حکومتی لاتعلقی اور عوامی رویہ

70

اب تو خوشی کی کوئی خبر سُننے کو بھی کان ترس گئے ہیں اچھا بھلا ترقی کرتا پاکستان خوشحالی کی طرف رواں دواں تھا مگر اب تو صنعت ہو یا زراعت سمیت ہر شعبہ تباہی کا شکار ہے مایوسی کی بات یہ ہے کہ اصلاح احوال جن کی ذمہ داری ہے وہ ایک دوسرے کو خرابی کا ذمہ دار ٹھہرا کر خود پتلی گلی سے نکلنے اور آئندہ پھر حکومت میں آنا چاہتے ہیں تاکہ بچ جانے والے ملکی اثاثوں پر ہاتھ صاف کر سکیں دنیا میں کہیں ایسے سیاسی رہنماؤں کا انتخاب نہیں ہوتا نہ ہی اِس طرح ملک چلائے جاتے ہیں اقتدار میں آنے والے گروہ ذاتی مفاد پر قومی مفاد قربان کرنے کو چالاکی تصور کرتے ہیں یہی سوچ تباہی کا باعث ہے آج تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ شہریوں کو ریلیف دینے سے حکومت گریزاں ہے جس کی وجہ عالمی مالیاتی اِداروں سے اجازت نہ ملنے کا بہانہ کیا جا رہا ہے ایسے حالات میں جب آزادی و خود مختاری کے نعرے لگائے جاتے ہیں تو ہنسی آتی ہے چھہتر برس قبل انگریز حاکم اور ہندو اکثریت کے چنگل سے ملنے والی آزادی آج عالمی اِداروں کے پاس گروی ہے مگر عوام عالمِ مدہوشی میں ہے اگر تباہی کے ذمہ داران سیاسی رہنما ووٹ ہتھیا کر اقتدار میں آنے کو بے چین ہیں تو عوام بھی بخوشی لُٹنے پر آمادہ ہیں چھہتر برس کی بے کار اور بے مقصد مسافت کے نتیجے میں پوری قوم تباہی کے ایسے دہانے پر کھڑی ہے جہاں سے امید کی ہلکی سی رمق تک نظر نہیں آتی۔
باعث تعجب یہ ہے کہ بار بار اقتدار میں آنے والوں کے اندرون و بیرون اثاثوں میں تو اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن ملک اور عوام مسائل کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں بڑی جماعتوں کے قائدین کی امریکہ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں تک ہوشربا کاروبار کی داستانیں سُننے کو ملتی ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اپنے کاروبار کے فروغ میں ذہانت بروئے کار لانے والے اقتدار میں آ کر ملکی مسائل حل کیوں نہیں کرتے؟ ظاہر ہے انہیں ملک و قوم سے کوئی سروکار نہیں اسی لیے مملکت کو مسائل کی آگ میں جھونک کر پُرسکون ہیں اُنھیں اقتدار میں آنے کے لیے اِس ملک اور عوام کی ضرورت ہے اُن کے مفادات بیرونِ ملک ہیں اسی لیے ملک و قوم سے مخلص نہیں عوام کو مفلس رکھنے میں اِنہی کا ہاتھ ہے جنہوں نے اربوں کھربوں کے اثاثے بنا کر ملک و قوم کو لاغر کر دیا ہے اِن کو بے نقاب کرنے کے ساتھ بے رحم احتساب کرنے سے ہی لوٹی دولت واپس مل سکتی ہے مگر اِس کے لیے اخلاص کی ضرورت ہے کچھ عرصے سے بیوروکریٹس میں بھی غیر ملکی شہریت حاصل کرنے کارجحان ہے جس کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے ملک میں اِس وقت چینی کی قیمت 180روپے فی کلو سے تجاوز کر گئی ہے جس کا ذمہ دار سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو قرار دیا جا رہا ہے جنہوں نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے کا احمقانہ فیصلہ کیا یہ فیصلہ ملک میں قلت بلکہ چینی کے نرخ بلند ترین سطح پر پہنچانے کا باعث بنا سستی چینی بیچ کر اب برازیل سے مہنگی چینی درآمد کرنے کا منصوبہ ہے ذرائع اِس واردات میں کروڑوں کے ہیر پھیر کی نشاندہی کرتے ہیں شاید اسی لیے رخصت ہونے سے قبل پی ڈی ایم ٹولہ نیب اختیارات محدود کر گیا ہے تاکہ پچاس کروڑ سے کم کی وارداتوں پر پوچھ تاچھ ہی نہ کر سکے ہمارے غریب ملک کے امیر حکمران نہ صرف ایسی وارداتیں ڈالنے کے ماہر ہیں بلکہ قبل از وقت قوانین کو اِس انداز میں تبدیل کر جاتے ہیں جن کی بدولت گرفتاری تو درکنار کسی اِدارے میں کچھ دریافت کرنے کی ہمت نہیں رہتی۔
اگست کا مہینہ پاکستان کے لیے انتہائی ہنگامہ خیز رہا ابھی تک ملک گیر سطح پر استعداد سے زیادہ بل آنے پر شہری سراپا احتجاج ہیں شدید گرمی کے عالم میں بھی ہر طرف صدائے احتجاج بلند ہے ملک گیر احتجاج کی شدت کو دیکھ کر سیاسی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے جلد ہی فسادات میں تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ بڑی بے نیازی سے فرماتے ہیں مسائل اتنے نہیں جتنے بڑھا کر پیش کیے جا رہے ہیں جبکہ وزیر خزانہ شمشاد اختر فرماتی ہیں صورتحال اندازوں سے زیادہ خراب ہے شہریوں کو ریلیف دینے سے حکومت گریزاں ہے اور ایسا کرنا بس کی بات نہ ہونے کا بتا کر وقت گزارا جا رہا ہے حالانکہ اِس حوالے سے حکومت کو آئی ایم ایف سے بات کرنے کا مکمل اختیار ہے پھر بھی تین دن تک متعلقہ اِدارے غوروخوض کے بعد سفارشات مرتب کر نے کے یہ کہنے کی ہمت کر سکے ہیں کہ آئی ایم ایف نے اگر سفارشات کی منظوری دے دی تو ہی عوام کو کچھ ریلیف دے سکیں گے وگرنہ کوئی جئے یا مرے ہر صورت بل ادا کرنا ہو گا سوال یہ ہے کہ نگران وزیرِ اعظم کی سربراہی میں تین روز تک جو مشاورت ہوئی اُس میں واپڈا سمیت تقسیم کار کمپنیوں کے ہزاروں ملازمین کو بجلی کے مفت ملنے والے یونٹ ختم کرنے کی ہمت کیوں نہیں کی جا سکی؟ کیا ایسا کرنے سے بھی آئی ایم ایف نے روک رکھا ہے؟بات قدرے تلخ ہے مگر ہے سچ، یہ مراعات یافتہ طبقہ اتنا طاقتور ہے کہ کسی حکومت میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ اِن کو حاصل مفت بجلی کی سہولت ختم کر سکے اسی لیے تین دن منعقد ہونے والے اجلاس بے نتیجہ رہے اور آئی ایم ایف سے منظوری ملنے کی صورت میں چار سو یا اِس سے زائد بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین سے اقساط میں رقوم وصولی کا فیصلہ کرنے پر اکتفا کیا گیا عجیب ریاست ہے جو اپنے شہریوں کو راحت دینے میں بھی آزاد نہیں اور عالمی اِداروں سے احکامات لیکر چلنے کی بات کرتی ہے ابھی حال ہی میں آئی ایم ایف کی سربراہ کا بیان منظرِ عام پر آیا ہے کہ اُن کا اِدارہ عوام کو بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں ریلیف دینے سے منع نہیں کرتا بلکہ امیر طبقات کو دی گئی مراعات واپس لینے اور ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے پر یقین رکھتا ہے عوام کا مطالبہ بھی کم و بیش یہی ہے یو این او کے ذیلی اِدارے یو این ڈی پی کی طرف سے یہ انکشاف سامنے آ چکا کہ پاکستان میں اشرافیہ کو سالانہ سترہ ارب ڈالر کی مراعات دی جاتی ہیں اِس کے باوجود حکومت کا سسکتی اور تڑپتی عوام کو ترجیح نہ دینا اور اِس حوالے سے ہچکچانا سمجھ سے بالاترہے۔
نگرانوں نے ملکی مفاد کی یہ نگرانی کی ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ میں تیزی آ گئی ہے جس سے نہ صرف ادائیگیوں کی صورتحال خراب تر ہوئی ہے بلکہ درآمدات کے اخراجات بڑھ گئے ہیں پاکستانی روپیہ دیوالیہ ہونے والے ملک سری لنکن کرنسی سے بھی نیچے جا چکا ہے بظاہر حکومت کی رَٹ کہیں نظر نہیں آئی ملک پر مہنگائی، بے روزگاری اور بد امنی کا راج ہے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار اضافہ مسائل کا حل نہیں لیکن مہنگائی اور بجلی کے بلوں سے ستائے عوام پر حکومت بے دریغ پیٹرول بم گراتی جا رہی ہے پیٹرول کی قیمت میں حالیہ اضافے سے ملک میں پیداواری عمل سست ہو سکتا ہے سٹاک مارکیٹ پہلے ہی کریش ہو چکی یہ سب ڈالر اور پیٹرولیم اور بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو آزاد کرنے کا نتیجہ ہے اب تو کوئی اِدارہ حکومتی ہدایات اور احکامات کو خاطر میں نہیں لاتا یہ اِدارے اِس حد تک خود سر ہو گئے ہیں کہ ہر معاملے میں اپنی مرضی کرنے لگے ہیں۔ پاکستان میں عوام کی ایسی بُری حالت تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی اب تو لوگ جینا مشکل اور مرنا آسان تصورکرتے ہیں۔ نوجوان نسل اپنے مستقبل سے اِس حد تک مایوس ہے کہ روزگار کے لیے بیرونِ ملک جاتے ہوئے موت کو گلے لگانے پر بھی آمادہ ہے۔ باربار اقتدار میں آنے کے باوجود بلاتفریق انصاف کی فراہمی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا طریقہ کار نہ بنانے والے دوبارہ ووٹ لیکر اقتدار میں آنے کے خواہشمند ہیں۔کیا عوام سے یہ چہرے پوشیدہ ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ عوام بخوبی آگاہ ہیں پھر بھی ایسے آزمائے ہوئے چہروں کو ووٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو آزادی، ملکی ترقی و خوشحالی اور مضبوطی کے بجائے مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی عزیز ہے اسی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ مسائل حل کرنے سے حکومتیں تو لاتعلق رہتی ہی ہیں ایک وجہ عوامی رویہ بھی ہے۔

تبصرے بند ہیں.