پتا نہیں کیا ہوا کہ اخبار میں میرے پسندیدہ کالم نگار ابرار ندیم کا کالم آنا اچانک بند ہو گیا۔ پہلے کچھ عرصہ تو میں یہ سمجھتا رہا کہ شاید ان کو کوئی گھریلو مصروفیت آڑے آ گئی ہو گی جس کی وجہ سے وہ کالم نہیں لکھ پا رہے۔ مگر جب مزید پندرہ بیس روز اخبار میں ان کا کالم نظر نہیں آیا تو مجھے تشویش ہوئی کہ خدا نخواستہ کہیں اُن کی طبیعت نہ خراب ہو گئی ہو۔ اس دوران میں نے آن لائن معاصر اخبارات کے ادارتی صفحات بھی چھان مارے کہ ممکن ہے انہوں نے کسی اور اخبار میں لکھنا شروع کر دیا ہو لیکن کسی جگہ بھی ان کے کالم کا سراغ نہ ملا۔ جبکہ ان کے کالم کے حوالے سے میرا یہ حال تھا کہ گذشتہ ڈیڑھ دو برس میں جب سے میں نے پہلی بار ان کا کالم پڑھا تھا تب سے آج تک شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو جب میں نے اخبار میں ان کا کالم پڑھنے میں ناغہ کیا ہو۔ سچ کہوں تو میں اخبار خریدتا ہی صرف ان کا کالم پڑھنے کے لیے ہوں وگرنہ دنیا جہان کی خبریں تو اب چوبیس گھنٹے نیوز چینلوں سے مل جاتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ اردو صحافت میں اور اچھے کالم نگار نہیں ہیں یقینا ان کے علاوہ اور بھی اچھے کالم نگار ہیں جنہیں بہت سے لوگ پسند کرتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں شاید ان میں وہ بات نہیں ہے جو میرے پسندیدہ کالم نگار ابرار ندیم کے کالموں کا خاصا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ ابرار ندیم اپنی طرز کے واحد کالم نگار ہیں تو یہ ہرگز مبالغہ نہیں ہو گا۔ جو لوگ میری طرح ابرار ندیم کے کالموں کے پرستار ہیں یقینا وہ بھی میری اس بات کی تائید کریں گے۔ ان کی تحریر میں شگفتگی اور معنی خیزی کے ساتھ جو رچاؤ اور رس ہے وہ بہت کم یاب ہے۔ میں کوئی سکہ بند نقاد نہیں ہوں کہ ان کی کالم نگاری کے فنی محاسن پر تفصیل سے بات کر سکوں بس مجھے اتنا پتا ہے کہ ان کے کالم اپنے خوبصورت انداز کی وجہ سے سیدھے پڑھنے والے کے دل میں اُتر جاتے ہیں اور بے شمار قارئین کی طرح میں بھی ان کا ایک ادنیٰ سا پرستار ہوں۔ بس اسی ایک پرستار کی حیثیت سے جب میری پریشانی مزید بڑھی تو میں حقیقتِ حال جاننے کے لیے ایک روز اخبار کے دفتر جا پہنچا۔ وہاں تھوڑی دیر کے لیے میری ملاقات اخبار کے ایڈیٹر صاحب سے ہوئی جنہوں نے بتایا "وہ اس حوالے سے خود پریشان ہیں کہ ابرار صاحب نے بغیر کسی وجہ کے ہمارے اخبار میں کالم لکھنا کیوں بند کر دیا ہے”۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس حوالے سے اب تک سیکڑوں قارئین کے فون آ چکے ہیں۔ اس پر میں نے انہیں کہا "اگر آپ نا مناسب نہ سمجھیں تو مجھے ابرار ندیم صاحب کے گھر کا پتا دے دیں ممکن ہے میں اُن سے ملاقات کر کے انہیں آپ کے اخبار کے لیے دوبارہ کالم لکھنے پر قائل کر سکوں”۔ ایڈیٹر صاحب نے ایک لمحے کے لیے کچھ سوچا اور پھر ایک کاغذ پر اُن کے گھر کا ایڈریس لکھ کر مجھے دیتے ہوئے کہنے لگے "اپنی گفتگو سے آپ ایک پڑھے لکھے مہذب اور شریف شخص دکھائی دیتے ہیں، میں یہ ایڈریس آپ کو اس امید پر دے رہا ہوں کہ اس طرح شاید آپ ہمارے کام آ سکیں، بس یہ دھیان رکھیے گا کہ یہ ایڈریس آگے کسی غیر ذمہ دار شخص کے ہاتھ نہ لگے”۔ میں نے اُن سے اجازت لیتے ہوئے کہا "آپ بالکل فکر نہ کریں میں آپ کی تشویش کو سمجھ رہا ہوں”۔ اس کے بعد میں نے اخبار کے دفتر کے باہر کھڑا رکشہ لیا اور سیدھا ابرار صاحب کی رہائش گاہ پہنچ گیا۔ کچھ ہی دیر میں، میں اپنے پسندیدہ کالم نگار ابرار ندیم صاحب کے ڈرائنگ روم میں اُن کے سامنے بیٹھا چائے کے کپ کے ساتھ اُن سے گپ شپ کر رہا تھا۔ اس دوران ابرار صاحب کم اور زیادہ تر گفتگو میں ہی کر رہا تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ زندگی میں پہلی بار اپنے پسندیدہ ہیرو کو سامنے دیکھ کر مجھ سے اپنی خوشی سنبھالی نہیں جا رہی تھی۔ میں مسلسل بول رہا تھا اور ابرار صاحب خاموشی سے زیرِلب مسکراتے ہوئے مجھے سنے جا رہے تھے۔ میں نے کہا "آپ کالم نگار نہیں لفظوں کے جادوگر ہیں آپ کو اللہ تعالیٰ نے خاص ہنر دیا ہے جس سے آپ اپنے پڑھنے والوں پر جادو کر دیتے ہیں۔ جس مہارت سے آپ سماج کے بُرے کرداروں کو بے نقاب کرتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے آپ کے پاس کوئی جادو کا آئینہ ہے جس میں آپ بڑی آسانی سے شرافت کے لبادوں میں چھپے بہروپیوں کو ان کی اصلی شکلیں دکھاتے چلے جاتے ہیں۔ اس پر آپ کا بیان کرنے کا ڈھنگ ایسا دلکش اور نرالا ہے کہ آپ کا قاری ایک ہی سانس میں آپ کا پورا کالم پڑھتا چلا جاتا ہے”۔ میں نے بغیر وقفہ لیے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا "ابرار صاحب میری طرح آپ کے اور بھی بے شمار چاہنے والے ہیں جو آپ کے کالموں کا شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ یقینا اس بات کا ادراک آپ کو بھی ہے، یہ بتائیں اس کے باوجود آپ نے اچانک سے کالم لکھنا کیوں چھوڑ دیا ہے؟”۔ میری اس ساری گفتگو میں ابرار صاحب جو کافی دیر سے خاموش میری گفتگو سن رہے تھے انہوں نے نظریں اُٹھا کر میری طرف دیکھا، کہنے لگے "محترم! کوئی جادو کا آئینہ تو نہیں البتہ میرے دل و دماغ میں جادوئی آئینہ ایسا کچھ ضرور تھا جس میں مجھے لوگوں کے عیب دکھائی دیتے تھے اور پھر میں اپنے قلم کے ذریعے وہی آئینہ لوگوں کو دکھا دیتا تھا”۔ اس پر میں نے کہا کہ آپ کا یہ کام تو ان بُرے لوگوں کے خلاف ایک قلمی جہاد ہے پھر آپ نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا ہے؟ ابرار صاحب نے کہا "اس لیے کہ وہ علامتی یا ملامتی آئینہ جو مجھے لوگوں کی خامیاں دکھاتا تھا میں نے اسے توڑ دیا ہے”۔ میں نے حیرانی سے پوچھا، وہ کیوں؟ اس پر ابرار صاحب نے کسی ہارے ہوئے انسان کی طرح مجھے دیکھا اور پھر ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہنے لگے "بس غلطی سے ایک بار اس آئینے میں خود اپنی شکل دیکھ بیٹھا ہوں اور میری یہ شکل ایسی عجیب و غریب اور خوفناک تھی کہ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو سکا اور میں نے اسی وقت وہ آئینہ اور اپنا قلم توڑ دیا”۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.