آپ کو کامی بھائی کا پتہ ہے۔ نہیں پتہ تو حیرت ہے۔ کامی بھائی کا خیال ہے کہ وہ پاکستان کو چلانے کا ہنر جانتے ہیں اور ان کے مشوروں کی بدولت حکمران اچھی حکومت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ آج کل وہ پرنس کے مقابلے پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں جس میں وہ حکمرانوں کو بتائیں گے کہ کس طرح اچھی حکومت کی جاتی ہے۔ کامی بھائی چونکہ ملک کے بہت بڑے صحافی ہیں اس لیے وہ حکومتوں کو اچھے مشورے دینا اپنا موروثی حق سمجھتے ہیں۔
کامی بھائی عمران خان کے بہت بڑے مداح تھے۔ ان کے دور حکومت میں عمران خان کی جتنی خدمت انہوں نے کی ہے عمران خان نے ان کی لازوال خدمات کا صلہ انہیں نہیں دیا، اس لیے انہوں نے اپنے مرشد سے آنکھ پھیر لی اور آخر میں وہ ان کے خلاف ہو گئے۔ آج کل کامی بھائی کی ایک ہی کوشش ہے کہ کسی طرح آرمی چیف جنرل عاصم منیر اقتدار پر قبضہ کر لیں۔ وہ اشارے کنایوں میں یہ بات کر چکے ہیں اب اگر جنرل صاحب ہی نہ سمجھیں تو اس میں کامی بھائی کا کیا قصور ہو سکتا ہے۔ کامی بھائی نے چند روز پہلے کہا تھا ”ساڑھے تین سال وزیر اعظم رہنے والا عمران خان آج سزا یافتہ سیاست سے نا اہل اور گرفتار ہے عمران خان کے سیاسی زوال کے ساتھ کروڑوں پاکستانیوں کی کرپشن کے الزامات سے آلودہ خاندانوں کی سیاست سے نجات کی خواہش بھی دم توڑ رہی ہے آج میں پورے وثوق، نا قابل تردید ثبوتوں کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کے سیاسی فیصلوں کی پشت پر دراصل اس دور کی خاتون اول بشریٰ بی بی کھڑی تھیں، بشریٰ بی بی کا خان صاحب پر اثرونفوذ نا قابل بیا ن تھا خان صاحب بشریٰ بی بی کے وظائف اور علومِ فلکیات پر مبنی اندازوں پر آنکھ میچ کر یقین کرتے تھے عمران خان کی تمام غلطیوں کی وجہ اہم قومی اور سیاسی اہمیت کے معاملات پر بشریٰ بی بی کے اذکار، کچھ انجان وظیفوں، کچھ تواہم پرستانہ حسابات سے خود کو رہنمائی حاصل کرنے کی اجازت دینا تھا“۔
کامی بھائی کا ایک اور ٹویٹ ملاحظہ فرمائیں۔”میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر صاحب سے مخاطب ہوں جنرل صاحب ایک نیا پاکستان جنم لے رہا ہے۔ دو خاندانوں پر محیط پاکستانی سیاست کو نیا دوام ملتا نظر آیا جب عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی کا 25 سالہ طویل سیاسی سفر ایک جھٹکے سے رک گیا اگلے ہفتے ملک میں نگراں سیٹ اپ کی راہ ہموار کرنا ہوگی۔ یہ ہمارے لیے ایک پیشہ ور، غیر سیاسی حکومت کے قیام کا ایک اہم موقع ہے۔ 25 کروڑ پاکستانی ایک اور زرداری ایک اور نواز شریف دور کے لیے نہیں تڑپ رہے ان کو مہنگائی کا توڑ چاہیے روزگار چاہیے معیشت کی دن رات ترقی چاہیے جنرل عاصم منیر صاحب بنا مارشل لا بغیر فوجی حکمرانی بھی ایک دیانتدار پروفیشنل غیر سیاسی حکومت ہی پاکستان کی قسمت بدل سکتی آپ لیڈ کریں قوم آپکے پیچھے چلے گی ان شاء اللہ“۔ تازہ ترین ارشاد فرمایا ہے ”پاکستان کی پرانی معاشی بیماریوں کے دائمی علاج کا وقت آگیا ہے اور اس کا بیڑا پاک فوج لیڈرشپ نے اٹھا لیا ہے پاکستانی معیشت کے ناسوروں کو ٹھکانے لگانے کے لئے ایک فیصلہ کن آپریشن کا آغاز ہوگیا ہے یہی وجہ صرف دو روز میں جانے کیا ماجرہ ہوا جمعہ کی صبح اوپن مارکیٹ میں ڈالر 338 کا فروخت ہورہا تھا آج شام کو ئی 320 روپے میں خریدنے والا نہیں مل رہا اس بیچ میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی اور لاہور کے کور ہیڈ کوارٹرز میں تاجروں کے بڑے اجتماعات میں پاک فوج کے سمگلنگ، ڈالر سٹہ بازی کے خاتمے کے بھر پور عزائم کا اظہار کیا آج پشاور کراچی ایکسچینج مارکیٹ وغیرہ میں بڑے کھلاڑیوں کو محض جھنجھوڑا گیا اور انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں فرق تیزی سے کم ہونا شروع ہوگیا“۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا آج صرف کامی بھائی پر بات کرنی ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کامی بھائی کی طرز کے کئی کامی بھائی اس وقت سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں جن کی پوری کوشش اور خواہش ہے کہ کسی طرح اس نظام کو لپیٹ کر فوج براہ راست اقتدار کو سنبھال لے۔ کیا یہ سب اپنے اپنے طور پر لگے ہوئے ہیں یا کسی جگہ سے ایجنڈا سیٹ کیا جا رہا ہے۔ فوج کا کام معیشت کو سنبھالنا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت ہے اور اسے وہی کام کرنا چاہیے۔ جنرل عاصم منیر کی کراچی اور لاہور میں تاجروں کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کا مقصد واضح نہیں ہو سکا۔ اگر فوج معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی کام کر رہی ہے تو اسے سراہنا چاہیے لیکن یہ کام آئین کے فریم ورک میں رہ کر کیا جا سکتا ہے۔ ماورائے آئین کسی بھی کام کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ اس ملاقات کے بعد زبیر موتی والا نے یہ شوشا چھوڑ دیا کہ آرمی چیف نے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں کرپٹ ہیں۔ کریم ڈھیڈی گویا ہوئے کہ آرمی چیف سے ملاقات سے پہلے ہم بہت پریشان تھے لیکن ملاقات کے بعد مطمئن ہو کر گھروں کو واپس گئے ہیں۔ قلبی سکون کا وظیفہ کام کر گیا ہے۔ کراچی اور لاہور کے جن 100 کے قریب سرمایہ داروں سے آرمی چیف نے ملاقات کی ہے، پاکستان کی معیشت کو یہاں تک پہنچانے میں بنیادی کردار انہی لوگوں کا ہے۔ کاش آرمی چیف انہیں نکیل ڈالنے کی بات بھی کرتے۔
گزشتہ حکومت کے آخری دور میں جس تیزی سے قانون سازی ہوئی اور جو بل لائے گئے اس سے بہت کچھ واضح ہو گیا تھا کہ شہباز شریف اپنے پتے بڑی ہو شیاری سے کھیل رہے ہیں۔ جنرل عاصم منیر کی کاروباری طبقے سے ملاقات پر کسی سیاسی جماعت کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس سے پہلے جنرل باجوہ بھی کاروباری طبقے سے اس قسم کی ملاقاتیں کرتے رہے ہیں لیکن معیشت کا پہیہ ٹھیک طریقے سے نہیں چلا۔ معیشت کو بہتر کرنے کا ایک نسخہ اس کاروباری برادری نے فوج کے حوالے کیا ہے اور انہیں امید ہے کہ ان کی سفارشات پر عمل کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے۔ کوئی خوش فہمی سی خوش فہمی ہے۔
ہر ایک یہ بات جانتا ہے کہ موجودہ نگران حکومت 90 دن میں انتخابات کرانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ فروری مارچ سے پہلے عام انتخابات کا انعقاد مشکل ہے تو کیا اس عرصہ میں معیشت کو درست کر کیا جائے گا یا یہ ساری مشق پاکستان کے اثاثوں کو غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کرنے کے لیے کی جا رہی ہے تاکہ اس پر زیادہ شور نہ ہو۔ ون ونڈو آپریشن اپنی جگہ درست بات ہو سکتی ہے لیکن جس طرح غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان کے اثاثے دیے جانے کی بات ہو رہی ہے وہ باعث تشویش ہونا چاہیے۔ چین کے ساتھ ہونے والے سی پیک معاہدے کی تفصیلات ایک عرصہ تک عوام سے پوشیدہ رکھی گئی۔ ایوب خان نے پاکستان کے دریاؤں کا سودا بھارت سے کیا تھا اس کا خمیازہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنا ہے تو اس پر عوامی بحث کا آغاز ہونا چاہیے۔ جانے والی اسمبلی نے تو محض ربر سٹمپ کا کام کیا ہے۔ کیا یہ ضروری نہ ہو گا کہ اتنے اہم فیصلے کرنے سے پہلے آنے والی اسمبلی کا انتظار کیا جائے تاکہ وہاں پر بحث ہو اور اس کے بعد پاکستان کے اثاثے ان غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کیے جائیں۔ پاکستان کے اندر یہ وہ علاقے ہوں گے جہاں پر پاکستان کی عملداری نہیں ہو گی۔ ذرا ایسٹ انڈیا کمپنی کے ماڈل کا مطالعہ کر لیجیے انہوں نے بھی ہندوستان میں اسی طرح کے علاقے حاصل کیے تھے جہاں صرف ان کا قانون چلتا تھا اور پھر پورے ہندوستان پر ان کا غلبہ ہو گیا تھا۔ کامی بھائی جیسے دانشوروں کو اسباب بغاوت ہند کا ایک ایک نسخہ دیا جائے اور پھر اس کو سمجھانے کے لیے اتالیق مقرر کیے جائیں تاکہ وہ اپنی سفلی خواہشات کی تکمیل کرنے کے ایجنڈے سے باز رہیں۔ فوج کئی بار اس بات کا اعادہ کر چکی ہے کہ وہ سیاست سے دور ہے تو اسے گھسیٹ کر سیاست کے میدان میں واپس نہ لایا جائے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.