آرمی چیف سے ملاقات

83

کراچی اور لاہور کے تاجروں چیمبرز آف کامرس کے عہدیداروں کی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے ملاقات بہت معنی خیز ہے لیکن یاد رہے اس سطح کی ملاقات پہلی مرتبہ نہیں ہو رہی۔ ہر حکومت کے زمانہ اقتدار میں ہوتی ہے اسکی ضرورت یوں پیش آتی ہے کہ تاجر برادری اپنے مسائل کے حل کیلئے پہلے صوبائی سطح پر حکومت سے رابطہ کرتی ہے جہاں انہیں طفل تسلیاں دی جاتی ہیں، اگلے مرحلے میں وہ منتخب وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرتے ہیں جہاں انہیں یقین دلایا جاتا ہے کہ مشکلات ختم ہونیوالی ہیں، سنہری دور آنے والا ہے ہر گھر سے معدنیات کے ذخائر برآمد نہ ہوئے تو کم از کم ہر صوبے سے تیل اور سونے کے ذخائر نکلنے والے ہیں جس سے ڈالر ذلیل و رسوا ہو کر آپکے قدموں میں ہو گا۔ آپ چاہیں تو اسے ٹھوکریں مارتے رہیں جی چاہے تو اٹھا کر جیب میں ڈال لیں، بنک میں منتقل کر دیں یا بیرون ملک اکاؤنٹ میں رکھ لیں اور موج کریں۔ وزیر اعظم کے بھائی وزیر اعلیٰ ہوں یا جناب صدر کے فرنٹ مین وزیر اعلیٰ ہوں، دونوں کی باتیں سن کر تاجر برادری خوشی سے پھولے نہیں سماتی لیکن انہیں جلد احساس ہو جاتا ہے۔ تیل اور سونے کی تلاش کے حوالے سے آئندہ کئی برس تک کوئی بریکنگ نیوز نہیں مل سکتی، وہ نا امیدی کے عالم میں وزیر خزانہ سے رابطہ کرتے ہیں جو انہیں پارٹی پالیسی کے مطابق سبز باغ دکھا کر رخصت کرتا ہے سال اور بیت جاتا ہے۔ اس مرتبہ وزیر اعظم سے ملاقات کی جاتی ہے جو سر جھکا کر شرماتے شرماتے، دھیمے اور دل فریب لہجے میں ہر تاجر کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے وہی انکا محبوب ہے اور پاکستان کی مکمل اقتصادی بہتری اسکے ہی ہاتھوں میں ہے وہی تاجر برادری کا نجات دہندہ ہے اسکی پیش کردہ ہر تجویز قابل عمل ہے اور آئندہ چند روز میں اس پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا جیسے وزیرا عظم ون ونڈو آپریشن کا نام دیتے ہیں وہ اس ملاقات میں ملاقاتیوں کو سنہرے باغ دکھاتے ہیں جسے دیکھنے والے دیکھ کر سحر زدہ ہو جاتے ہیں چند ماہ انتظار کے بعد طاری سحر ختم ہو جاتا ہے اور حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ جس ون ونڈو کا ذکر کیا گیا تھا وہ ونڈو جب سے اب تک بند پڑی ہے، کھل نہیں سکی۔ پس اندازہ نہیں ہوتا کہ ونڈو کے پار کیا ہے۔ دریں اثنا خبریں آنے لگتی ہیں کہ تاجر برادری جن سہولتوں کی التجا لیکر وزیر اعظم کے پاس گئی تھی وہ چند مخصوص تاجروں کو حاصل ہو چکی ہیں بالخصوص ان تاجروں کو جن کے کاروبار بادشاہ سلامت کی شراکت میں چل رہے ہیں۔ تاجر برادری ایک مرتبہ پھر نا امیدی کا شکار ہو جاتی ہے اور انکے بڑے فیصلہ کرتے ہیں کہ اب منتخب شخصیات سے ملاقات کے بجائے غیر منتخب شخصیت سے مل کر اپنے دکھڑے روئے جائیں شاید کوئی امید بر آئے۔
پیپلز پارٹی کے زمانہ اقتدار میں ہر طرف اندھیرا دیکھ کر تاجر برادری نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی سے ملاقات کی جنہوں نے کراچی جا کر دو گھنٹے تک انکے مسائل سنے اور انہیں حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ حکومت بدلی تو تاجروں کے اس گروپ نے وہ تمام پاپڑ بیلے جو اس سے قبل اپوزیشن کے ساتھ تھے، کسی سطح پر انکی شنوائی نہ ہوئی تو انہوں نے بھی جنرل کیانی کے کندھے پر سر رکھ کر رونے کا فیصلہ کیا مگر رونے دھونے کا کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا کیونکہ جنرل کیانی اور جناب آصف زرداری ایک پیج پر تھے پھر نواز شریف اور جنرل کیانی ایک پیج پر آ گئے۔ جنرل کیانی کا دور ختم ہوا تو جنرل راحیل شریف آ گئے تاجر برادری کی مشکلات ختم نہ ہوئیں۔ اس مرتبہ جنرل راحیل کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا انہوں نے کمال محبت اور مہربانی سے وقت نکالا کراچی میں تاجروں کے نمائندوں سے ملے اور انکی باتیں سنیں، وقت بیت گیا، نواز شریف کا دور ختم ہوا راحیل شریف بھی ریٹائر ہو گئے۔ نیازی حکومت بن گئی اور جنرل باجوہ آرمی چیف تھے، حکومت نے ایک مرتبہ پھر ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کاروباری افراد کو یقین دلایا کہ انکی پالیسی ہے کہ ہر شخص، ہر تاجر زیادہ سے زیادہ دولت کمائے تاکہ حکومت کو زیادہ سے زیادہ ٹیکس ملے، بات بہت خوبصورت تھی ہر ایک کے دل کو بھائی لیکن ٹھیک چند ماہ بعد معلوم ہوا کہ دولت کمانے کی کھلی چھٹی چند مخصوص گروپوں کو دی گئی ہے، پالیسی یہ بنائی گئی جو ہمیں مال لگائے گا وہی مال کمانے کا مقدار ہو گا۔ پھر ہر شعبہ زندگی میں کام رُکنے لگے، کام انہی کے ہوتے رہے جنہیں مہ وشوں، گوگی باجیوں تک رسائی تھی یا وہ پنکیوں کے مرید تھے۔ تنگ آمد بجنگ آمد، جنرل باجوہ سے ملاقات کا فیصلہ ہوا ان سے مل کر رام کہانی سنائی گئی انہوں نے مسائل غور سے سنے بس وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکتے تھے، آف دی ریکارڈ انکی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ایک پیج پر ہونے کی انکی کہانی بھی ختم ہو چکی ہے اب تو وقت قریب آ گیا ہے کہ دونوں میں سے کون دوسرے کی کہانی ختم کرتا ہے، پھر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ تاجر برادری ہر آرمی چیف سے مل کر بتاتی ہے کہ حکومتی پالیسیاں کاروباری اصولوں کے منافی ہیں، رشوت اپنی انتہا پر ہے۔ انکم ٹیکس اور ایکسائز ڈیپارٹمنٹ نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کاروبار کرنے کیلئے حالات نا سازگار بنا دیئے گئے ہیں۔ انکے مسائل کوئی نہیں سنتا انہیں حل کیا جائے اور انہیں کاروبار کی ہی نہیں بلکہ خوب منافع کمانے کی کھلی چھٹی دی جائے۔ تاکہ وہ صارف کو لوٹ سکیں اور ملاوٹ شدہ مال بھی مہنگے داموں فروخت کر سکیں۔ اعلیٰ ترین سطح پر ہونے والی کسی ملاقات میں یہ نہیں کہا گیا کہ زخیرہ اندوزوں اور ملاوٹ مافیا کے خلاف عمر قید یا سزائے موت کا قانون بنوا دیں، زیادہ سے زیادہ منافع کی حد مقرر کرا دیں اور بجلی چور صنعتی یونٹ قومی ملکیت میں لے لیں۔ بجلی چوروں کے ساتھ گیس چوروں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن ہونا چاہے، بڑا چور توصنعتی شعبہ ہے کیا وہ اس مرتبہ بھی بچ جائے گا؟ آرمی چیف سے درخواست ہے صارفین کو بھی ملاقات کا وقت دیں، ہم بھی انکے کندھے پر سر رکھ کر رونا چاہتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.