اگر دنیا کر سکتی ہے!

54

”تم بتاؤ آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے“ ڈاکٹر صاحب نے چائے کی پیالی میز پر رکھی، غور سے کھڑکی کی طرف دیکھا اور میری طرف متوجہ ہو کر بولے۔ میں نے سر جھکایا اور تھوڑی دیر سوچنے کے بعد جواب دیا ”دہشت گردی“۔ ڈاکٹر صاحب نے گردن کی ہلکی سی جنبش سے میرا جواب مسترد کر دیا۔ میں نے دوبارہ عرض کیا ”جمہوریت“ ڈاکٹر صاحب نے پھر ناں میں گردن ہلا دی۔ میں نے کچھ دیر توقف کیا اور فاتحانہ انداز میں جواب دیا ”سیاست“ مگر ڈاکٹر صاحب نے یہ جواب بھی مسترد کر دیا۔ میں دیر تک سوچتا رہا لیکن کوئی جواب نہ بن پایا، میں نے ہاتھ کھڑے کر دیے اور سوالیہ نظروں سے ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھنے لگا۔ ڈاکٹر صاحب نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا، خالی کپ میز پر رکھا اور دونوں ہاتھوں سے اپنی واسکٹ کو درست کرتے ہو ئے بولے ”معیشت“۔ میں نے وضاحت طلب نظروں سے ان کی طرف دیکھا، وہ گویا ہوئے: ”معیشت آج نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور جو ملک معاشی طور پر بدحال ہیں وہ عالمی سیاست میں بھی ناکام ہیں۔ جو ملک اقتصادی طور پر خوش حال ہیں ہر ملک ان کی عزت کرتا ہے، ان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدیں محفوظ ہیں، ایسے ملکوں میں خواندگی کی شرح سب سے زیادہ ہے، وہاں تعلیم، رہائش اور علاج جیسی بنیادی سہولتیں مفت ہیں، لوگ ایک دوسرے کا احساس کرتے ہیں، معیار زندگی بلند ہے، جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اور ایسے ملکوں میں جمہوریت بڑی کامیابی سے چل رہی ہے۔ اس کے برعکس جو ملک اقتصادی طور پر بد حال ہیں ان کی نظریاتی سرحدیں محفوظ ہیں نہ جغرافیائی، وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے محتاج ہیں، ان کی پالیسیاں باہر سے بن کر آتی ہیں، ان کا بجٹ آئی ایم ایف بناتا ہے، ان کی جمہوریت امریکہ کے رحم و کرم پر ہوتی ہے اور ان کے صدر اور وزیراعظم تک ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف منتخب کرتا ہے“۔ ڈاکٹر صاحب سانس لینے کے لیے رکے اور گویا ہوئے ”ملک کی مثال ایک گھر کی سی ہوتی ہے جس طرح آپ مناسب آمدنی کے بغیر ایک خوشحال گھر نہیں چلا سکتے اسی طرح جب تک آپ کا ملک اقتصادی طور پر خود کفیل نہ ہو آپ بین الاقوامی برادری کے شانہ بشانہ نہیں چل سکتے“۔ لیکن ڈاکٹر صاحب ہم، ہمارا میڈیا اور ہمارے حکمران تو دہشت گردی، جمہوریت اور سیاست کو موجودہ دور کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلو بدلا اور افسردگی سے بولے ”ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ٹھیک وقت پر مرض کی نشاندہی نہیں کر پا تے اور جب وہ مرض لا علاج ہو جاتا ہے تب ہماری آنکھیں کھلتی ہیں لیکن اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ میڈیا، حکمران اور سیاست دان ہمیں غلط گائیڈ کر رہے ہیں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور جمہوریت نہیں بلکہ اقتصادیات ہے اور ہم جب تک اقتصادی طور پر خود مختار نہیں ہوتے ہمارے مسائل جوں کے توں رہیں گے بلکہ مستقبل قریب میں ان میں شدت آئے گی اور ہم بین الاقوامی برادری میں ایک مذاق بن کر رہ جائیں گے“۔ ڈاکٹر صاحب اس کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ”دیکھیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے جان چھڑانے اور اقتصادی طور پر خود مختار ہونے کے لیے ہمارے پاس دو آپشن ہیں۔ ایک، پاکستان کے امیر ترین اور ارب پتی افراد سامنے آئیں، یہ تئیس کروڑ عوام کے سر پر ہاتھ رکھیں اور اس ملک اور عوام کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیں۔ یہ سب سے پہلے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا سارا قرضہ ادا کریں اور سیاست دانوں سے حلف لیں کہ وہ آئندہ ان اداروں سے قرض نہیں لیں گے۔ انتظامیہ سوئزرلینڈ کے بنکوں اور دیگر کرپشن کرنے والے افراد اور اداروں سے رقم واپس لے اور اسے بجلی کے پاور پلانٹس اور پاک ایران گیس پائپ لائن پر لگا دیں، ان پیسوں سے عالمی معیار کی یو نیورسٹیاں بنائیں، ریسرچ سنٹر قائم کریں، ذہین طلبا کو سکالرشپ دیں، ملازمین کی تنخواہیں بڑھا کر کر پشن فری معاشرہ قائم کریں اور مستقبل کی پلاننگ کے لیے تھنک ٹینکس قائم کریں۔ یہ ارب پتی افراد شہروں سے دور قصبوں اور دیہاتوں میں چھوٹی انڈسٹری کو فروغ دیں اور مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع فراہم کریں۔ پاکستان کے ہر شہر کی کوئی نہ کوئی صنعت عالمی شہرت رکھتی ہے، مثلاً فیصل آبا دکا کپڑا بہت مشہور ہے، سیالکوٹ کا فٹ بال اور کھیلوں کا سامان عالمی شہرت رکھتا ہے، وزیر آباد کے چاقو چھریاں اور کٹلری کا سامان بہت مشہور ہے، چنیوٹ میں فرنیچر اور لکڑی کا کام بہت اچھا ہوتا ہے، ملتان اور اس کے گردونواح کی کپاس دنیا بھر میں شہرت رکھتی ہے، حافظ آباد، نارووال، گوجرانوالہ اور گجرات کا باسمتی چاول دنیا بھر میں شوق سے کھایا جاتا ہے، کراچی میں مچھلی کا کاروبار ہے، کے پی کے کے پھل دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں اور بلوچستان کے خشک میوہ جات عالمی منڈے میں اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ انتظامیہ ان ارب پتی افراد کے ساتھ مل کر متعلقہ شہروں میں مذکورہ انڈسٹری کو فروغ دیں، کام کی نوعیت کو بہتر بنائیں، یورپی منڈیوں تک رسائی حاصل کریں اور اپنی مصنوعات کو انٹر نیشنل مارکیٹ میں لانے کے لیے ہر حد تک جائیں۔ اگر چین الیکٹرونکس، جاپان آٹو موبائل، بنگلہ دیش پٹ سن، بولیویا تمباکو، ہنڈوراس کیلے اور سوئزر لینڈ ٹوور ازم انڈسٹری کی بنیاد پر ترقی کر سکتے ہیں تو ہم ٹیکسٹائل، کاٹن، نمک، سیمنٹ اور چاول انڈسٹری کی بنیاد پر ترقی کیوں نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس دنیا کا سب سے بڑا ہیومن ریسورس ہے، ہمارے پاس کروڑوں نوجوان ہیں، آپ ان نوجوانوں کو ملکی ترقی میں شامل کرنے کے لیے انہیں کسی نہ کسی انڈسٹری کے ساتھ جوڑ دیں، آپ انہیں مچھلیاں پکڑ کر نہ کھلائیں بلکہ ان کو مچھلی پکڑنے کا ہنر سکھا دیں۔ جب تک معاشرے کا ہر فرد خود کو اقتصادی طور پر مضبوط نہیں کرے گا تب تک اس ملک کی معیشت ٹھیک نہیں ہو گی۔“ رات کافی گہری ہو چکی تھی، کھڑکی سے اندر آنے والی خنک ہوا ہڈیوں کے اندر تک اترتی چلی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں نیند کے بادل گہرے ہوتے جا رہے تھے، میں نے مزید گفتگو مناسب نہیں سمجھی اور واپسی کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔

تبصرے بند ہیں.