مولانا فضل الرحمان سے معروف شاعر سلمان گیلانی کی رہائش گاہ پر دو گھنٹے سے بھی زائد گپ شپ ہوئی، اہتمام جمعیت العلمائے اسلام پنجاب کے نئے سیکرٹری اطلاعات محمد غضنفر عزیز نے کیا تھا اور یہیں مرکزی ترجمان محمد اسلم غوری سے بھی ملاقات ہوئی۔ میں مولانا فضل الرحمان کے بارے رائے رکھتا ہوں کہ وہ بہت تجربہ کار، سیانے اور کائیاں سیاستدان ہیں۔ وہ جو کہنا چاہتے ہیں اسے کہنے کا انداز جانتے ہیں۔ وہ ملک کی معاشی صورتحال کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں اور ان سے جڑے اضلاع بنوں، ہنگو، کرک وغیرہ کی بات کر تے بتا رہے تھے کہ وہاں کی صورتحال کے باعث انتخابی مہم نہیں چلائی جاسکتی۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے بہت کچھ بتایا مگر میں آن دی ریکارڈ اتنا ہی بولوں جتنا بولنا قوم کے مفاد میں ہو۔یہ بھی کہہ دوں کہ میرے سمیت کوئی بھی مولانا کے سیاسی اور جمہوری فہم کا انکار نہیں کر سکتا۔ وہ جمعیت العلمائے اسلام کی دو سو برس کی نظریاتی جدوجہد کے پاسبان ہیں اور ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف جدوجہد ہو یا مشرف کے مارشل لا میں راستہ نکالنے کی بات، اس میدان کے بھی سرخیل رہے ہیں۔ وہ جب قبائلی علاقوں بارے باتیں کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ پنجاب کے لوگوں کو اس بارے کچھ زیادہ علم نہیں تو میں نے اس گفتگو پر اپنے تاثرکا اظہار کیا۔ میں نے کہا، مجھے لگتا ہے کہ آپ بھی انتخابات کے انعقاد کے حق میں نہیں۔مولانا فضل الرحمان نے جواب دیا کہ مجھے یہی خطرہ تھا کہ جب میں زمینی حالات بتاوں گا تو کوئی نہ کوئی یہی سمجھے گا۔
مولانا فضل الرحمان نے الیکشن کی تاریخ کو الیکشن کمیشن کی ذمے داری قرار دیا اورمیں کہتا ہوں کہ اصولی طور پر ان کی بات درست ہے مگر میں ان کی طرف سے انتخابی مہم ناممکن یا مشکل ہونے کی رائے کوکم اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ ہمارے کچھ دوست وہاں پر پی ٹی آئی کے چیئرمین کا غیر ضروری ذکرکررہے تھے اورکہہ رہے تھے کہ اگر انتخابات فروری کے بعد بھی نہ ہوئے تو کیا مولانا فضل الرحمان اور عمران خان انتخابات کے لئے ایک ہی ٹرک پر سوار ہوں گے۔ میں نے مولانا کی جتنی گفتگو سنی، میرا تاثر یہی تھا کہ وہ اٹک جیل کے قیدی کے ساتھ ٹرک پر سوار نہیں ہوں گے۔ مجھے اس موقعے پر خواجہ سعد رفیق یاد آ گئے کہ جب عمران خان کے جبر کے دن عروج پر تھے تو اس وقت خواجہ رفیق شہید کے صاحبزادے نے اس جمہوری آمر کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ وہ دن ضرور آئے گا جب تم ہمارے ساتھ ٹرک پر سوار ہونا چاہو گے۔ اب جہاں اٹک جیل سے وکیل کے ذریعے پیغامات بھیجے جا رہے ہیں کہ وہ تمام سیاستدانوں اور تمام اداروں سے بات چیت کرنے کے لئے تیار ہیں تو اس وقت کوئی ان سے ہاتھ ملانے کے لئے تیار نہیں۔ سچی با ت تو یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نے اپنی وزارت عظمیٰ میں کسی کو اس قابل چھوڑا ہی نہیں کہ وہ ان کے لئے نرم رویہ رکھ سکے۔ میرا خیال بھی ہے اور خواہش بھی ہے کہ انتخابات فروری میں ہو جائیں مگر میں ابھی تک اس حوالے سے ففٹی ففٹی ہوں۔ مجھے عشروں کی صحافت کے تجربے کی بنیاد پر کچھ اور اشارے بھی مل رہے ہیں جیسے ابھی دو، تین روز پہلے لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر کاشف انور میرے ساتھ گپ شپ کررہے تھے۔ کاشف انور ایک بہت ہی خوبصورت اور لاجواب شخص کا نام ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ لاہور میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات میں انہوں نے بطور صدر لاہور چیمبر واضح طور پر کہا کہ بزنس کمیونٹی الیکشن نہیں چاہتی، وہ الیکشن سے پہلے چارٹر آف اکانومی چاہتے ہیں۔ صنعتکاروں کی پاک فوج کے سپہ سالار سے بھرپور قسم کی ملاقات کا اہتمام پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے کیا تھا۔ کاشف انور کے پاس وہ تمام دلائل موجود تھے جو اس حوالے سے دئیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے میرے اعتراض پر کہا کہ یہ مطالبہ ملک بھر کے چون ایوان ہائے صنعت و تجارت کے اسلام آباد میں ہونے والے کنونشن میں ایک قرارداد کے ذریعے کیا گیا یعنی یہ ان کا ذاتی مطالبہ نہیں تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ یہ ملک بائیس فیصد سیلز ٹیکس، پچیس فیصد شرح سود اور چالیس فیصد افراط زر کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں جانے سے پہلے بتانا ہوگا کہ ان کا اکنامک ایجنڈا کیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے اس مطالبے پر آرمی چیف کا ردعمل کیا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ جنرل عاصم منیر ہر کسی کی تجاویز کو نوٹ کر رہے تھے اور ان کی اس بات پر ان کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ تھی۔
میں نے کہا، مجھے مولانا فضل الرحمان کی باتوں سے تاثر ملا کہ وہ بغیر کہے انتخابات کے التوا کی وکالت کر رہے ہیں مگر جب غضنفر عزیز نے ملاقات کے اہم نکات جاری کئے تو وہاں مولانا صاحب کی طرف سے فوری انتخابات کا مطالبہ ان میں شامل تھا مگر مجھے ان کی معاشی صورتحال بارے گفتگو بھی یاد آ رہی ہے۔ سچ پوچھیے تو جب وہ نواز شریف کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے ان کی اقتدار سے رخصتی کے ساتھ ساتھ ڈالر کے کنٹرول نہ ہونے میں اسحق ڈار کے ماضی میں ڈالر کو سو روپے سے بھی نیچے لے جانے کا ذکر کر رہے تھے تو مجھے لگ رہا تھا کہ ان کے اور مسلم لیگ نون کے درمیان حکمت عملی اور سوچ کا رتی برابر بھی فرق نہیں ہے، ہاں، ایک اور با ت جو انہوں نے زور دے کر کہی وہ اداروں کے درمیان جنگ کے بارے تھی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ماضی میں سیاستدان آپس میں لڑتے تھے یا ان کی لڑائی اسٹیبلشنمنٹ سے ہوتی تھی مگر اب اعلیٰ عدلیہ کی اسٹیبلشمنٹ سے جنگ ہے۔ انہوں نے حوالہ دیا کہ آرمی پبلک سکول پر حملے کے مجرموں کو ملٹری کورٹ نے سزائے موت دی مگر بعد میں عدالت کی طرف سے یہ سزا ختم کر دی گئی۔ اس پر اپیل کی گئی تو وہ نہیں لگائی گئی مگر دوسری طرف جب نومئی کا واقعہ ہوا تو فوجی عدالتوں کے حوالے سے اگلے روز ہی سماعت شروع کر دی گئی۔ عدالتوں سے یہ شکوہ بہت ساروں کو ہے جیسے پنجاب کی حکومت کو چینی کے معاملے پر کہ لاہور ہائیکورٹ کے دو ججوں کے جاری کئے ہوئے اسٹے آرڈرز نے چینی کی ڈبل سنچری کروا دی اور عوام کی جیبوں سے چھپن ارب روپے نکلوا دئیے۔ اس پربھی سیکرٹری فوڈ کے مطابق مبینہ طور پرسپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تو وہ چار ماہ سے نہیں لگ سکی۔
مولانا فضل الرحمان نے دلائل سے عمران خان کو یہودیوں اور مغرب کا ایجنٹ ثابت کیا اور کہا کہ اسے پاکستان کی معاشی تباہی کے لئے لایا گیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر پی ٹی آئی پر پابندی لگی تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا تو مولانا کا جواب تھا کہ ایسے ایجنڈے والی سیاسی جماعت کو ہونا ہی نہیں چاہیے۔ انہوں نے مغربی سفارتکاروں کے نام لے کر بتایا کہ وہ ان کے سامنے پی ٹی آئی اور عمران خان کا مقدمہ لڑتے رہے۔ مولانا کی کھلی ڈلی باتوں سے سیاسی منظرنامے بارے میرا تصور کافی واضح ہوا مگر سچ پوچھیے تو انتخابات کے جلد انعقاد پر ابہام بڑھ گیا۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.