یہ کہانی ایک باوردی پولیس اہلکار کی گالیوں سے شروع ہوتی ہے۔ ایک رپورٹر پولیس کانسٹیبل کو ہیلمٹ اور نمبر پلیٹ کے بغیرموٹرسائیکل پر جاتا دیکھ کر روکنے کی کوشش کرتا ہے تو پولیس اہلکار بھاری بھرکم گالیوں اور مکوں سے اس کی تواضع کرتا ہے۔ صحافی آئی جی پنجاب کا حوالہ دیتا ہے تو کانسٹیبل اپنے آئی جی کو بھی ماں بہن کی گالیوں سے نوازتا ہے۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتی ہے۔ لوگ سوچ رہے تھے کہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اب اس اہلکار کے خلاف سخت کارروائی کریں گے لیکن اچانک صورت حال بدل گئی۔شاہد نام کے اس اہلکار کو پاگل ڈکلیئر کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ اس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔ آئی جی پنجاب کی جانب سے اقدامات کیے گئے اور اسے فوری طور پر پاگل خانے داخل کروا دیا گیا۔ پاگل خانے سے بھی کچھ ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر آ گئیں جن سے لگتا ہے کہ اسے وہاں سلاخوں کے پیچھے قید تنہائی میں رکھا گیا اور جیل کی طرح زمین پر سلایا گیا۔ ویڈیو بنانے والے اس کا مذاق بھی اڑاتے نظر آتے ہیں۔ اس کے فورا بعد آئی جی پنجاب کی ایک ویڈیو جاری ہوتی ہے جس میں آئی جی پنجاب جیل جا کر اپنے اس اہلکار سے ملتے ہیں اور اسے گلے لگاتے ہیں۔ اس کے ساتھ لان میں چہل قدمی کرتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ اہلکار کو وارڈ میں شفٹ کیا جائے گا اور حالت بہتر ہوتے ہی ادویات دے کر رخصت کر دیا جائے گا۔ ڈاکٹر عثمان انور کی جگہ کوئی اور آفیسر ہوتا تو یقینا اس اہلکار کو گرفتار کر لیا جاتا۔ ایسی صورت میں اسے ایک دن حوالات میں رکھا جاتا اور اگلے دن ضمانت ہو جاتی۔ اس کے بعد زیادہ سے زیادہ اسے محکمانہ کارروائی کا سامنا ہوتا لیکن اب وہ کتنے دن بطور پاگل قید رہے گا اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ بہرحال یہ آج کا مسئلہ نہیں ہے۔ میں یہ سوال بھی نہیں کرنا چاہتا کہ ایک پاگل اہلکار کئی سال سے وردی میں ڈیوٹی کر رہا تھا تو اب تک اس کے پاگل پن کا نشانہ بننے والے مظلوم شہریوں کی داد رسی کیسے ہو گی۔ وہ کتنا خطرناک ہو سکتا تھا یا ہوا ہو گا، اس حوالے سے بھی بات نہیں کرنا چاہتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صرف ایک اہلکار کا کیس نہیں ہے۔ پنجاب پولیس کے ہزاروں اہلکار کسی نہ کسی سطح پر نفسیاتی دباؤ اور پاگل پن کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہمیں ہر دوسرے روز کسی نہ کسی تھانے، ناکے یا کسی اور جگہ پولیس اہلکار شہریوں سے بدتمیزی کرتے نظر آتے ہیں، ان میں سے اکثر کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ سب نفسیاتی مسائل اور ذہنی تناؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔ کانسٹیبلز کی دن اور رات کی ڈیوٹی کے حوالے سے پولیس رولز(3) 28-16 بتاتا ہے کہ کوئی بھی پولیس ملازم 24 گھنٹے کے دوران 5 گھنٹے یا 8 گھنٹے سے زیادہ ڈیوٹی نہیں کرے گا اور پولیس ملازمین کو ہفتہ میں ایک دن رات کی چھٹی دی جائے گی۔ پنجاب کا شاید ہی کوئی تھانہ ہو جہاں اس قانون کو نہیں توڑا جاتا اور کئی افسران اسے فخریہ بیان کرتے ہیں۔ طویل ڈیوٹیاں اور چھٹی نہ ملنا یا چھٹی کے دن بھی بلا لینے کی روایات ملازمین کے اعصاب تباہ کر دیتی ہے۔ یہاں تک بھی کام چل سکتا ہے اور اس کے کئی جواز پیش کیے جا سکتے ہیں۔ میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی توجہ اس سے بھی خطرناک معاملے کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کانسٹیبل شاہد کو ذہنی مریض ڈکلیئر کروا کے پاگل خانے داخل کروا دیا لیکن شاہد جیسے ہزاروں کانسٹیبلز کو پاگل بنانے کی فیکٹریوں کو بند نہیں کیا گیا۔ کانسٹیبل شاہد ایک کیس سٹڈی ہے۔محکمہ پولیس میں افسران کے رویہ، بدزبانی اور اذیت پسندی کی عادت نے کئی شاہد پیدا کر دیے ہیں۔ اگر ان سب کی دماغی حالت کا جائزہ لیں تو شاید آدھی سے زیادہ فورس کی جگہ پاگل خانے میں ہو گی۔ اب یہ فیصلہ تو محکمہ کو ہی کرنا ہے کہ فورس کے جونیئر رینک کو پاگل خانے بھیجا جائے یا ان کے ایسے افسران کو بھیجا جائے جن کا بلڈ پریشرماتحت کو دیکھتے ہی ہائی ہو جاتا ہے۔ پاگل خانے میں موجود اس اہلکار شاہد کے بارے میں بھی یہی پتا لگا کہ وہ 15دن غیر حاضر رہا تھا جس پر اس کی انکوائری ہو رہی تھی۔ وہ متعلقہ ایس پی کے دفتر جاتا جہاں اسے انتظار کروانے کے بعد واپس بھیج دیا جاتا۔ اس کو افسر کے سامنے پیش ہی نہیں کیا جاتا تھا یا کہہ لیں کہ اس کا ایس پی ابھی مزید چند روز اسے منہ نہیں لگانا چاہتا تھا۔ یہ پولیس کی عام پریکٹس ہے۔ ماتحت کو سارا سارا دن انتظار کروا کر واپس بھیجنے پر فخر کیا جاتا ہے، کئی کئی گھنٹے دفتر کے باہر الرٹ حالت میں کھڑا رکھ کر ذلیل کرنے کے بعد اگر کسی خوش قسمت کو صاحب بہادر اندر بلا لیں تو بات سننے سے پہلے انہی گالیوں سے نوازا جاتا ہے جو کانسٹیبل شاہد آئی جی پنجاب کو پیش کر رہا تھا۔ اس میں پاگل کانسٹیبل شاید اتنا قصور وار نہیں ہے، اس نے وہی لوٹایا جو محکمہ کے افسران اسے کئی سال سے پیش کر رہے تھے۔ ماضی میں ایسے ہی اپنے سٹاف کو ماں بہن کی گالیاں بکنے والے ایک ڈی آئی جی کو انہی کے ڈرائیور نے قتل کر دیا تھا۔خود آئی جی پنجاب کے اپنے ایک قریبی آفیسر غصہ میں ماتحت سٹاف کو ہتھکڑیاں لگانے کی دھمکیاں دینے کی شہرت رکھتے ہیں۔ عام طور پر اہلکار اتنے دباو اور تذلیل کا شکار ہو جاتے ہیں کہ خودکشی تک کر لیتے ہیں۔ گزشتہ برس ایک ہی ہفتے کے دوران چار پولیس اہلکاروں نے خودکشی کی۔ آئی جی پنجاب یقینا لاعلم نہیں ہوں گے کہ اردل روم کے نام پر ماتحت پولیس ملازمین خصوصا تھانے کی سطح کے ملازمین کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اور افسران کے علاوہ ان کے آپریٹر، ریڈرز اور پرسنل اسسٹنٹ ہزار دو ہزار روپے کے لیے کس طرح بلیک میل کرتے ہیں۔ مئی2021 میں بھی کانسٹیبل محسن جاوید نے بھی اسی طرح کی پیشی اور افسر کی جانب سے بے انتہا ہتھک آمیز رویہ کی بنیاد پر خودکشی کر لی تھی۔ شکر کرنا چاہیے کہ کانسٹیبل شاہد نے صرف گالیوں کا تحفہ دیااور خودکشی نہیں کی۔ اس روز وہ بھی ایس پی کے دفتر سے ہی آ رہا تھا جب یہ واقعہ پیش آیا۔ اسے پچھلے دنوں کی طرح اس روز بھی سنے بناتذلیل کے تحفے کے ساتھ واپس بھیج دیا گیا تھا۔ اسے ایس پی کی جانب سے جو ملا وہ اس نے پوری ایمانداری سے آئی جی کی خدمت میں پیش کر دیا تھا، کاش آئی جی اس ایس پی سے بھی جواب طلب کرتے۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے پولیس ملازمین کی ویلفیئر کے لیے بے پناہ کام کیا ہے اور شاید وہ ایسے آفیسر ہیں جو پولیس ملازمین کو پاگل بنانے والی پی ایس پی فیکٹریوں کی آگ اگلتی بھٹیوں کو درست کر سکتے ہیں۔ اگر اس حوالے سے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا جائے تو یقینا قابل تعریف ہو گا ورنہ کم از کم اتنا کرتے جائیں کہ پی ایس پی یا رینکر میں سے کسی ایک طبقے کو علاج کے لیے پاگل خانے بھیج دیں تاکہ عوام یا ماتحت فورس میں سے کوئی ایک ان کے پاگل پن کا شکار ہونے سے بچ سکے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.