شیر آیا شیر آیا کی کہانی ہم نے اپنی زندگی میں سچ ہوتے دیکھ لی۔ جب سے ہوش سنبھالا تھا یہ سننے میں آ رہا تھا کہ پاکستان ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے لیکن وہ موڑ کبھی دکھائی نہیں دیا تھا لیکن خدا بھلا کرے عمران نیازی اور پی ڈی ایم کا کہ اُنہوں نے ہمیں و ہ نازک موڑ دکھانا کیا تھا لا کر اُسی گمشدہ موڑ پر کھڑا کردیا۔ بے چینی اور بے یقینی ہم نے نہ تو اپنی زندگی میں دیکھی اور نہ ہی پڑھی۔ پاکستان کو اُن تمام قوتوں نے جنہیں وقتاً فوقتاً اسے چلانے کی ذمہ داری ملی اپنا حصہ بقدرِ جثہ ڈالتے ہوئے موجودہ حالات تک لے آئے۔ اب اسے بچانے کیلئے یا تو بے رحم احتساب بلاتفریق کرنا ہو گا یا پھر یہ ملک حالات کے رحم و کرم پر ہو گا اور حالات آپ کے سامنے ہیں کہ آپ اپنے گھر کے باہر کھڑے ہو کر فون نہیں سن سکتے، کبھی چور ڈاکو رات کی تاریکی کا انتظار کرتے تھے لیکن بری معیشت نے اُن کا بھی ٹائم ٹیبل مکمل تبدیل کرکے کررکھ دیا ہے۔ وہ کبھی بھی کہیں بھی آپ سے مل سکتے ہیں۔کبھی گاڑیوں والے غیر محفوظ تھے اب سائیکل پر اپنا آٹا لے جاتا شہری بھی محفوظ نہیں رہا۔ پنجاب کے تھانے عشاء کے بعد ملزم اور مدعی دونوں کیلئے بند ہو جاتے ہیں۔ اب بات اِن حالات کی درستی کی ہے جو سوائے پاکستان کے نوجوانوں کے اورکوئی نہیں کرسکتا کہ نوجوان تحریکوں کا انجن اور ہراول دستہ ہوتے ہیں اور اس حقیقت سے کوئی باشعور انسان کبھی انکار نہیں کرسکتا کہ مستقبل اُسی تحریک یا تنظیم کا ہوتا ہے جس کو سیاسی تربیت یافتہ نوجوان اپنی تحریک قرار دے دیں۔ یوں تو ریاست پاکستان کی موجودہ صورت حال زندگی کے ہر اہم معاملے میں رحم طلب حالت کو پہنچ چکی ہے لیکن سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے نوجوانوں (لڑکے اور لڑکیوں) کا ہو رہا ہے جو کل آبادی کے 67 فیصدکے لگ بھگ ہیں۔ یہی وہ سماجی طاقت ہے جس نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور بھی سنبھالنا ہے اور اپنی مرضی کا پاکستان بھی بنانا ہے اور پاکستان پر قابض اُس قبضہ گروپ سے پاکستا ن کو آزاد بھی کرانا ہے جنہوں نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو پہلے مختصر اور بعد ازاں ناقابل رہائش بنا دیا ہے۔
پاکستان کے نوجوان آج زندگی کے ہر شعبہ میں مایوسی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دکھائی دے رہے ہیں۔ باری کے بخار کی طرح اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں اور فوجی آمروں نے ان کی سماجی اور ذہنی ترقی میں کوئی کردار توادا کیا کرنا تھا الٹا ترقی جو ہر انسان کا پیدائشی حق ہے اُس کے دروازے بھی پاکستان کے نوجوانوں پربند کردیئے۔ موروثی سیاست کی بدبو دار دلدل نے اس معاشرے کو آہستہ آہستہ اپنے اندر نگلنا شروع کیا تو آج حالت یہ ہے کہ پاکستانی عوام اپنی تمام ضروریاتِ زندگی سمیت اس دلدل میں ناک تک اتر چکے ہیں کہ کس بھی لمحے اُس کا سانس بند ہوا چاہتا ہے اوراِس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کی نوجوان نسل کو ہورہا ہے کہ ابھی انہوں نے اس وطنِ عزیز میں ایک ”طویل“ دکھ بھری زندگی گزارنا ہے۔
ترقی سے مراد مربوط ترقی ہوتا ہے جس میں ایک ترقی دوسری ترقی سے جڑی ہوتی ہے۔گزشتہ دو دہائیوں میں ہم نے نوجوانوں کے ہاتھ میں ایک تواتر اور تسلسل کے ساتھ ڈگریاں تھما دیں لیکن یہ نہیں سوچا کہ ان کیلئے روز گار کے مواقع بھی پیدا کرنے ہیں۔ بالکل اُسی طرح جیسے الیکٹرونکس کو ہم نے عام کر دیا اور ایک میگا واٹ بجلی پیدا نہ کی یا پھر بنکوں نے سود کی لالچ میں اُن لوگوں کو بھی گاڑیاں دے دیں جن کو کوئی محلے میں ادھار نہیں دیتا تھا لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ان گاڑیوں کے چلانے کے لیے پیٹرول، ڈیزل، گیس، سٹرکیں اورٹریفک سینس درکار ہیں، جس کا کوئی نام و نشان تک نہیں ہے اور صورت حال آج آپ کے سامنے ہے کہ جدید دنیا ٹریفک اور اندھیرے میں پھنسے ایٹمی پاکستان پر ہنس رہی ہے۔ دنیا یہ تو سوچتی ہو گی کہ عجیب قوم ہے ایٹم بم بناتی ہے لیکن گٹر بنانے کے قابل نہیں۔یہ سب کچھ بُری حکومت کی نہیں بلکہ عدمِ حکومت کی نشاندھی کر رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے نوجوانوں کو کو ئی بھی ورغلا سکتا ہے اورموجودہ حالات میں اب ریاست کا سامنا ایک ورغلائی ہوئی نوجوان مخلوق سے ہے جس کی کوئی سیاسی یا انقلابی تربیت نہیں، جس کے پاس مستقبل کا کوئی نقشہ نہیں لیکن وہ اِس بات پر قائل ہو چکی ہے کہ بس یہ نظامِ اوریہ چہرے اب دونوں بدلنا ہوں گے۔ وہ ایسے جنات بن چکے ہیں جو اب اپنے عاملوں کے بس میں بھی نہیں سو اِن حالات میں سب سے پہلے اِن نوجوانو ں کیلئے کوئی ایسی پالیسی بنائی جائے جو اُن کو وقتی ریلیف دے سکے تاکہ انہیں سوچنے کا وقت ملے اور اُن کو مکالمے پرقائل کیا جا سکے ورنہ متبادل نظام کے بغیر انقلاب کی خواہش رکھنا صرف انارکی کو جنم دے گا اور وہ انتہائی خوفناک ہو گی جس کا کوئی فرق اوورسیز کو تو نہیں پڑے گا البتہ اوورسیز جگ ہنسائی اوریہاں کے فاقہ کش نوجوانوں کو وسائل فراہم کرکے بد امنی کے تسلسل کو جاری رکھیں گے؟
جہاں جرائم کی خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی شرح نے پاکستا ن کے ہرگلی کوچے کو غیر محفوظ بنا دیا ہے وہیں لیڈرلیس ہجوم میں بڑھتی ہوئی بے چینی اورریاستی اداروں پر عدم اعتماد اور اُس پر عمرانی مافیا کے انتہائی طاقت ور پروپیگنڈا نے حقیقت میں ریاست کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ابھی تک ریاست نے بھی نہ کرنے والے بہت سے کام کردیئے ہیں اورکرنے والے لاتعداد کاموں سے اجتناب برت رہی ہے جس کا واحد نقصان ریاست کو ہی ہو گا۔ پاکستان کے نوجوان جن کے ہاتھ میں کتاب یا ملکی خدمت کا سرٹیفکیٹ ہونا چاہیے تھا انہیں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری، لینڈ مافیا، سٹریٹ کرائمز اور اب گالی بریگیڈ کے نام سے متعارف ہونے والا نیا گروپ بے خوف جو چاہتا ہے بک رہا ہے۔ایک ایسا خوفناک فلسفہ جس کا ایک سرا قبر اور دوسرا جیل کے دروازے پر جا کھلتا ہے۔اس سے پہلے بھی کتنے ہی خوبروجوان نامعلوم قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بنے، کتنی مائیں آج تک اپنے جواں بیٹوں کی منتظر ہیں، کتنی بہنیں اپنے رکھوالے بھائیوں کی جدائی کا زخم لئے لاوارثوں کی سی زندگی گزار رہی ہیں، کتنے ناتواں کندھوں نے اپنے جوان بیٹوں کے جنازوں کو کندھا دیا لیکن کسی نے پلٹ کر بھی اپنے ان تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کی کوئی خیر خبر نہ لی۔ یہ شب کے راج دلارے ایک بار طاقت لینے کے بعد کبھی لوٹ کر عوام میں نہیں آئے۔ جب اقتدار میں آنے والی حکومتوں کو اقتدار ہی اپنے شہیدوں کی دیت کے عوض ملے گا تو پھر فلسفے اور جدوجہد تو گئے تیل لینے۔ کبھی بیرونی ہاتھ کا رونا رویا گیا اور کبھی اندرونی غیر محب وطن عناصر کا لیکن کیا کبھی ہم نے سنجیدگی سے سوچا ہے کہ کوئی بیرونی ہاتھ اتنی دیر تک کیسے کامیاب ہو سکتا ہے جب تک کوئی اندرونی ہاتھ اُس کا مدد گارو معاون نہ ہو اور جہاں تک غیر محب وطن عناصر کی بات ہے تو کون بدبخت ہے جو اپنی سرزمین سے غداری کا مرتکب ہوکر کسی غیر کا آلہء کار بن کر اپنے ہی لوگوں کو قتل کرے گا؟ یہ سب کچھ اسی سماج کی پیدا وار ہے جو کچھ ہم نے ان بچوں کو دیا تھا وہی وہ ہمیں لوٹا رہے ہیں۔ ممکن ہے کبھی کسی نے اپنی مرضی سے کسی فرد یا گروہ کو بندوق تھما دی ہو لیکن ایسا کرتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بندوق ہم اپنی مرضی سے دے سکتے ہیں لیکن واپس کرنا فریقِ ثانی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال میں جب ہر طرف بارود اور ہوس کی بدبو پھیل چکی ہے پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت کا کیا مستقبل ہو سکتا ہے جو ابھی تک اس دلدل میں اترنے کیلئے مکمل مائل یا قائل نظر نہیں آ رہے، اِن حالات میں ریاست کی کیا ذمہ داری ہے اور ایسے میں ریاست میں وہ سیاسی جماعتیں جن پر عوام کا اعتماد ہے اُن کاکیا کردار ہونا چاہیے، یہ خود ایک سوالیہ نشانہ بن چکا ہے!
ریاست پاکستان پر قابض اشرافیہ گزشتہ 76برسوں سے چہرے بدل بدل کر پاکستانی عوام کو”غلامی کے نئے تصور“ سے آشنا کرانے کی کوشش کررہی ہے۔ پاکستان کے معصوم عوام جس نظام کو جمہوریت (Democracy) سمجھ رہے ہیں وہ حقیقت میں کارندوں کی حکومت (Agentocracy) ہے۔ جو کبھی تاجدار برطانیہ کے وفادار تھے اور جب دنیا میں طاقت کا عالمی توازن بدلا تو امریکہ کے وفادار ہو گئے اوراب چین کیلئے پر تول رہے ہیں۔ ایجنٹو ں کے اس طبقہ کے نزدیک پاکستانی عوام یا اس کے نوجوان نہیں بلکہ اپنے ”آقاؤں“ کے مفادات ہیں۔ایسی صورت میں پاکستان کے نوجوانوں کی ذمہ داریاں یقینا ترقی یافتہ ممالک کے نوجوانوں سے بالکل مختلف ہیں۔ انہیں ایک آزاد اورخود مختار ریاست کے قیام اور ریاست پاکستان پر امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے ایجنٹوں کے کردار کو نیست و نابود کرنا ہو گا اور یہ سوائے پاکستان کے نوجوانوں کے اور کسی کے بس کی بات نہیں۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.