آج بھی ہے اور اس دھرتی جس کو برصغیر کہتے ہیں پرانی روایت ہے قانون نہیں کہ جب کسی ملزم کے فرار ہو جانے پر پولیس اُس کے والد، بھائی، بہن، ماں کو تھانے لے جاتی تو پہلے ملزم درمیان کوئی سفارش ڈالتا کہ میرے رشتہ دار کو چھوڑ دیں اگر ایسا نہ ہوتا تو بالآخر وہ تنگ آ کر اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا کرتا۔ ایک نہیں مجھے سیکڑوں واقعات یاد ہیں، ہم خود سفارش کرتے رہے ہیں۔ مگر وہاں ملزم کے گرفتار لواحقین بے گناہ ہوا کرتے تھے صرف ملزم ہی ارتکاب جرم کے بعد راہ فرار پاتا۔ 9/11 کے واقعہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پہلے جمرود (باڑہ) قاتلوں کی پناہ گاہ ہوا کرتا تھا۔ اصغر بٹ (فاروق گنج لاہور) تو قتل ہی جمرود میں ہوا تھا۔ مفرور ہونے والے ملزمان گھر والوں کی تنگی نہ دیکھ پاتے۔ ہمارے بچپن بلکہ لڑکپن کی بات ہے 60/70 کی دہائی میں لاہور کا شاہیا پہلوان اور اُس کا بیٹا ججی پہلوان جس کو ”ججی شاہیئے دا“ کہتے تھے، بہت مشہور تھے۔ ان کا جوا خانہ پورے پنجاب میں مشہور تھا۔ ہیرا منڈی میں ججی شاہیئے دا اکثر فائرنگ کرتا ہوا نظر آتا۔ میرا نہیں خیال کہ اس جتنی ہوائی فائرنگ کسی اور ڈان نے کی ہو۔
ایک دن شاہیا پہلوان کے ڈیرہ پر لاہور کی پولیس نے بھرپور کریک ڈاؤن کیا، جواریے تتر بتر ہو گئے اور ججی پہلوان بھی محلے کے کسی گھر میں پناہ گزین ہو گیا مگر اس کے باقی بھائی اور شاہیا پہلوان پولیس کے قابو آ گئے۔ یہ موبائل اور ہاتھوں میں ویڈیو کیمرے تو اب آئے ہیں تب کہاں ایسی سہولت تھی۔ پولیس کی بھاری نفری نے غالباً چودھری شفقات مرحوم کی قیادت میں بھرپور کارروائی کی۔ لاٹھی چارج عروج پر تھا، کسی نے ججی پہلوان کو بتایا کہ پہلوان تمہارے والد شاہیا پہلوان پکڑے گئے ہیں اور پولیس کا تشدد جاری ہے۔ ججی پہلوان نے پوری بات بھی نہ سنی اور فوراً پولیس کے اندھا دھند تشدد میں اپنے باپ کی خاطر اپنے باپ پر برسنے والی لاٹھیاں اپنے بدن پر سہنا شروع ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ججی
پہلوان سر سے پاؤں تک کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں لاٹھیوں کے نشان اور زخم نہ ہوں وہ ایک لمحہ بھی اپنے باپ کو اکیلا پولیس کے نرغے میں برداشت نہ کر سکا۔ وطن عزیز کی سیاست کے 45 سال ہمارے سامنے ہیں لوگوں نے جمہوریت کی بحالی کی خاطر، گریٹ بھٹو نے وطن عزیز کو ایٹمی قوت بنانے، تیسری دنیا، اسلامی دنیا کے پلیٹ فارم پر متحرک کردار کی وجہ سے جیل ہی نہیں سولی جھول لی۔ اس کے علاوہ آقا کریمﷺ کو آخری نبی نہ ماننے والوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دینا ان کا جرم بن گیا، آزادیئ ہند، تحریک پاکستان، تحریک بحالی جمہوریت میں لوگوں نے جیل کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔ ایک بہت لمبی لسٹ ہے جن لوگوں نے جیل کاٹی۔ نیلسن منڈیلا، ابوالکلام آزاد، جبار مرزا، غفار خاں، آصف علی زرداری، رسول بخش پلیجو لمبی جیل کاٹنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو مردوں کی جیل میں رکھا گیا۔ مریم نواز، نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ، خاقان عباسی، تقریباً ن لیگ کی پہلے درجے کی قیادت اور پیپلز پارٹی نے گریٹ بھٹو سے عام ورکر تک جیل اور شاہی قلعہ میں قید دیکھی۔ صحافی جیل میں رہے منہاج برنا، سید عباس اطہر و دیگر لوگوں نے جیل کاٹی مگر سب کی جیل اور مقدمات سیاسی تھے۔ چودھری پرویز الٰہی کچھ عرصہ سے گرفتار ہیں جس دن گرفتار کیے گئے پولیس ان کو ایسے لے جا رہی تھی جیسے کسی جوا خانہ پر چھاپہ مارا اور گرفتار کیا ہے پھر اب حالیہ جب وفاقی پولیس کے ڈنڈا ڈولی کر کے سپرد کیا گیا تو لگ رہا تھا جیسے لحد میں اتارے جا رہے ہیں یہ سب کیوں ہے یہ کوئی صریحاً سیاسی مقدمہ نہیں ہے۔ عدلیہ کی جانبداری کا جواب بھی ہے اور مونس الٰہی کے ایک غلط اطلاع پر سیاسی فیصلے کی پاداش میں بننے والے مقدمات بھی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ مقدمات محض سیاسی ہیں، ایسا نہیں ہے۔ چودھری مونس الٰہی پر مالی حوالے سے مقدمات ہیں اور پرویز الٰہی پر ناجائز بھرتیاں و دیگر مقدمات ہیں غرض کہ کرپشن بنیاد بنا کر مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ بادیئ النظر میں چودھری پرویز الٰہی کی قید کوئی سیاسی قید نہیں۔ یہ اپنے بیٹے کی سیاست بچانے کی قید کاٹ رہے ہیں۔ عوام، اصول، نظریہ کچھ نہیں صرف اپنے بیٹے کی آئندہ سیاست کو بچانے کے لیے کیونکہ گجرات کی سیاست اب تقسیم ہو چکی۔ اگر مونس الٰہی کے ہاتھ صاف ہیں اگر کچھ سچ نہیں جو مقدمات کہتے ہیں تو ان کو اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دینا چاہئے۔ یہ واحد سیاست دان ہیں چودھری پرویز الٰہی جو کسی نظریہ نہیں صرف بیٹے کی سیاست کی خاطر قید میں ہیں۔ میں سوچتا ہوں ان سیاست دانوں سے تو ڈان ہی بہتر ہے جو باپ کا سن کر بھرپور تشدد میں پولیس کی برستی ہوئی لاٹھیوں کی زد میں آ گیا۔ اللہ چودھری پرویز الٰہی کو زندگی دے اگر کچھ ہو گیا تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ ملک، قوم، پنجاب، نظریہ، سیاست یا کسی اصول کی خاطر تھا یہ سب اپنے بیٹے کی خاطر ہے اور بیٹے کی خاطر قربانی کے کوئی ووٹ نہیں دیا کرتا۔ پرویز الٰہی جس جماعت کے صدر ہیں اُن کے کسی ایک ورکر نے بھی ان کی خاطر آواز نہیں اٹھائی۔ بیٹا بیرون ملک اور باپ پولیس کے ہاتھوں ہاتھ بیاہ کی روٹی کی طرح آگے سے آگے چلا جا رہا ہے جب سیاست بھی جوا سمجھ کر کھیلی جائے گی تو سلوک بھی جوا خانہ جیسا ہو گا۔ نظریاتی طور پر تو چودھری پرویزالٰہی مشرف کو 15 بار وردی میں صدر منتخب کرنے کے دعویدار تھے، عمران نیازی باجوہ کو عمر بھر کی ایکسٹینشن پر راضی تھے۔ کوئی نظریہ نہیں کوئی پروگرام نہیں، محض آئندہ کی سیاست بچانے کے لیے اس تاریخی تذلیل کو اگر کوئی عزت سمجھے تو سمجھا کرے۔ مگر کاش یہ کسی سیاسی اصول کی خاطر ہوتا۔ ایک بہت خوبصورت نوجوان انتہائی بہادری سے قتل ہو گیا جس پر میرے سینئر وکیل جناب خواجہ جاوید نے کہا ”اگر یہ میدان جنگ میں ایسا کرتا تو اس کو نشان حیدر ملتا“۔ پولیس مقابلے میں گولی کا نشانہ بننے اور بھارتی فوج کے سامنے سینے میں گولی کھانے میں بڑا فرق ہے۔ نظریاتی سیاست کی خاطر قید نسلوں کا اثاثہ ہوا کرتی ہے مگر مفاد، مقدمات، اولاد کی خاطر قید کبھی سیاسی اثاثہ نہیں نہیں بن سکتی۔ میں تو اتنا ہی کہوں گا کہ ججی شاہیئے دا چودھری مونس الٰہی سے بہتر تھا باپ کو مصیبت میں تنہا تو نہیں چھوڑا تھا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.