مفت تعلیم احسان نہیں ریاستی معاہدہ ہے

83

کیا کسی قوم پر اس سے بُرا وقت بھی ہو سکتا ہے کہ اُس کی معیشت برباد، فوج شکست خوردہ، ہسپتال مریضوں اور قبرستان لاشوں سے اٹے پڑے ہوں، اُس کے دو شہروں پر ایٹم بم گر انے کے بعد اُس کا بدترین مخالف فاتح فصیل شہر عبور کر کے بادشاہ کے محل کے باہر ایک ذلت آمیز صلح نامہ لیے کھڑا پوچھ رہا ہو کہ صلح یا جنگ؟ تاریخ کے اِس مکروہ اور ذلت آمیز منظر کو جاپانیوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ شاہ جاپان نے فوج ختم کرنے کی ذلت قبول کر لی کیونکہ شاہِ جاپان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کے ذریعے تو پھر ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں لیکن اگر اِس سے دستبردار ہو گئے تو جاپانی قوم ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ یورپ اور امریکہ میں الیکٹرونکس سے لے کر گاڑیوں اور بچوں کے کھلونوں سے لے کر گھریلو اشیا تک ہر شے جاپانی تھی۔ شکست خوردہ جاپان ایک بڑی معیشت بن کر دنیا کے سامنے کھڑا تھا۔ آج دنیا میں سب سے سچی، باوقار اور قابلِ عزت قوم جاپانیوں کو سمجھا جاتا ہے۔ جاپان دنیا بھر سے کما کر اپنے لوگوں پر خرچ کرتا ہے نہ کہ اپنے لوگوں کے خون پسینے کی کمائی برآمد کر کے دنیا میں رسوا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ اُسی مقصدیت سے بھرپور تعلیم کا دین ہے جس کا فیصلہ 1946 ء میں جاپانیوں نے کیا۔
ہمیں جمہوریت اور آمریت کا کھیل کھیلتے ہوئے 76 سال ہو چکے لیکن ہم ہیں کہ ملک دو ٹکرے کرا کر بھی یہ نہیں طے کر پائے کہ ہم نے آنے والی نسلوں کی سمت کا کیا تعین کرنا ہے۔ ہر قوم کی نئی نسل جدید ضرورتوں کے مطابق حالات سے نمٹ لیتی ہے لیکن انہیں شعوری طور پر کسی قابل اُن سے پہلی نسلوں نے بنانا ہوتا ہے۔ ہم سے پہلی نسل نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اور ہم نے ذمہ داری تو کیا پوری کرنا تھی اِس نسل کے ذہنوں میں نفرت کے جو بیج بو دیئے ہیں ابھی اُن کا قلع قمع کرتے کرتے ایک نسل اور دنیا سے رخصت ہو جائے گی۔ میرے نزدیک صرف تعلیم اور تربیت کے شجر پر ہی جمہوریت کا پھل بارآور ہو سکتا ہے اور عوام کو تعلیم دیئے بغیر ریاست صرف شاہ دولہ کے چوہے پیدا کرتی رہی گی۔ مقصدیت کی بنیاد پر تیار ہونے والا نصاب اور مفت تعلیم پاکستانی شہریوں کا آئینی حق ہے جو آج تک نہیں دیا گیا تاکہ مرضی کی ”جمہوریت“ لائی جا سکے۔ صرف تعلیمی انقلاب ہی قوموں کی تاریخ اور تقدیر بدلتا ہے۔ پاکستان کے تمام حکمران کسی فرد یا ادارے سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوئے اگر انہیں خوف ہے تو صرف اور صرف پاکستانی قوم کے تعلیم یافتہ ہونے سے کہ تعلیم یافتہ قوم کو ناقابلِ عمل منشور پیش کر کے ووٹ نہیں لیا جا سکتا۔ عوام دشمن قوتوں نے شعوری طور پر عوام کو تعلیم سے دور رکھا تاکہ اکثریت پر منظم اقلیت کی حکمرانی کو برقرار رکھا جا سکے۔ تعلیمی ایجنڈہ ہر سیاسی جماعت کے منشور میں رہا ہے اور آئندہ بھی ہو گا لیکن آپ ماضی قریب اور بعید دونوں میں دیکھ لیں کہ بجٹ میں تعلیم کیلئے رکھی جانے والی رقم ہر سیاسی جماعت کے تعلیمی منشور کی نفی کرتی دکھائی دے گی کیونکہ واحد تعلیم ہی ہے جو کسی بھی قابض بالا دست طبقہ کی اجارہ داری کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیتی ہے۔ یکساں نظام تعلیم اور با مقصد نصاب تعلیم، ہماری زبانیں، نسلیں اور کلچر الگ الگ ہونے کے باجود ہمیں ہجوم سے قوم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اُس کیلئے معاون و مدد گار ہو سکتا ہے۔ آج تک پاکستان کے تمام حکمرانوں کی فراہم کردہ تعلیمی مقصدیت زیادہ سے زیادہ جہالت پیدا کرنے کے سوائے کچھ بھی نہیں تھی۔
تعلیم نوکری کیلئے نہیں باشعور ہونے کیلئے ہوتی ہے لیکن معاشی طور پر غیر محفوظ ریاستوں کے شہریوں کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بہتر یا بہترین ملازمت حاصل کر کے اپنا معاشی مستقبل محفوظ کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے قوم کی مجموعی عقل کلرک سے آگے نہیں جاتی اور سماج تخلیق کاروں اور جدت پسندوں سے محروم رہ جاتا ہے جنہوں نے اپنی ریاست میں بسنے والوں کو عظیم قوم بننے کی اساس فراہم کرنا ہوتی ہے۔ مفت تعلیم دینا احسان نہیں آئینی فرض ہے جسے آج تک ادا نہیں کیا گیا سو جب حکمران اپنا فرض ادا نہیں کرتے تو پھر عوام بھی اپنے حقوق و فرائض سے غافل ہو جاتے ہیں۔ ہمارا دین مساوات کا علمبردار ہونے کے باوجود عالم اور جاہل کو برابر نہیں سمجھتا، تعلیم حاصل کرنا ممکن ہے کسی دوسری قوم کا حق ہو لیکن مسلمان پر یہ فرض ہے جو سب کو ادا کرنا ہے لیکن کسی جمہوریت، آمریت یا پھر اسلام کے نام پر حکومت کرنے والے نے آج تک اس فرض کو ادا نہیں کیا۔ تعلیم کے بغیر جمہوریت کے پودے کو تن آور دیکھنے کی خواہش کرنا ایسے ہی جیسے علاج کے بغیر مریض کی صحت یاب بارے پُرامید رہنا۔ آپ انسانی تاریخ کا کوئی بھی انقلاب دیکھ لیں اُس کی بنیادوں میں آپ کو تعلیم ہی نظر آئے گی۔ دنیا کے کسی معاشرے کو تعلیم کے بغیر تبدیل کرنے کا خیال کسی ذہنی مریض کے دماغ میں تو آ سکتا ہے لیکن تندرست ذہن ایسا سوچنے سے بھی پرہیزکرتا ہے۔ بے مقصد تعلیم، ریاست میں نواز، شہباز، زرداری اور مولانا فضل الرحمان تو پیدا کر سکتی ہے لیکن عمران خان پیدا نہیں ہو سکتا کیونکہ سازش کرنے کیلئے جس عقل کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی یورپ کی یونیورسٹیوں میں دی جاتی ہے۔ مغرب کے ایک "تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ” شخص نے سکہ بند پاکستانی سیاستدانوں کی نہ صرف ایک ہی دیگ پکا کر رکھ دی ہے بلکہ پاکستان کے مضبوط ترین اداروں کو بھی بنیادوں سے ہلا دیا ہے۔ میرا یقین ہے کہ بامقصد تعلیم معاشرے میں بے مقصد انسان پیدا نہیں ہونے دیتی۔ آنے والی نسلوں کی شناخت ایک تعلیم یافتہ قوم کی حیثیت سے کرانا ہماری اولین ترجیح کبھی نہیں رہی جس کی وجہ سے آج وہی سوشل میڈیا یورپ کے عوام استعمال کر رہے ہیں وہی بھارت میں استعمال ہو رہا ہے اور وہی ہمارے زیر تصرف ہے اور حالت آپ کے سامنے ہے کہ پاکستانی قوم  نے 1947 سے لے کر 2008 تک اتنا جھوٹ نہیں بولا ہو گا جتنا 2009 سے لے کر آج 2023 تک بول لیا ہے اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

تبصرے بند ہیں.