حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی نور اللہ مرقدہ

167

دین پو ر کے خطہ صالحین نے جن عظیم شخصیات کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دے رکھی ہے،ان میں انتہائی نیک اورمعروف نام حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی کا بھی ہے۔ جن کا شمار عالم اسلام کے عظیم حفاظ حدیث میں ہوتا ہے۔ آپ حضرت درخواستی کے نام سے اہل علم اور اہل تقویٰ میں جانے جاتے ہیں۔خان پورکی شہرت تحریک ریشمی رومال کے حوالے سے نہ صرف برصغیر پاک و ہند میں مقام رکھتی ہے بلکہ یہ علاقہ اس تحریک کے مراکز میں سے ایک تھا اسی خان پور کے قریب ایک چھوٹی سی بستی درخواست کہلاتی ہے جہاں عالم اسلام کی عظیم شخصیت یادگار اسلاف، عالم باعمل، ولی کامل حافظ القرآن والحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی ماہ محرم 1313ھ میں جمعۃ المبارک کے دن پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام حافظ محمود الدین تھا، جو اپنے وقت کے نیک و پارسا اور صاحب تقویٰ افراد میں سے تھے اور صاحب نسبت تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے زیر سایہ ہی حاصل کی اور انہی سے 9 سال کی عمر میں حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کی ابتداء کتب مقامی علماء کرام سے پڑھیں موقوف علیہ اور فقہ کے اسباق حضرت شیخ الہند کے مایہ ناز شاگرد حضرت مولانا عبدالغفور حاجی پوری سے پڑھے۔ جبکہ 1918ء میں دورہ حدیث کے اسباق شیخ المحدثین حضرت مولانا انور شاہ کشمیری کے شہرہ آفاق شاگرد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مجاز شیخ الحدیث حضرت مولانا غلام صدیق حاجی پوری سے پڑھے اور ان کے اندازِ حدیث سے فیض یاب ہوئے۔
شیخ القرآن حضرت مولانا حسین علی (واں بھچراں) سے قرآن مجید کی تفسیر پھر سلسلہ قادریہ کے سرخیل اور صوفی بزرگ حافظ محمد صدیق بھرچونڈی کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا غلام محمد دین پور مقیم تھے سے شرف تلمذ پایا جن کے بارے میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کا جملہ تاریخ کا حصہ یے کہ ہر ولی کی ولایت کی کوئی نہ کوئی نشانی ہوتی ہے اور خلیفہ حضرت غلام محمد دینپوری کی ولایت کی نشانی کا چہرہ ہے۔حضرت درخواستیؒ نے اوائل عمری میں ہی مرد قلندر کے دامن کو تھاما ان سے تصوف وسلوک کی منازل طے کیں۔ آپ نے بیشتر دینی علوم کی تحصیل اپنے وطن ہی میں کر لی تھی، تاہم آپ کی دلی خواہش تھی کہ آپ مرکز علم و عرفان دارالعلوم دیوبند جائیں اور وہاں کے چشمہ صافی سے فیض یاب ہوں۔ علوم بھی حاصل کریں اور سلوک و معرفت کی منازل بھی طے کریں۔انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار اپنے مرشد حضرت مولانا غلام محمد سے کیا توفرمایاتم دین پور ہی میں رہو دارالعلوم دیوبند کی معروف شخصیات کی زیارت تمہیں دین پور ہی میں ہو گی۔ اللہ والے کے منہ سے نکلی بات تھی پوری ہوئی۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ حضرت مولانا عبید اللہ سندھی کے ہمراہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ دین پور تشریف لائے اور فرمایا یہاں تو انوارات کی بارش برس رہی ہے اس کے بعد بے شمار اکابر دین پور کی تشریف لاتے رہے جن میں حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ او رمولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ جیسے جبال علم شامل ہیں۔مولانا محمد عبداللہ درخواستی کو بڑے بڑے اکابر کی زیارت اور ان سے فیض یاب ہونے کے مواقع ملے۔
آپ کو علم حدیث کے ساتھ بہت زیادہ محبت او رشغف تھا۔ فرامین رسول اللہ کو حفظ کرنے کا بہت شوق تھا۔ آپ جب بھی اپنے استاد مرشد حضرت مولانا غلام محمد کی خدمت میں حاضر ہوتے تو کوئی نہ کوئی نئی یاد کردہ حدیث استاد کو سناتے۔ استاد کو بھی سماعت حدیث سے لذت حاصل ہوتی۔ ایک مرتبہ آپ مسجد نبویؐ میں پہنچے احادیث پڑھ رہے تھے۔ ایک عرب پاس بیٹھا سن رہا تھا اور محظوظ ہو رہا تھا، اس نے آپ سے اتنی احادیث زبانی سنیں تو بولا جس نے حضرت ابو ہریرہؓ کا حافظہ دیکھنا ہو وہ شیخ محمد عبداللہ کو دیکھ لے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 1932ء میں علامہ سید انور شاہ کشمیری ایک مقدمے کے سلسلے میں بہاول پور تشریف لائے تھے جس کے محرکین میں حضرت درخواستی بھی شامل تھے یہ مقدمہ ایک عورت نے اپنے شوہر کے مرزاء پتہ چل جانے کے بعد فسخ نکاح کے سلسلہ میں عدالت میں دائر کیا تھا حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے بھر پور دلائل دئیے، عدالت کو قائل ہونا پڑا اور عورت کو مرزائی شوہر سے نجات مل گئی۔ اس سفر کے دوران حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے حفظ حدیث کے حوالے سے جب درخواستی صاحب سے احادیث سنیں تو ان کو حافظ الحدیث کے لقب سے نوازا جو بہت بڑا اعزاز ہے آپ کو ایک لاکھ سے زائد احادیث یاد تھیں۔
حضرت درخواستی کو 1962ء ولی کامل شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی وفات کے بعد علماء کرام نے اپنی امارت کے لیے منتخب کیا۔ آپ نے 1962ء سے لیکر 1994ء تک 32 سال جمعیت کی امارت اور علماء کی امامت کے فرائض سرانجام دیئے اور تمام دینی مذہبی جماعتوں اور مدارس دینیہ کی سرپرستی فرمائی آپؒ کے دور امارت میں جمعیت خوب پھلی اور پھیلی آپ نے تحریک ختم نبوت1953ء اور 1974ء میں اور تحریک نظام مصطفی 1977ء میں قائدانہ کردار ادا کیا۔اور مکمل سرپرستی فرمائی۔مسلسل محنت و مشقت، قید و بند کی صعوبتوں اور قاتلانہ حملوں سے آپ نہ گھبرائے اور اپنے اسلاف کی یاد تازہ کردی۔ آپ اپنی ذات میں ایک جماعت، ایک تحریک، ایک عہد اور ایک انجمن تھے۔ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کا خصوصی ذوق دینی مدارس کا قیام اور ان کی سرپرستی تھا۔ جس علاقہ میں جاتے وہاں معلوم کرتے کہ دینی تعلیم کا کوئی ادارہ موجود ہے؟ اگر یہ دیکھتے کہ وہ علاقہ دینی مکتب و مدرسہ سے خالی ہے تو ان کی پہلی ترجیح یہ ہوتی تھی کہ علما کرام اور اپنے عقیدت مندوں کو ترغیب دے کر مدرسہ قائم کراتے اور پھر اس کی سرپرستی بھی کرتے۔ آپ سچے عاشق رسولؐ تھے جہاں گئے قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں بلند کیں اندرون وبیروں ملک عقیدہ ختم نبوت اور جمعیت کا پیغام اپنے رفقاء کے ساتھ عام کیا بلاشبہ لاکھوں لوگوں نے فیض پایا بالآخر19 ربیع الاول 1415ھ بمطابق 28 اگست 1994ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔ اللہ تعالی تمام اکابر کی قبور پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اورحضرت اور اکابرین کی نمائندہ جماعت جمعیت علماء اسلام کووطن عزیز میں اسلامی نظام کے نفاذکی جدوجہد میں کامیابیوں سے نوازے۔

تبصرے بند ہیں.