صحت کے سوداگر

57

بلا شبہ ہم ایک مارکیٹنگ اور کمرشلائزیشن کے دور میں جی رہے ہیں۔اب تو حالت یہ ہو چکی ہے کہ ہماری زندگی سے جڑی ہر شے پر اشتہارات کا اثر نظر آتا ہے۔ اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو آج کے دور کے انسان کی زندگی میں مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزمنٹ کے سونامی نے سکون اور خوشی مہیا کرنے کے بجائے الٹ اثر کیاہے اور ہم جیسے لوگوں کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی کہ ہم کارپوریٹ دنیا کے لالچ اور دولت کی ہوس کا کس بری طرح شکار ہوتے چلے جاتے ہیں اورہماری زندگیاں کارپوریٹ مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنتی چلی جا رہی ہیں۔ مارکیٹنگ اور اشتہارات کا کاروبار اس وقت گھناؤنی صورت اختیار کر لیتا ہے جب دوا ساز کمپنیاں خوف کی مارکیٹنگ کرتی ہیں۔ جی ہاں دنیا کی بڑی بڑی دوا ساز کمپنیاں میڈیا کے ذرائع اور ڈاکٹروں کے گٹھ جوڑ سے صحت مند لوگوں کو بیماریوں کے خوف میں مبتلا کرنے کی مارکیٹنگ کرتی ہیں۔ اس طرح دنیا کا ہر صحت مندانسان خود کو کسی نہ کسی بیماری کے دہانے پر محسوس کرتا ہے۔ بیماریوں کا یہ مسلسل خوف ایک مستقل ذہنی اذیت ہے اور ذہنی دباؤ اگر مسلسل رہے تو اچھا بھلا صحت مند انسان کسی نہ کسی بیماری کی پکڑ میں ضرور آ جاتا ہے۔ مسلسل ذہنی دباؤ انسانی قوت مدافعت کو متاثر کر کے بیماریوں کو دعوت دیتا ہے۔
آسٹریلیا میں کچھ سال پہلے ایک مشہور دوا ساز کمپنی کی کانفڈشیل رپورٹ افشا ہوئی۔ اس رپورٹ میں اس فارماسوٹیکل کمپنی اور ایک میڈیکل کالج کے نصاب ترتیب دینے والے ڈائریکٹرز کے درمیان راز دارانہ کمیونیکیشن تھی۔ جس میں فارما سوٹیکل کمپنی نے تجاویز دی ہوئی ہیں کہ انسانی جسم میں طبیعت کا ایک معمولی سا اتارچڑھاؤ جو اگرچہ غذا کے ردوبدل سے آسانی سے ٹھیک ہو سکتا ہے اسے ایک خوفناک اور بڑی بیماری کے طور پر میڈیکل کے طلباء کو پڑھایا جائے۔ اس کا نام بھی
تجویز کیا کہ اسے irritable bowel syndrome(IBS)کہا جائے۔واضح رہے کہ یہ کانفیڈنشل بات چیت نوے کی دہائی میں ہوئی اور اس سے پہلے IBSبیماری کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ دواساز کمپنیاں‘ٹی وی اخبارات‘ ریڈیو کے ذرائع استعمال کر کے صحت مند لوگوں کو اس خوف میں مبتلا کر دیتی ہیں کہ ان میں فلاں وٹامن کی شدید کمی ہو چکی ہے اور فلاں وٹامن اگر انہوں نے گولیوں کی شکل میں روزانہ استعمال نہ کیا تو انہیں جلد ہی کوئی مہلک بیماری لاحق ہو جائے گی۔ خوف کی مارکیٹنگ کرنے پر دوا ساز کمپنیاں‘ کروڑوں اربوں لگاتی ہیں۔ اس کے لئے سیمینار کئے جاتے ہیں ورکشاپس کی جاتی ہیں۔ لوگوں کے مفت ٹیسٹ کرنے کے لئے کیمپس لگائے جاتے ہیں۔ بیماریوں میں مبتلا افراد کے اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر میڈیا میں پیش کئے جاتے ہیں۔
بیماریاں اگرچہ زندگی کا حصہ ہیں۔ ہر شخص کبھی نہ کبھی ضرور بیمار ہوتا ہے لیکن یہ کمپنیاں تو ہمیں مستقل طور پر مہلک بیماریوں کے خوف میں مبتلا رکھ کر اپنا کاروبار بڑھا رہی ہیں۔ ہم لوگ اکثر ان بیماریوں کے بارے میں معلوماتی مضمون پڑھ رہے ہوتے ہیں یا ویڈیوز دیکھ رہے ہوتے ہیں جو ہمیں لاحق ہی نہیں ہوتیں۔ اس لئے کہ غیر ارادی طور پر ہم اس کے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ نامحسوس طریقے سے پورا عالمی سماج خوف کی اس مارکیٹنگ اور بیماریوں کی سوداگری کی وجہ سے صحت کے ایسے جنون میں مبتلا ہو چکاہے جو بجائے خود ایک بیماری ہے۔ اچھی اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اب اس گھناؤنے کھیل کے ردعمل کے طور پر سچائی کی آوازیں بھی اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ مغرب میں بھی طب سے وابستہ سائنسدانوں نے اس پر آواز اٹھائی ہے اور اس سارے عمل کو انہوں نے unhealthy obsession with healthکا نام دیا ہے۔
یہ آوازیں جو انسانیت کے حق میں اور ایک حقیقی صحت مند عالمی سماج کے لئے اٹھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ دوا ساز کمپنیاں اتنا بڑا مافیا بن چکی ہیں کہ ہماری زندگیاں اور ہماری صحت ان کے قبضے میں ہیں اوریہ ہمیں ہر صورت میں بیمار دیکھنا چاہتی ہیں۔ مثلاً سوشل فوبیا SBبھی ایک ایسی ہی خود ساختہ بیماری ہے جس میں آپ کو یقین دلا دیا جاتا ہے کہ اگر آپ مجمع میں بات کرنے سے گھبراتے ہیں تو آپ سوشل فوبیا نامی نفسیاتی بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس کے علاج کے لئے آپ سائیکائٹرسٹ کے پاس جائیں اور دواؤں کے پلندے کھائیں۔
بڑے مجمع میں بات کرتے ہوئے گھبرانا ایک فطری سی بات ہے۔ اس میں کسی طور دماغ کے کیمیکل کا توازن نہیں بگڑتا۔ گھبراہٹ کی یہ کیفیت عارضی سی ہوتی ہے مگر کیا کریں کہ فارما سوٹیکل مافیا نے ہر صورت صحت مندوں کو بیماری میں مبتلا کرنا ہے۔ اس لئے اگر آپ کہیں گے آپ بیمار نہیں ہیں اور بالکل تندرست ہیں تو یہ مافیا اس کو بھی ایک بیماری ڈکلیئر کر دے گا اور اس کا نام denial disorder syndrome رکھ دیا جائے گا۔ پھر اس کو طب کی کتابوں میں DDSکے نام سے پڑھایا جائے گا اور اس کے بعد اس کے علاج کے لئے آپ کو دوائیں کھانا پڑیں گی۔
کسی سیانے بندے کا کہنا ہے کہ بیماریوں کے بارے میں معلومات اکٹھے کرتے رہنا بھی ایک بیماری ہے اور سچی بات یہ ہے کہ ہمارے سماج کو اب یہ بیماری لاحق ہو چکی ہے۔ یہاں باقاعدہ بیماریوں کے دن منائے جاتے ہیں۔ بیماری کا چرچا ہوتا ہے علامات بتا بتا کر ہر شخص کو اس خوف میں مبتلا کر دیا جاتا ہے کہ وہ جلد یا بدیر اس بیماری میں مبتلا ہونے والا ہے۔ خوف کی مارکیٹنگ کرتے ہوئے بیماریوں کی جو معلومات ہم تک پہنچتی ہیں وہ corporate fundedہوتی ہیں اور اس مافیا کا مقصد یہی ہے کہ صحت مند انسانوں کو ہر صورت بیمار کر دیا جائے گا یا پھر بیماری کے خوف میں مبتلا کر دیا جائے اور یہ مافیا اس کے لئے نئی سے نئی خود ساختہ بیماریاں ایڈورٹائز کرتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.