مجھے زندگی میں پہلی بار احساس ہوا ہے کہ درد کو الفاظ میں مجسم کرنا درد سے زیادہ درد دینے والے واقعہ ہوتا ہے۔ گزشتہ چند روز سے ایک تحریر لکھنے کی کوشش میں کتنی ہی بے ربط تحریریں میری رائٹنگ ٹیبل پر پڑی میرا منہ چڑا رہی ہیں کہ و ہ اُس المیے کو معنی اور مفہوم کے ساتھ صفحہء قرطاس پر اتارنے میں بُری طرح ناکا م ہورہی تھیں جو میرے ذہن کی مومی تختی پر نقش ہو کررہ گیا تھا۔ انسانی ذہن قدرت نے تصویری بنایا ہے حروفی نہیں، زبان انسان کی ایجاد ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ذہن میں تصاویر ہونے کے باوجود ہمیں الفاظ کی محتاجی کا احساس ہوتا ہے۔ میرے لئے یہ لکھنا کہ خورشید ماموں دنیا میں نہیں رہے، ناممکن ہے کیونکہ میں ابھی تک اُن کی موت کا یقین نہیں کرپایا۔ رات گئے بھی میں اُن کے موبائل نمبر کو دیکھتا رہا، نہ جانے کیوں ایسا لگتا تھا کہ میں فون کروں گا تووہ اٹھا لیں گے۔میری عادت یہ ہے کہ میں جن سے محبت کرتا ہوں اُن کی موت کے بعد بھی اُن کا نمبر ڈیلیٹ نہیں کرپاتا۔میں مرنے والوں کی نمازِ جنازہ تو پڑھتا ہوں لیکن میں انہیں قبر میں نہیں اتارتا کہ اس سے میرے ذہن میں اُن کی موت کے یقین کی تصویربن جاتی ہے۔
خورشید صاحب 1947ء کے بلوے میں امرتسر سے اپنے باپ کی گود میں ہجرت کرتے ہوئے لاہور پہنچے اور پھر وہ لاہور سے بھی ”ہجرت“ کر گئے، کہاں گئے نہیں جانتا لیکن میں چشم تصور سے اُن کے قہقہے، اُن کی معصوم اور شرارت سے بھری مسکراہٹ، اُن کی علمی گفتگو، اُن کی معلومات اوراُن کی حاضر دماغی کو آج بھی دیکھ سکتا ہوں۔ وہ میرے چھوٹے ماموں کے دوست تھے، میری اُن سے ملاقات اُس وقت ہوئی جب ابھی رشتوں کی سانجھ ہمارے سماج میں باقی تھی، جگ ماموں اورجگ خالہ کی روایت عروج پر تھی۔ وہ میری نانی ماں کے چہیتے بیٹے اورمیری والد ہ کو سگے بھائیوں کی طر ح عزیز تھے۔ پچاس کی دہائی میں انہوں نے مسلم ہائی سکول تحصیل بازار، جسے تحصیل سکول بھی کہتے تھے وہاں داخلہ لیا تو میرے چھوٹے ماموں خضر حیات بٹ، موسیقار طافو، گلوکار غلام علی اورایسے ہی لاتعداد بڑے نام اُن کے سکول فیلوز بنے اور اس تعلق کو اُنہوں نے عمر بھر نبھایا، ایم۔اے او کالج لاہور سے انٹر کا امتحان پاس کیا، وہ مزے لے لے کرمجھے ایم۔اے اوکالج میں داخلے کی روداد سنایا کرتے تھے کہ کس طرح منٹو پہلوان جو امرتسر سے ہجرت کرکے آئے تھے، نے اُن کا داخلہ ایم۔ اے۔ او کالج میں کرایا۔ خورشید صاحب کو امرتسر کا کلچر وارثت میں ملا اور لاہور کی مٹی نے ان کی پرورش کی، اُن کو اللہ نے یاد اشت کی جگہ ایک فوٹو کاپی مشین دے رکھی تھی، جو اُن کے حواصِ خمسہ پر پڑنے والے ہر تجربے، مشاہدے اور مطالعے کا پرنٹ لے لیتی تھی۔ رویے کے اعتبار سے پکے لاہوریے اور غصے کے حوالے سے امرتسری تھے لیکن اُن کا غصہ ہمیشہ وقتی یا پھر لمحاتی ہوتا تھا میں نے اپنی زندگی میں انہیں کسی کے ساتھ بہت لمبے عرصے تک ناراض رہتے نہیں دیکھا۔وہ مجھے میری پیدائش سے پہلے میرے ننھیال کے واقعات مزے لے لے کرسناتے، اُنہوں نے عمر بھر میری نانی اور نانا ابو کو ماں جی اور والد صاحب کہہ کر مخاطب کیا۔
میں اکثر سوچتا تھا کہ کسی ایک شخص کی شخصیت کے اتنے رنگ کیسے ہو سکتے ہیں؟ مجھے سب سے پہلے جس چیز نے خورشید ماموں کے نزدیک کیا وہ اُن کی خوش خطی تھی، یہ اُس زمانے کی بات ہے جب میں آصفہ نیو ماڈل گرلز ہائی سکول میں پرائمری کا طالبعلم تھا اور جس دن والد ہ مجھے سکول سے لینے نہیں آتی تھیں اُس دن میرے چھوٹے ماموں خضر بٹ صاحب لینے آ جاتے اور خورشید ماموں ہمیشہ اُن کے ساتھ ہوتے تھے۔ سید مٹھا بازار میرے سکول اور خورشید ماموں کی محبت کی وجہ سے بچپن میں میری سب سے پسندیدہ جگہ تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب کبھی کوئی میرے بارے میں دریافت کرتا تووہ میرے سر پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے "میرا بیٹا ہے۔” یہ اُن کی شادی سے پہلے کی بات ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک مکمل کہکشاں تھے، ملکی وے سے بھی بہت بڑی! اُن کی محفل میں سیاسی مکالمہ، ادبی گفتگو، تاریخ، تہذیب، ثقافت، مذاہب، مسالک، فسیات، سائنس، فلسفہ, فنون لطیفہ، فلم، موسیقی، لطائف و ظرائف، آپ بیتی، جگ بیتی، غزل، نظم، رباعی، ابیات، نثری نظم، پابند نظم، ثلاثی، ہائیکو، کالم، انشائیہ جملہ اصناف سخن، اخبارات و جرائد، لاہور کی ذاتیں، برادریاں، نو دولتیے، شجرے، ٹرانس جینڈرز، بازار حسن کے واقعات، علمی اورادبی شخصیات کے ساتھ گزارہ وقت، گردو پیش میں رہنے والے مراثیوں کی عادات، کچہری سے لے کر سید مٹھا بازار تک ملنے والے تمام کرداروں کی و ہ ایکسرے مشین تھے۔ اس کے علاوہ دیگر موضوعات پر دلچسپ اور پر لطف پیرائے میں زود ہضم اور ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو کے منڈیر پر اُن کے چراغ ہمیشہ روشن رہتے تھے۔ ماموں خورشید کی موجودگی میں چند گھنٹو ں کے لیے ہر وہ جگہ جہاں وہ بیٹھتے اللہ اُسے "منی پاک ٹی ہاؤس” یا پھر "بے بی سائز ہائیڈ پارک” بنا دیتا تھا۔
جس دن میرا ایڈمیشن گورنمٹ کالج ہوا اُن کی آنکھوں کی چمک دیدنی تھی۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج جانے سے بہت پہلے ایک دن کچہری سے انارکلی بازار کی طرف جاتے ہوئے گورنمنٹ کالج کے کلاک ٹاور کو دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ ہے صرف ٹاور نہیں علم کا دیوتا ہے جو دنیا بھر میں علم پھیلانے کی ذمہ داری لئے یہاں کھڑا ہے لیکن بدقسمت لاہوریے یہاں بہت کم آتے ہیں۔ وہ مجھے گورنمنٹ کالج میں پڑھنے کی فضیلت اور بزرگیت پر اکثر لیکچر دیا کرتے تھے لیکن جس دن میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے پہلے ضیائی کورٹ اور پھر کالج کے زیرعتاب آیا تو وہ دنیا میں واحد انسان تھے جنہوں نے مجھے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ "کچھ رستوں کا تعین ہم خود کرتے ہیں اور کچھ رستے قدرت نے ہمارے لئے طے کررکھے ہوتے ہیں جنہیں قدرت منتخب کرلے وہ زیادہ خوش قسمت ہوتے ہیں۔” میں آج جانتا ہوں کہ وہ ایک شفیق باب کی طرح مجھے تسلی دے رہے تھے کہ میں تعلیم کا سلسلہ وہیں سے شروع کروں جہاں سے یہ منقطع ہوا تھا۔ میں آج اپنی تحریر میں انہیں خورشید صاحب یا مامو ں خورشید لکھ رہا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے ہمیشہ انہیں والد صاحب کہہ کر مخاطب کیا ٗ اور میں ہی کیا لاہور میں بہت لوگ انہیں والد صاحب، پاء جی، خورشید بھائی جان ہی کہتے تھے لیکن میں اِس حوالے سے خوش قسمت تھا کہ اُنہوں نے میری "پسریت” کو ہمیشہ کھلے دل سے نہ صرف قبول کیا بلکہ اپنے ہر ملنے والے سے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ میں نے زندگی میں کسی شخص کو اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کیلئے اتنی جدوجہد کرتے نہیں دیکھا اورمیں اُن کے تمام بچوں سے تعزیت کرتے ہوئے صرف یہ لکھوں گا کہ "آپ انتہائی خوش قسمت ہیں کہ آپ خورشید صاحب جیسے صاحبِ علم اور خودار انسان کی اولاد ہیں جنہوں نے اِس سماج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی اُن کی دیانتداری انہیں کہیں بھی، کسی سے مرعوب نہیں ہونے دیتی تھی۔ وہ لاہوراور لاہوریوں کا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ اُن کا انتقال ایک فرد نہیں ایک مکمل تہذیب کا، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا ہے۔ میرے والد صاحب 2002ء میں دنیا سے رخصت ہوئے تو مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ یتیمی کسی عمر میں بھی ہو بُری ہوتی ہے لیکن زندگی میں دو بار یتیم ہونا ناقابلِ برداشت صدمہ ہے۔ ماموں! آ پ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے، کھلتے پھولوں اوربرستی بارشوں میں، باد صبا اور بادصرصر میں کہ ہم نے یہ تمام موسم آ پ کے ساتھ دیکھے ہیں خدا مغفرت فرمائے۔ آپ لاہور اُداس کر گئے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.