میرے پاکستان کے 76 سال اور افواج پاکستان

81

گزشتہ دنوں ہم ٹوٹے، بوجھل اور اداس دل کے ساتھ پاکستان کی 76ویں سالگرہ مناچکے ہیں اور اس حیثیت سے بھی انکار نہیں کہ رہتی دنیا تک پاکستان کا وجود رہے گا۔ اس دن تک ہرسال 14اگست کو کبھی یوم آزادی، کبھی حکومتوں کے دیئے نام کے ساتھ آزادی مناتے رہیں گے۔
الحمد للہ آج پاکستان کو اپنے وجود میں آئے 76برس ہو گئے……اور صدی کی طرف جاری اس سفر میں یہ 76برس کیسے گزرے، کیسے پاکستان کو بجائے ترقی اور فروغ کے راستوں اور بجائے خوشحال اور ایک قوم بناتے ہمارے لیڈران کرام نے سیاست کو عبادت کے بجائے اقتدار کی رسہ کشی پر توجہ دی اور اسی اقتدار کے نشے میں ہم نے ان 76سالوں میں مشرقی پاکستان کو بھی کھودیا اور ہم نے قائد اعظم اور ان کے رفقاء کی عظیم جدوجہد کو خاک میں ملادیا۔ ہم نے ایسے لیڈرپروان چڑھائے جو اس دھرتی کے ساتھ مخلص نہیں تھے یا وہ دھرتی کے لیڈر ہی نہیں تھے۔ مفاد پرست سیاسی ٹولوں نے قائد اعظم کے پاکستان کو ہر طرف سے ادھیڑکے رکھ دیا اور آج جس پاکستان میں ہم رہ رہے ہیں یہ قائداعظم کا پاکستان نہیں ہے۔ یہ ان کے خوابوں کی تعبیر نہیں یہ لاکھوں انسانی جانوں کو دے کر ملنے والی آزادی والا پاکستان نہیں ……
اگر میں 1947ء سے 2023ء تک کی تاریخ کے صرف چیدہ چیدہ سیاہ باب کی تاریخ وواقعات کو دہراؤں تو پھر ہم عظیم قائد کے سامنے شرمندہ ہیں کہ قائد نے جو پاکستان جن مقاصد اور اصولوں کے تحت ہمارے حوالے کیا تھا وہ اصول تو ہم نے مستی، اقتدار میں بھلادیئے۔ ہم نے جہاں آزادی کے تقدس کو تباہ وبرباد کیا، وہاں آزادی کی بھی پاسداری کرنے میں ناکام رہے۔ آج اس سے زیادہ کون سی بے حسی اور بدقسمتی ہو سکتی ہے کہ قوم اپنے محسن پاکستان کو بھی بھول گئی۔ وہ محسن ایک ناقابل تسخیر اور تاریخ ساز شخصیت تھی۔ انہوں نے انتھک محنت، لگن، جذبہ آزادی، جدوجہد مسلسل کے ساتھ غیر متزلزل استقامت، اعلیٰ ترین صلاحیتوں اور سچائی کے ذریعے دنیا کے نقشے پر بڑی مسلم اسٹیٹ اور دنیا کی پانچویں بڑی مملکت خداداد پاکستان قائم کردی جس کی مثال اس دھرتی پر شاید ہی مل سکے۔ اگرچہ ہم نے اپنی بے شمار غلطیوں، کوتاہیوں، عاقبت نا اندیشوں اور بے انصافیوں، اناؤں، ضدوں سے مشرقی پاکستان کو الگ تو کروادیا، پھر ان اداروں کو بھی داؤ پر لگابیٹھے جنہوں نے پاکستان کو سنوارنا تھا اگر صرف گزشتہ گزرے 5سال کے بکھرے پاکستان کا جائزہ لوں تو ہم نے زندگی سے جڑی وہ تباہیاں سمیٹ لی ہیں اور عمران خان جیسے نااہل لیڈر  نے جس طرح معاشرے میں بدزبانی، معاشرے میں خاندانوں کی تقسیم معاشی بدحالی، ملک کو جس بدترین معاشی بحران میں پھنسایا اور پاکستان کی سالمیت کو خطرے میں ڈالا، اداروں کو آپس میں لڑانے کی حکمت عملی پر سازش کے اوپر سازش کی، آج صرف عمران خان کی وجہ سے پاکستان جہاں معاشی خطرات میں گھرا ہوا ہے وہاں اس کی سالمیت کو بھی شدید خطرات کا سامنا ہے۔ پاکستان اپنے 76ویں سال میں ایک ایسے طوفانی بھنور میں پھنس چکا ہے جس کو نکالنے کے لیے اب افواج پاکستان سے امید کی جارہی ہے اور توقع تو یہ بھی کی جارہی ہے کہ ہماری افواج آج بھوک، ننگ، بدحالی کاشکار پاکستان کا لمحہ لمحہ اکھڑی سانسوں کے ساتھ سانس لے رہا ہے اس کو بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی گو اس حال تک پہنچانے والے آج بھی قائداعظم کے پاکستان کے مستقبل کی نہیں بلکہ ذاتی اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ 1948ء میں قائداعظم کی وفات کے بعدہی سے ہماری تباہیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی طرف سے بار بار دہرائی جانے والی غلطیوں سے ہرا بھرا پاکستان موسم خزاں کا نقشہ پیش کرتا رہا۔ محلاتی سازشوں نے نہ ادھر نہ ادھر کا رہنے دیا، نہ کوئی لیڈربنا نہ بننے دیا گیا۔ اور تو اور ہم نے اسی کرسی کے لیے مشرقی پاکستان گنوا دیا۔ یہ وہ المیہ ہے جو مدتوں نسل درنسل زھر قاتل کی طرح ہمارے جسموں میں ڈال دیا گیا۔ اس المیہ کے باوجود ہم  نے ہوش کے ناخن نہیں لیے۔ آج 76ویں برس میں قدم رکھتے ہوئے ہم افواج پاکستان اور نگران حکومت سے بہت سی توقع لگائے ہوئے ہیں کہ سرسبز پاکستان کا جو سلوگن دیا گیا ہے وہ کہیں کسی سازش کا شکار تو نہیں ہو جائے گا اور ہم قوم کو سدھارنے کے ساتھ اس کی منزل تک لے جانے میں کامیاب ہو جائیں گے اس لیے کہ ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں کہ جیسے ہی کوئی معاشی، معاشرتی بہتری کے لیے کوئی منصوبہ آیا تو ملکی اور غیر ملکی سازشوں نے اس کو ناکام بنادیا۔ وہ سیاستدان، وہ حکمران، وہ ڈکٹیٹرز جن کو وطن کے بجائے صرف اقتدار چاہیے تھا جنہوں نے انصاف کے بجائے اقرباپروری کو پروان چڑھایا، جنہوں نے دیانتداری کی اقدار کو برے طریقہ سے پامال کیا، جنہوں نے پاکستان کو اپنا مال غنیمت سمجھ جکر دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور آزادی کے تقدس کو ہوا میں اڑا دیا۔ قوم تو بے بس تھی یہی باتیں خطرے کی علامت بن کر ہم پر سوار ہیں میرا سوال یہ ہے کہ اس عظیم قوم کو ایک مجبور ہجوم کس نے بنایا؟ اس عظیم قوم کو کس نے بھیک اور بھوک کے راستے دکھائے؟ اس زندہ قوم کو مایوس قوم کی طرف لے جانے میں کس کس کا کیا کردارتھا؟ …… یہی وہ المیہ ہے کہ ہم نے اپنی 76سالہ تاریخ میں وہ سب کچھ کھودیا، وہ ساکھ، وہ عزت، وہ وقار اور وہ رتبہ ومقام ہم سے چھین لیا گیا جو بڑی قوموں کا شایان شان ہوتا ہے۔ گزرے 76سال کا حساب کون دے گا، اس بے چاری قوم نے اپنا ووٹ ان حکمرانوں کو اس لیے دیا تھا کہ وہ قائد اعظم کے پاکستان کو ان کے دیئے ویژن کو ان کے تصور کو ان کی سوچ کو ان کی فکر کو ان کی اصول پرستی کو ان کی رہنمائی اور ان کی اقدار کے سائے تلے پاکستان پوری دنیا میں ایک بڑا نام اور اہم کردار ادا کریں گے مگر شو مئی قسمت کہ نہ ہو سکا، شاید ہم نااہل تھے۔ اس قابل ہی نہیں تھے۔
آزادی کے 76سال……اے قائد ہم شرمندہ ہیں! مگر مایوس نہیں ہیں ان شاء اللہ پاک فوج کے عزم اور پاکستان کی معاشی بہتری کے لیے آنے والے دنوں میں سی پیک اور سرسبز پاکستان کے منصوبے یقیناً ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا اور مستقبل قریب میں ایک سنہرے خواب کی تعبیر ثابت ہوں گے۔

تبصرے بند ہیں.