بابائے کہوٹا، علمبردارِ کشمیر ہمارے حقیقی ہیرو

63

تدریسی مائنڈسیٹ جسے میں تدریسیت کہتا ہوں بنیادی طور پر تجزیاتی سوچ سے نابلد، آزادانہ فکر کا مخالف اور نظریہ سازی کا دشمن ہوتا ہے۔ ان کے ہاں طے شدہ راستوں پر مشقتی مہارت سے سفر، اچھا حافظہ اور زیادہ سے زیادہ حوالے کوٹ کرسکنے کی اہلیت ہی بڑی قابلیت قرار پاتی ہے۔ آپ مشاہدہ کیجئے گا یہ نئی اور اعلیٰ بات کو صرف اس وقت تک قبول کریں گے جب تک وہ ان کے طے شدہ تدریسی اور محدود ذہنی دائرے کے اندر ہوگی۔ جیسے ہی کوئی تخلیقی و تحقیقی کام ان کی سوچ سے بلند ہوگا یہ اسے محسوس کرنے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے اس کے دشمن ہوجائیں گے اور ہرطرف سے اس پر حملہ آور ہو کر اسے دفنانے پر تُل جائیں گے۔ بابائے کہوٹہ جاوید احمد کا شمار ایسے ہی شعراء میں ہوتا ہے جن کی شعری رفعت کی طرف دیکھتے ہوئے ہمارے ادبی بوزنوں کی دستاریں گرنے لگتی ہیں۔ آپ کا کشمیر پر نظریاتی کام بحیثیت پاکستانی شاعر جتنا مضبوط ہے اس کی مثال نہیں ملتی لیکن ایسے قومی ماحول میں اس مخلصانہ کام کی حیثیت کیا رہ جائے گی جہاں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین لاکھوں روپوں کی لسی پی کر سیٹ سے نیچے اترے اور یہ بھی نہ کہے کہ کشمیر ہمارا ہے۔
جاوید احمد صاحب سے پہلی ملاقات پی ایچ اے لاہور کے مشاعرے میں ہوئی۔ غالباً نظامت کے فرائض میرے ذمے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ بہت اعلیٰ شاعر ہیں اور انہیں بابائے کہوٹہ بھی کہا جاتا ہے۔ میں نے بہت تجسس سے ان کو سُنا ان کی شاعری سن کے میں ان کا قائل بھی ہوا اور ان کی طرف مائل بھی۔ یہ میری کمزوری ہے کہ میں امجد اسلام امجد، افتخار عارف اور دیگر تابشی شعراء کی طرح اچھے شاعروں سے خوفزدہ ہونے کے بجائے ان سے محبت کرنے لگتا ہوں اور میرے دل میں ان کا احترام پیدا ہوجاتا ہے اور مختلف مشاعروں یا موقع سے ان کو نکلوانے کے بجائے اس کوشش میں لگ جاتا ہوں کہ ان کی اعلانیہ تعظیم کروں تاکہ لوگ دیکھیں اور سچے ادب کی خوشبو کو محسوس کریں۔ سر جاوید احمد کے حوالے سے منعقد کی گئی آج کی اس تقریب کے انعقاد میں وقاص عزیز کے بعد میری خواہش کا بھی عمل دخل ہے۔ میں نے مطالعے کی غرض سے دلاور علی آذر کی مرتبہ کتاب، ”ایک پردہ سخن سے آگے ہے“ کھولی جس میں سر جاوید احمد کی منتخب غزلیں ہیں، پہلی دوغزلوں نے ہی مجھے اس
مضبوطی سے گرفت میں لیا کہ آگے بڑھنا مشکل ہوگیا۔ میں آپ لوگوں سے کچھ نہیں چھپاؤں گا میں غزلیں باری باری اور بار بار پڑھتے ہوئے جھوم بھی رہا تھا اور ساتھ ساتھ سوچتا جا رہا تھا کہ اگر میرا بس چلتا تو میں ظفر اقبال کو وکالت کے علاوہ کبھی کوئی کام نہ کرنے دیتا۔ اگر وہ کچھ کرنے پر زیادہ اصرار کرتے تو فرنیچر کی کوئی فیکٹری لگا کے دے دیتا اور سختی سے منع کرتا کہ کسی کے جانگیے میں دائیں بائیں ہاتھ مارنے جیسی گندی حرکتیں اگر کر بھی لو تو کسی کو بتایا نہ کرو۔ افتخار عارف کو تو درزی کی دکان سے ہی نہ اٹھنے دیتا اور کہتا چپ کر کے زنانہ شلواروں کی ترپائی کرو بیٹھ کے اِدھر اُدھر ہوئے تو گز سے دھلائی ہوگی۔
کہنے کا مطلب ہے کہ یہ کتنا اذیت ناک عہد ہے کہ جو حقیقی شعراء ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اللہ کے شاگرد ہیں ان کو پوری طرح دیوار سے لگا دیا گیا ہے اور وہ شعراء جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ وادی وادی پھرتے ہیں یعنی مشاعرہ مشاعرہ اور ادارہ ادارہ گھومتے ہیں خوشامدیں کرکے اور انڈر دی ٹیبل ڈیلیں مار کے افسریاں حاصل کرتے ہیں اور جو منہ سے کہتے ہیں کرتے نہیں۔ ایسے لوگ خود کو نہ صرف بڑے شاعر کہلوانے میں کامیاب ہیں بلکہ تمام تر نیچ پن سمیت خود کو معزز ثابت کرنے میں بھی کامیاب ہیں۔
فورٹ ولیم کالج کے وژن کے امین اور تسلسل کے ضامن امیجنری، جدت، تازگی، انفرادیت، استعارہ اور علامت کی رٹ لگانے والے رٹو طوطوں کو توفیق ہوتی تو اس ایک شعر پر کئی کئی کتابیں لکھ ڈالتے اور دیکھتے کہ شعر کی پَرَت در پَرَت پُراسراریت ختم ہی ہونے میں ہی نہیں آ رہی۔ لیکن مجھے کہنے دیجیے کہ یہ قابلیت صرف ادارکی تنقیدی دبستان کے پاس ہے کہ تجزیہ کرسکے اور بتا سکے کہ کیفیت کو تصویر بنانے کی ضرورت کب اور کس مرتبے کے شاعر کو پیش آتی ہے۔ کراہوں کو شعری اظہار میں لانے کے لیے لفظ کافی ہوتے اور مصرعہ سازی کا ہنر ضروری ہوتا تو شاعری دلی اور لکھنؤ سے باہر ہی نہ آسکتی۔
جاوید احمد کیفیات کو ایسی بامعنی، متحرک، اور گفتگو کرتی تصویروں میں ڈھالتا چلا جاتا ہے کہ اگر کسی شعر پر لفظی تشریح کی سوچ ہی دماغ میں آجائے تو لگتا ہے معمولی سا دھیان بھی ادھر ادھر جانے سے شعر کا تقدس مجروح ہو جائے گا۔
ایک اور شعر میں کیفیت کے تصویر میں ڈھلنے اور تصویر کے تحرک میں آ جانے کی مثال دیکھئے جسے ہم آج کے رواج کے مطابق ویڈیو بھی کہہ سکتے ہیں۔۔
قدم کچھ اس لیے بھی موت کی طرف ہیں تیز
ہمارے پیچھے لگا دی گئی ہے یہ دنیا
یوں لگتا ہے ہمارے سامنے نہ صرف ایک فلم چل پڑی ہے بلکہ ہم خود بھی اس کا حصہ ہیں۔
اگرچہ امیجری کے حوالے پڑھ یا سن کے بہت سے مصنوعی شعراء نے زبردستی کے امیجز اور غیرضروری علامتوں، استعاروں کے شعوری استعمال سے خود کو جدید شعراء کی صف میں لانے کی کوشش کی لیکن شعری تاثیر اور نظریہ کہاں سے لاتے جو پھوٹتا ہی انسان کے باطن اور زندگی کے بطن کی حقیقتوں سے ہے۔
میں آپ کو حقیقت بتاؤں ہمارے ہاں غزل کے شعراء کی اکثریت کو نہیں پتہ کہ نظریہ ہوتا کیا ہے اور خاص طور پر یہ کیا مصرعہ ہے کیا مصرعہ ہے کہہ کر شعر کے بجائے مصرعوں پر داد دینے والے تو بیچارے انجانے میں شعری جہالت کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ حقیقی اور بڑا شاعر جاوید احمد کی طرح زندگی کی کٹھنائیوں کے انسانی اور کائناتی شعور کے ساتھ لطیف ترین احساسات کو نظریے کی تسبیح میں پرو کر شعر بناتا ہے کہ سننے اور پڑھنے والے پلک جھپکنے میں عصری و تاریخی شعور کی منزلیں طے کرنے لگتے ہیں۔ غزل دیکھئے……
ابھی یہ سلسلہ معلومات جاری ہے
کہ رقص کیا یہ تہ ِ موجودات جاری ہے؟
ہوائیں جشن میں ہیں جست بھر کی دوری پر
چراغ سکتے میں ہیں واردات جاری ہے
سکوت ٹوٹ گیا ہے مگر ابھی تک بھی
لرز رہی ہے زباں پر جو بات، جاری ہے
غرور ِ چشم نے سر تو نہیں کیا ابھی دل
مگر یہ جنگ سر ِ سومنات جاری ہے
سنبھال رکھا ہے سارا نظام اندھیروں نے
چراغ ختم ہوئے اور رات جاری ہے
ذرا غور فرمائیے کہ شاعر نے کس طرح دنیا میں ہونے والے سیاسی، سماجی، معاشی ہر طرح کے استحصال کو بے نقاب کیا ہے، جبر و تسلط کی واردات کھول کے رکھ دی ہے لیکن مجال ہے کہ کہیں ایک پل کے لیے بھی شعریت کمزور پڑنے دی ہو۔ جاری ہے کا ردیف یہاں ایک بار پھر جاوید احمد کی علامتوں، استعاروں اور تشبیہوں کو متحرک کردینے کی قابلیت کی نشاندہی کرتا نظر آتا ہے۔ ردیف نے جیسے کائنات میں ازل سے جاری و ساری خیر و شر کی جنگ کی کتھا بیان کر کے رکھ دی ہے۔ یہی ایک بڑے شاعر کا شعری معجزہ ہوا کرتا ہے کہ وہ انسانی جمالیات کی نشوونما تو کرتا ہی ہے ساتھ ساتھ سماجی و سیاسی شعور بھی بخشتا ہے۔ وہ شعور جس سے مقتدر طبقہ ہمیشہ خوفزدہ رہا ہے، خوفزدہ ہے اور خوفزدہ رہے گا۔
(جشن احمد جاوید میں پڑھا گیا مضمون)

تبصرے بند ہیں.