پھر صلح ہوگئی اسی دوران رچر ڈاولسن کی بیوی مسز جونز لیبیا میں امریکی سفیر تھی۔ مونا کے ساتھ صلح کے بعد امریکی سفیر نے ایک پاکستانی بزنس مین مقیم امریکہ عماد زبیری کو کہا کہ مونا کو کولمبیا سکول آف جرنلزم میں داخلے پڑھائی کے سارے اخراجات کیلئے رقم مہیا کی جائے جس پر عماد زبیری نے مونا کو 25000 امریکی ڈالر دیئے جس سے مونا نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ تفتیش میں یہ بھی سامنے آیا کہ اس کے بعد رچرڈ نے اپنی پہلی بیوی کو چھوڑ کر مونا سے شادی کرلی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عماد زبیری آج کل ایک امریکی جیل میں کسی جرم پر سزا کاٹ رہے ہیں۔ اور امریکی حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنے سینئر سفیر کے اس شخص کے ساتھ تعلقات کے پیچھے کیا راز ہے۔ رچرڈ اولسن کی خفیہ اور ذاتی زندگی کے ان پہلوؤں سے پردہ اٹھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ مغرب میں ایمانداری اور فرض شناسی کی جو کہانیاں سنائی جاتی تھیں وہ سب من گھڑت ہیں اور اندر سے امریکی بھی اتنے ہی اخلاقی اور قانونی لحاظ سے کر پٹ ہیں جتنے پاکستانی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ساس کیلئے 60 ہزار ڈالر کے ہیرے کا سیٹ کا کیس چلا تو وہ اس کیس میں اس بنا پر بری ہو گئے کہ ان کی ساس ان کی زیرکفالت نہیں ہیں لہٰذا وہ ذمہ دار نہیں قرار دیے جاسکتے۔ البتہ کورٹ نے انہیں وہ ہیرے جواہرات واپس کرنے کا کہا مگر انہوں نے وہ واپس بھی نہیں کیے اسی دوران ساس کا انتقال ہو گیا اور کہانی ختم ہو گئی۔ مونا حبیب کے کیس میں بھی اب وہ چونکہ رچرڈ کی بیوی ہے اس لیے وہ کیس بھی تقریباً کلیئر ہے یہ دونوں معاملات رچرڈ کے کردار کے تعین کے لیے عدالت کے سامنے رکھے گئے ہیں۔ اب قطر کی طرف سے انہیں ہوائی ٹکٹ بھیج کر امریکہ سے بلائے جانے کے معاملے پر باز پُرس ہو رہی ہے۔ اس سارے قضیے میں ایک چیز واضح ہے کہ امریکی سفارت کار یا جرنیل جب ریٹائر بھی ہوجائیں تو امریکی حکومت ان کو من مانی کرنے اور آزاد فیصلہ سازی کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنے ملک کے مفاد کے برعکس کوئی عہدہ یا ڈیل قبول کریں اور یہ کارروائی وہ اپنی حکومت کو بتائے بغیر نہیں کر سکتے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ 2012ء سے 2015ء تک تین سال کے عرصہ میں ایک امریکی سفیر پاکستانی لڑکی کے ساتھ رنگ رلیاں مناتا رہا مگر کسی سرکاری ادارے یا میڈیا ہاؤس کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہو سکی یہ تو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کا کمال ہے کہ انہوں کے ایک دہائی پرانی واردات کا کچا چٹھا کھول دیا۔ اگر رچرڈ کو سزا ہو جاتی ہے تو انہیں اپنی 34 سالہ سفارتی زندگی کے وہ سارے اعزازات واپس کرنا پڑیں گے جو انہیں امریکی خدمات پر عطا کیے گئے تھے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.