وہی ہوا جس کا ڈر تھا، عوام کا گلا گھونٹنے والے بجلی کے بل موت کا پھندہ بن گئے، بلوں میں ہوش ربا اضافے کیخلاف احتجاجی مظاہرے ملک بھر میں پھیل گئے۔ عوام نے بل ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ سڑکوں پر نکل کر بل نذر آتش کر دیے، بل جل رہے ہیں۔ بجلی کمپنیوں پر حملے، گرڈ سٹیشنز کا گھیراؤ، واپڈا کے دفتر پر حملہ، عوامی جذبات بھڑک اٹھے ہیں، آگ بھڑک رہی ہے۔ عوامی مسئلہ ہے جماعت اسلامی نے 2 ستمبر کو ملک گیر احتجاج کی کال دے کر سوتوں کو جگا دیا۔ تاجر تنظیموں نے کال پر لبیک کہی۔ جماعت کے امیر سینیٹر سراج الحق کراچی کے بڑے احتجاجی مظاہرے میں خوب گرجے خوب برسے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے مہنگائی اور بجلی بل بڑھا کر عوام کا جینا حرام کر دیا۔ نہایت ادب سے گزارش، ساڑھے تین سال پہلے کی مہنگائی کا ذکر بھی کر دیتے تو حق ادا ہو جاتا۔ سارے عذاب 16 ماہ میں شروع نہیں ہوئے۔ "قصہ ہے یہ پانچ برس کا 16 ماہ کی بات نہیں” ابتدا 2018ء کے بعد ہوئی اتحادی حکومت کی نا اہلی، غفلت یا آئی ایم ایف کا جبر، عذاب میں شدت آ گئی۔ اب بھی جن کے گھر روشن ہیں وہ مطمئن ہیں بقول غالب "گری تھی جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو” لیکن بھول گئے کہ عوامی مظاہروں میں سیاست کا تڑکا لگ رہا ہے اور ملک بھر میں سول نافرمانی کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ یادش بخیر، بل جلانے پر عوام کو اکسانے کا ”گناہ“ سب سے پہلے 2014ء کے تاریخی دھرنے کے دوران خان صاحب نے اس وقت کیا تھا جب بجلی 8 روپے یونٹ تھی۔ اب 55 یا 60 روپے یونٹ ہے۔ گناہ صغیرہ گناہ کبیرہ میں بدل گیا۔ ایم کیو ایم نے فسادات کا خطرہ ظاہر کیا اور تو اور ن لیگ، اے این پی اور پیپلز پارٹی کے لیڈر بھی مذمت کرنے لگے۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا عوام کو اکسانے کے لیے سر گرم عمل ہے۔ 2 ستمبر کی شٹر ڈاؤن ہڑتال سے آنکھیں کھل جانی چاہیے۔ بجلی بحران کی بظاہر وجہ آئی ایم ایف کی شرائط بتائی جاتی ہیں لیکن اصل وجہ بجلی چوری، لائن لاسز اور آئی پی پیز کے 29 سو ارب ڈالر کے گردشی قرضے ہیں جو معاہدے کے بعد سے اب تک ادا ہی نہیں کیے گئے ملک کی گردن پھنسانے والے بری الذمہ "دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ” دوسری وجہ بجلی چوری، اس میں بجلی کمپنیوں کے اپنے ملوث ہیں۔ عوام کا بڑا طبقہ میٹر ریڈرز اور دیگر عملہ کی ملی بھگت سے بجلی چوری کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ میٹر ریڈر کو ہر ماہ ہزار دو ہزار دے کر گھر میں لائٹس اور اے سی چل جائیں تو اور کیا چاہیے میٹر ریڈر بھیا علاقہ کے 5 ہزار مکانات کے کوتوال، پھر ڈر کاہے کا، کنڈوں کا جال بچھا ہے۔ ہٹانے آئیں تو علاقہ کا رکن اسمبلی آڑے آ جائے چوری تو ہو گی اس کا خمیازہ بل دینے والے بھگتیں گے۔ جہاں تک لائن لاسز کا تعلق ہے خود سرکاری محکموں پر اربوں کے بل واجب الادا ہیں۔ ہمت ہے تو وصول کر لیں۔ نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ فوج اور عدلیہ کو فری بجلی نہیں دی جاتی، واپڈا کے ایک سے 16 گریڈ کے ملازمین کو سہولت حاصل ہے۔ وزیر اعظم کو غلط رپورٹس فراہم کی گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک لاکھ 87 ہزار ملازمین کو ساڑھے 3 لاکھ سے زائد فری یونٹس کی سہولت حاصل ہے۔ لائن لاسز پانچ سو ارب تک کیسے پہنچ گئے۔ ملازمین اور ریٹائرڈ ملازمین 18 ارب کی بجلی مفت لے جاتے ہیں۔ ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، سینیٹ چیئرمین، لاجز اور دیگر روشن عمارتوں کے بل کون ادا کرتا ہے؟ واپڈا کے 17 سے 22 گریڈ کے اعلیٰ افسران کو بھی مفت بجلی کی سہولت میسر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وی وی آئی پی کلاس کو 98 ارب کی بجلی مفت دی جا رہی ہے۔ 20 ارب کا پیٹرول بھی مفت ملتا ہے۔ 90 ہزار سرکاری گاڑیاں عوام کا پیٹرول پی جاتی ہیں۔ ان تمام عیاشیوں میں 5 کھرب 44 ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے۔ ایسے خوش بخت افسران بھی ہیں جنہیں
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی زندگی بھر دو ہزار فری یونٹس کی رعایت حاصل ہے۔ بیماری کا ایک کروڑ روپے کا بل تیمارداری کے لیے آنے والوں کی خاطر تواضح پر 18 لاکھ سالانہ یعنی 60 ہزار ماہانہ سرکاری خزانے سے جاتا ہے۔ ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی 110 سے 300 یونٹ مفت ملتے ہیں۔ "مصیبت ہماری تمہاری ہے یارو” ہر ماہ کے بلوں میں میٹر ریڈر پر اعتبار کرتے ہوئے یونٹس کی تعداد کے علاوہ 13 اقسام کے ٹیکس یعنی انکم ٹیکس، جی ایس ٹی، ٹی وی ٹیکس، ریڈیو ٹیکس، فیول ایڈجسٹمنٹ ٹیکس، کیپیسٹی ٹیکس، ویری ایشن ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس شامل کیے جاتے ہیں۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ہر ماہ 4 سے 6 روپے اضافہ، پتا نہیں یہ لعنت کب سے شروع ہوئی۔ "فعل بد تو خود کریں لعنت شیطان پر” نگراں حکومت چند ماہ کی مہمان، آئی ایم ایف سے مراعات مانگ رہی ہے۔ 400 یونٹ والوں کو کس برتے پر رعایت دے گی۔ کوئی متبادل آپشن نہیں ہے، عوام کی چیخ و پکار برحق، مہنگی بجلی، مہنگا پیٹرول، مہنگی گیس، مہنگا آٹا، مہنگی چینی، اشرافیہ کی عیاشیاں ختم ہوں تو ملک چلے، رٹ قائم کرنے والوں کی ایک ہی رٹ، بل ادا کرنا ہوں گے۔ 6 ماہ کی قسطوں میں ادا کر دو، کیا اس "حاتم طائی برانڈ” رعایت سے مہنگائی کا حل نکل آئے گا؟
سیاسی مسائل بجلی بلوں کی نذر ہو گئے۔ اٹک جیل میں موجیں ہی موجیں "جیل کو دیکھ کے گھر یاد آیا” بیرک میں اے سی، پنکھا، میز کرسی، اخبار ٹی وی چارپائی، گدا انگلش کموڈ، دیسی گھی میں تلے مرغ، مٹن، کڑاہی، 5 سٹار ہوٹل کا ناشتہ لنچ، ڈنر، ڈرائی فروٹس جیل ہے یا زمان پارک کے گھر کا ڈرائنگ روم، ایک پریشانی لاحق جیل رولز کے مطابق کھانے پینے کا بل مجرم کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ خان کا ایک ہفتہ کا بل 40 ہزار یعنی 6 ہزار روزانہ کا کھانا کھا جاتے ہیں۔ ایک ماہ کا بل ایک لاکھ 60 ہزار روپے، ادا کون کرے گا، ایک ہفتہ کے 40 ہزار لیگل ٹیم کے ایک سینئر رکن نے ادا کیے۔ لیجئے یک نہ شد دو شد پرویز الٰہی بھی ضمانتوں کے باوجود پانچویں بار 3 ایم پی او کے تحت گرفتار ہو کر پہلے اڈیالہ بعد میں اٹک جیل منتقل کر دیے گئے۔ دروغ برگردن راوی، اڈیالہ جیل میں دہائی دی "خان بیرک میں اکیلا ہے مجھے جانے دو، خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو” توشہ خانہ کیس میں رقم بتا کر سزا معطل کرا لی، ضمانت پر رہائی لیکن جیل برقرار، نا اہلی برقرار، باریک بین لوگوں نے باریک کام کر دکھایا۔ "نکلنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہو گئے” سائفر کیس میں دبوچ لیے گئے۔ 15 اگست کو سابق قانون کے تحت گرفتاری بھی دی گئی۔ جج نے جیل ہی میں عدالت لگا کر 13 ستمبر تک کا ریمانڈ دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل چیف جسٹس عامر فاروق یوتھیا بریگیڈ کی گھناؤنی مہم سے بچ گئے۔ خان کا اے پلان ناکام، اسٹیبلشمنٹ کا بی پلان کامیاب سی پلان ابھی پائپ لائن میں ہے۔ بڑے چھوٹے سہولت کار پریشان، دس بارہ دن بعد جانے والے سر گرم لیکن وقت کم رہ گیا مقابلہ سخت ہے۔ نا معلوم ارکان پر مشتمل کور کمیٹی نے اسٹیبلشمنٹ سے صلح اور معافی کی پیشکش کر کے دیکھ لیا، نتیجہ صفر، کوئی جواب ہی نہیں ملا، کہانی تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو گیا۔ صلح صفائی کی کوششیں ناکام ہونے پر جھوٹی خبروں کا طوفان، سوشل میڈیا پر ڈیل کی خبریں، سعودی عرب کے ولی عہد کی پاکستان آمد پر خبر اڑائی گئی کہ وہ خان کو لینے آ رہے ہیں، سعودی عرب لے جا کر سرور پیلس میں ٹھہرائیں گے۔ بشریٰ بی بی نے قطر کے شاہی خاندان کے ایک رکن سے خفیہ ملاقات کی ہے جس کے نتیجہ میں اک اڑن کھٹولہ آئے گا خان کو قطر لے جائے گا۔ سب غلط، بے بنیاد، "دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے” سعودی ولی عہد بھارت میں ہونے والی جی 20 ممالک کی کارنفرنس میں شرکت سے پہلے یا بعد میں کچھ وقت پاکستان میں گزاریں گے۔ بھارت سے یاد آیا کہ وہ چاند پر پہنچ گیا۔ ہمارا انوکھا لاڈلہ کھیلنے کے لیے چاند مانگتا جیل میں پڑا ہے۔ خان کے لیے ایک اور بری خبر سانحہ 9 مئی میں 12 نئی دفعات شامل کر دی گئیں، 121، 331، 109، 505، 153، اور 153A وغیرہ کے تحت ملزموں پر ملک دشمنی، ملک کے خلاف جنگ، جنگ پر اکسانے فوج میں بغاوت کی کوشش کے الزامات پر مقدمات چلیں گے۔ خان سمیت 68 افراد کیخلاف ان دفعات کے تحت از سر نو تحقیقات ہو گی، جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید یا سزائے موت، سیاسی اور عدالتی پنڈتوں کے مطابق "سہولت کاری اب ہو گی نہ کچھ دن بعد میں ہو گی” لیکن پی ٹی آئی کے دیوانوں پروانوں اور فرزانوں کو یقین ہے کہ ان دس بارہ دنوں میں چار بڑے فیصلے متوقع ہیں جن سے پورا نظام 10 اپریل 2022ء تک ریورس ہو جائے گا۔ ادھر سے اقدامات، صدر مملکت کی طرف سے کوششیں، الیکشن ابھی تک موہوم، صدر اور فاضل چیف جسٹس آف پاکستان کا 90 دنوں میں الیکشن پر اصرار، الیکشن کمیشن 30 نومبر تک کا حلقہ بندیوں کی تکمیل کے بعد شیڈول کے اعلان پر بضد، توہین عدالت کے نوٹسز جاری ہونے کا امکان، خبروں کا تانتا بندھا ہے۔ جھوٹی سچی خبریں دینے والے شیخ رشید بھی غائب ہیں شنید ہے کہ وہ سنٹرل ایشیا کے ایک ملک کی طرف نکل گئے ہیں۔ الیکشن کی خبریں کون دے گا۔ بظاہر لگتا ہے الیکشن فروری میں ہوں گے، نواز شریف اکتوبر میں آئیں گے؟ کچھ پتا نہیں، پی پی کے گلے میں کرپشن، ن لیگ کے گلے میں مہنگائی کا ڈھول، خان اندر، گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے، مرزا یار کون ہو گا، خاکہ مکمل کیا جا رہا ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.