بدامنی اور انتشار بڑھ رہا ہے

84

بجلی کے بلوں کی ادائیگی غریب اور متوسط طبقہ کے لیے تو وبال جان بنی ہی ہوئی تھی لیکن اب تو صاحب حیثیت لوگ بھی پریشانی کا شکار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ غربت اور مہنگائی نے تو پہلے سے عوام کی چیخیں نکلوا رکھی تھیں اوپر سے پیٹرول اور بجلی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں نے تو ان کی کمر ہی تور کے رکھ دی ہے۔
شائد حکومت بھی یہ بات جانتی ہے کہ بجلی اور پیٹرول خریدنا تو لوگوں کی مجبوری ہے لہٰذا ان کی قیمتوں کے چکر میں ہی ان کا جتنا ممکن ہو خون نچوڑ لینا چاہیے۔ بات اگر پیٹرول یا بجلی کی اصل قیمت کی ہو تو پھر بھی قابل برداشت ہو سکتی ہے لیکن صارفین کو توناجانے کون کون سے ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتے ہیں جو ان اشیا کی قیمتوں کو دوگنا بنا رہے ہیں۔
اگر صرف بجلی کی ہی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بالفرض اگر کسی شخص نے اٹھارہ ہزار روپے کی بجلی خرچ کی ہے تو اسے اندازاً سولہ ہزار روپے مختلف ٹیکسز کی مد میں ادا کرنا ہوں گے ۔ یوں اسے کا ماہوار بل چونتیس ہزار روپے تک جا پہنچے گا۔ان اندھا دھند ٹیکسوں کی گھمن گھیری ایسی ہے کہ عام آدمی تو چکرا کر ہی رہ جائے ۔ اس کے علاوہ استعمال شدہ یونٹس پر سلیب اور پھر پیک ٹائم اور آف پیک ٹائم کی چکر بازی علیحدہ ۔ غرض اگر کوئی اپنے ہی بجلی کے بل کا حساب کتاب کرنے بیٹھے تو چکرا کر رہ جائے۔
ایک اندازہ کے مطابق بجلی کے ایک عام صارف کو ماہ اگست میں موصول ہونے والے بل میں تیرہ قسم کے ٹیکس شامل تھے۔ پہلا جنرل سیلز ٹیکس یعنی جی ایس ٹی، دوسرافیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، تیسرا فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر الیکٹر سٹی ڈیوٹی، چوتھافیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر ویری ایشن نامی ٹیکس، پانچواں بجلی کے استعمال شدہ یونٹس کی قیمت پر الیکٹرسٹی ڈیوٹی، چھٹا
ٹیلیویژن فیس کی مد میں وصول کیا جانے والا ٹیکس، ساتواں کواٹرلی ایڈجسٹمنٹ جارجز کی مد میں وصول کیا جانے والا ٹیکس، آٹھواں فنانشل کاسٹ نامی ٹیکس ، نواں ایکسٹرا ٹیکس چارجز، دسواں فردر ٹیکس چارجز، گیارہویں نمبر پر ودہولڈنگ ٹیکس، بارہویں نمبر پر میٹر رینٹ (واضح رہے کہ ہر صارف بجلی کے کنکشن کے حصول کے وقت میٹر کی قیمت ادا کرتا ہے) اور تیرھویں نمبر پر انکم ٹیکس۔
اگر ان ٹیکسوں کا تکنیکی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان وصولیوں میں سے زیادہ تر کو ’جگا ٹیکس‘ کا نام دے دیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کیونکہ یہ صرف صارف کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی وصولیاں ہیں ورنہ بجلی کے محکمہ کے لیے ان پیسوںکی توجیہہ پیش کرنا بہت مشکل ہو جاتا۔
اس وقت عالم یہ ہے کہ عوام کی آمدنی یا تو گھٹ رہی ہے یا پھر بند ہوتی جا رہی رہی لیکن بجلی کے نرخوں میں روز بروز اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اس صورتحال سے تنگ آ کر لوگ گھر کا سامان بیچ کر بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں یا پھر خود کشیوں پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اگر یہ تنگی ، مشکل اور پریشانی ملک میں بسے والے ہر شہری کے لیے یکساں ہو توشائد لوگ اسے برداشت بھی کر لیں لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ جن کی تنخواہیں پہلے ہی لاکھوں میں ہیں ان کے لیے بجلی، پیٹرول، گیس، رہائش اور ملازم سب فری ہے اور جو بیچارے پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس چکے ہیں ان پر ان لوگوں کی عیاشیوں کا بوجھ بھی ڈال دیا جاتا ہے ۔یعنی جج، جرنیل، بیوروکریٹ، سیاستدان اور واپڈا اہلکارکو بجلی مفت استعمال کرتے ہیں اوراس کا بل ادا نہیں کرتے دراصل وہ بل عوام ادا کر رہے ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہمارے ملک میں بجلی چوروں کو بھی مکمل تحفظ اور فری ہینڈ حاصل ہے۔ افسو س کی بات ہے کہ یہ سسٹم بھی شائد صرف ہمارے ملک میں ہی رائج ہے کہ بجلی چوری اور کرپشن کی قیمت بھی انہیں لوگوں کو ادا کرنا پڑتی ہے جو باقاعدگی اور ایمانداری سے اپنا بل ادا کرتے ہیں۔
حکمرانوں کو اگر واقعی اس ملک کی کوئی پروا ہے تو انہیں دیکھنا چاہیے کہ اب یہاں کے عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ بجلی کے نرخوں میں حالیہ پانچ روپے چالیس پیسہ فی یونٹ اضافہ کے بعد ہر شہر سے عوامی ردعمل سامنے آنا شروع ہو گیا ہے، سوشل میڈیا پر بھی ایک مستحکم مہم چلائی جا رہی ہے۔
مہنگائی سے پسے ہوئے عوام کے پاس چونکہ کوئی آپشن ہی نہیں بچا شائد اس لیے وہ سول نافرمانی جیسی کال پر بھی لبیک کہنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ عوام بغیر کسی باقاعدہ لیڈرشپ کی کال کے بغیر ہی واپڈا دفاتر پر حملے کر رہے ہیں اور واپڈا دفاتر کا عملہ پولیس تحفظ طلب کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔
تاجر، صنعتکار اور زمیندار بجلی کے نرخوں سے علیحدہ پریشان ہیں اور ہڑتالیں اور اپنے کاروبار بند کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، کھادوں، زرعی ادویات، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ نے زمیندار کو بھی شدید پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ اگر کاروباری حضرات اور صنعتکاروں نے اپنی دھمکیوں پر عملدرآمد شروع کر دیا تو اس سے ملک میں بے روزگاری اور بڑھ جائے گی جس کا نتیجہ مزید بدامنی اور انتشار کی صورت میں نکلے گا۔
حکومت کو اس معاملہ پر فوری طور پر بہت سنجیدگی سے توجہ دینا ہو گی اور ہنگامی بنیادوں کا اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ جس حساب سے عوامی ردعمل سر اٹھا رہا ہے کہیں ایسا نا ہو کہ معاملات ہاتھ سے نکل جائیں اور پھر بجلی اور پیڑول سستا کر کے بھی قابو میں نا آئیں۔

تبصرے بند ہیں.