میرا ارادہ بدل رہا ہے

97

مہنگائی کی جو آگ پورے مُلک میں پھیلتی جا رہی ہے حکمرانوں کے لئے مجھے اس کے نتائج کچھ اچھے نکلتے دکھائی نہیں دے رہے، گزشتہ ہفتے اس مُلک کے اصلی مالکوں سے اپنی ملاقات میں ایک شعر اُن کی خدمت میں عرض کیا تھا
روز پلتے ہوئے شعلے نہ بجھائے مگر
جب آگ پھیلی تو لوگ شہر بچانے نکلے
میں نے کہا تھا "چھوٹی چھوٹی چنگاریاں، شعلے بنتے جا رہے ہیں، اس آگ کو جتنی جلدی ممکن ہو بُجھا لیں”، مہنگائی خصوصاً بجلی کے بلوں میں ہوش رُبا اضافے پر منافق سیاسی جماعتوں کی خاموشی پر مجھے اس لئے ذرا حیرانی نہیں ہوئی کہ عوام کے بدترین حالات کی ذمہ دار یہی منافق سیاسی جماعتیں ہیں، کوئی لندن میں بیٹھ کر آلو گوشت کھا رہا ہے، کوئی دبئی میں بیٹھ کر مستقبل کی سیاست پر نئی شطرنج کھیل رہا ہے، مولوی صاحب کا سارا وقت یہ سوچتے ہوئے گُزر رہا ہے اگلی حکومت میں اپنا حصہ کیسے اور کتنا وصول کرنا ہے؟ عوام کی کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے، بس ایک جماعت اسلامی ہے جس نے مُلک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے،یا پھر استحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان نے حکومت سے پُرزور مطالبہ کیا ہے مستحقین کو تین سو یونٹ بجلی فری فراہم کی جائے، ہر حکومت کا حصہ بننے کا اعزاز حاصل کرنے والی ایم کیو ایم کے خدشات بھی درست ہیں کہ مہنگائی اور بجلی کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف ہونے والے عوامی احتجاج کسی بڑے فساد میں تبدیل نہ ہو جائیں، اور یہ کہ لوگ اب باغی ہو رہے ہیں اور مُلک تیزی سے سول نافرمانی کی جانب بڑھ رہا ہے”۔۔ ایم کیو ایم کی خدمت میں عرض ہے لوگ اُن سیاسی جماعتوں سے بھی باغی ہو رہے ہیں جو ہر حکومت کا دُم چھلہ بننے میں فخر محسوس کرتی ہیں، مہنگائی اور بجلی کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کے خلاف مُلک بھر میں چلنے والی احتجاجی تحریک کو پیش نظر رکھتے ہوئے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے جو نوٹس لئے، جو اجلاس طلب کئے، اللہ کرے وہ مستحق عوام کو کوئی ریلیف دینے میں کامیاب ہو سکیں، اُن کا یہ متوقع فیصلہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ مختلف سرکاری افسروں خصوصاً واپڈا کے افسروں کو مفت کی بجلی فراہم کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے، اُنہوں نے بالکل درست فرمایا کہ "یہ ممکن نہیں عام آدمی مُشکل میں ہو اور افسر شاہی کو مفت بجلی ملے، بجلی کی چوری روکنے کے لئے آرڈیننس لانے کا فیصلہ بھی لائق تحسین ہے، لیکن اگر یہ آرڈی نینس آتا ہے تو اس کا دائرہ اُن علاقوں تک بھی وسیع ہونا چاہئے جو طاقتور سیاستدانوں اور اصلی حکمرانوں کے زیر اثر ہیں، جہاں واپڈا کا کوئی اہل کار تُو دُور کی بات ہے چڑیا پر نہیں مار سکتی، اس مُلک میں بے شمار آرڈی نینس بے شمار قوانین کا شکار صرف کمزور لوگ ہوتے ہیں، بدمعاشیہ کو کل کسی نے پوچھا نہ شاید آئندہ کوئی پوچھے گا، یہی المیہ ہے مُلک کو اس بدترین مقام پر جس نے پہنچا دیا ہے کہ دُنیا اب ہم پرتھوکنا بھی پسند نہیں کرتی کہ اُس کی تھوک کہیں ضائع نہ ہو جائے۔۔
انصاف، انصاف، حضور انصاف، امیر غریب، کمزور طاقتور، سب کے لئے یکساں انصاف، یہ نظام فوری طور پر اگر رائج نہ ہوا مزید کسی کے کچھ "کھانے پینے” کے لئے نہیں بچے گا، اور اگر مزید کچھ”کھانے پینے” کے لئے نہ بچا بدمعاشیہ یہاں رہ کر کیا کرے گی؟ بدمعاشیہ تو پہلے ہی بیرون مُلک شفٹنگ کے سارے انتظامات مکمل کئے بیٹھی ہے، میرے پاس مکمل تفصیل ہے کہ کس کسں اعلیٰ بیوروکریٹ نے بیرون مُلک خصوصاً یورپی ممالک میں کتنی کتنی جائیدادیں بنا رکھی ہیں، کون کون سا سیاسی خاندان ہے جس نے پاکستان کو جی بھر کر لُوٹا اور اب یورپ کے مختلف ممالک کی یا تو وہ شہریت حاصل کر چکا ہے یا اُن کے کیسز انڈر پروسس ہیں، یہ لوگ کبھی نجات دہندہ نہیں تھے، نہ آئندہ ہوں گے، بس عوام کو اُنہوں نے ”بے وقوف“ بنایا ہوا تھا اور عوام بڑے شوق سے بنے بھی ہوئے تھے۔
ہمارے اکثر حکمران یہ فرماتے ہیں "غریبوں کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں”، وہ شاید مُلک سے غُربت اس لئے ختم نہیں کرتے غریب اگر نہ رہے اُن کے لئے دعائیں کون کرے گا؟ مُلک سے غُربت ختم کرنے کا اب بس ایک ہی طریقہ ہے کوئی مائی کا لعل پیدا ہو جو حکمرانوں کو بُھوک کے ایک ایک ہفتے کے کورسز کروائے، میں دیکھتا ہوں اُس کے بعد بھوک اس مُلک سے کیسے ختم نہیں ہوتی؟ اب یہ نہیں ہوسکتا حکمران اور طاقتور ادارے عیاشیاں کریں اور عوام بھوکے مریں، بجلی کی قیمتوں کے خلاف اْٹھنے والی احتجاجی تحریک اْمید کی ایک کرن ہے، کم از کم پتہ تو چلا سوسائٹی مکمل طور پر ڈیڈ نہیں ہوئی، قتیل شفائی نے درست فرمایا تھا
دُنیا میں قتیل اْس سا منافق نہیں کوئی
جو ظُلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
میں یہ نہیں کہتا کوئی ایسی "بغاوت” کی جائے جس کا مُلک کو ہلکا سا بھی کوئی نقصان پہنچے، مگر سوشل میڈیا کی دُنیا سے باہر نکل کر اپنے حقوق کے لئے لڑنا میرے نزدیک بغاوت نہیں، اس کا اصل مقصد دْنیا کو یہ پیغام دینا ہے”ہم کوئی مُردے نہیں ہیں، اپنے حقوق کے لئے ہم لڑ مر سکتے ہیں، اور اس کے لئے ہمیں کسی دو نمبر سیاستدان یا نام نہاد لیڈر کی ضرورت نہیں”۔۔
یہ جو اپنے حقوق کے لئے لوگ اب سڑکوں پر نکلے ہیں اُن کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں، یہ سب سیاسی جماعتوں اور اُن کے سرپرستوں سے اُکتائے ہوئے اُن کے ڈسے ہوئے لوگ ہیں، میری گزارش ہے انہیں "معمولی لوگ” نہ سمجھا جائے،یہ کسی جماعت کے کارکن یا راہنما نہیں جنہیں ڈرا دھمکا کر چُپ کروا دیا جائے گا، یہ بپھرے اور بکھرے ہوئے لوگ اگر مزید اکٹھے ہوگئے، اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کے لئے ہر قسم کے ڈر اور خوف سے آزاد ہوگئے، پھر اْس کے بعد کسی سیاستدان یا دیگر طاقتوروں کو اْن کے حقوق پر ڈاکے ڈالنے کی جُرأت نہیں ہوگی۔۔
مجھے تو مُردہ سوسائٹی میں جان پڑتی ہوئی دکھائی دینے لگی ہے، لوگ گہری نیند سے بیدار ہونے لگے ہیں، نیرو کی بانسری کے سُر مدھم پڑنے لگے ہیں، چوہے، اژدھے، سانپ، بھیڑیے اور بچھو اپنے راستے بدلنے لگے ہیں، ہر شاخ پر بیٹھے کچھ اُلو اُڑان بھرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں، گُھپ اندھیرے میں دُور بہت دُور کچھ جگنُو چمکتے ہوئے دکھائی دینے لگے ہیں، کچھ تتلیاں مجھے یہ پیغام دینے آئی ہیں "ٹھہر جاؤ پاکستان کو مستقل طور پر ابھی خیر باد نہیں کہنا”۔۔
دوستو میرا ارادہ بدل رہا ہے، سارا وطن اگر نہیں بھی جاگا کم از کم یہ اُمید تو پھوٹی ہے ناں کہ سارا وطن بھی اک روز جاگ جائے گا، پھرہم سب باآواز بلند یہ گیت گانے کے مستحق ہوں گے
"جاگ اُٹھا ہے سارا وطن ساتھیو”۔۔
بس یہ ہے کہ اس بار یہ ترانہ کسی بیرونی دُشمن کو نہیں کچھ”اپنوں” کو سُنانے کے لئے ہم گائیں گے۔۔

تبصرے بند ہیں.