گزشتہ دو تین ماہ سے لاہور چیمبر کی سیاست نے جس طرح رنگ بدلا اور جس طرح ایک دوسرے کی عزتوں کو پامال کیا گیا اور تاجر کلچر سیاست کو جس طرح روندا گیا ان تمام باتوں کے پیچھے پیاف کی تقسیم جس طرح پیاف کے بڑوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے علی حصام نے اپنا ایک بڑا گروپ بنا لیا جو کہ اب حقیقت کا روپ دھارچکا ہے اور فاؤنڈرز کی اپنی بنائی پالیسیز جو مفاداتی سیاست کے گردگھومتی دکھائی دیتی ہیں اور یہ سیاست آنے والے دنوں میں دونوں گروپس کے مفادات کو نقصان پہنچائے گی۔ سیاست کا زیادہ محور موجودہ باڈی کے انتخابات اور عہدیداران کی مدت کو ایک سال کرانے کی طرف ہے۔ لیکن 2022ء کا قانون یہ کہتا ہے جس کے رولز کی تشریح گزشتہ دنوں آئی ہے کے مطابق عہدیداران کی مدت دو سال ہے۔ اس لئے اب تمام چیمبرز بشمول لاہور چیمبر کے صدر، سینئر نائب صدر اور نائب صدر اپنی مدت پوری کریں گے اور 2024ء میں تمام باڈیز کے انتخابات ایک ہی بار ہوں گے اور قانون کا راستہ دیکھیں گے۔
سابق وزیر نوید قمر کی جانب سے پیش کی جانے والی امینڈمنٹ پر صدر پاکستان نے دستخط نہیں کئے اور یوں یہ معاملہ آنے والے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔اب ایسے میں سیاست کرنا فقط لوگوں کے وقت کا ضیاء ہے۔ جبکہ قوائد و ضوابط اور چیمبر کے آئین کے تحت چیمبر کی تاریخ میں سوائے صدراور جنرل سیکرٹری کے کوئی بھی ایک لفظ تبدیل نہیں کر سکتا۔ یہاں یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ تمام قوانین سامنے آنے کے باوجودفاؤنڈرز اور پیاف کے عہدیداران اپنی سیاست چمکانے کے لئے ایک دوسرے کے مخالف محاز قائم کئے ہوئے ہیں اور دونوں آ بیل مجھے مار کی سیاست کھیل رہے ہیں۔
اگر لاہور چیمبر کی تاریخ کو دیکھا جائے تو شاید یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ لاہور چیمبر کے قائم مقام صدر نے اْس وقت انتخابات کا اعلان کر دیا جب 2022 کے رولز کے تحت الیکشن نہیں ہو سکتے اور دوسری جانب معاملہ عدالت میں ہے۔اس صورتحال میں الیکشن کروانے تو دور الیکشن کی تاریخ بھی نہیں دی جا سکتی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ قائم مقام صدر لاہور چیمبر نے گزشتہ دنوں لاہور چیمبر کے ممبران کو ٹریڈ آرگنائزیشن (امینڈمنٹ) ایکٹ 2022 کی تشریح پیش کر دی۔ اپنی تمہید میں انہوں نے مزید کہا کہ ڈی جی ٹی او کے الیکشن کے متعلق لیٹر جاری ہونے کہ بعد لاہور چیمبر کی ایگزیکٹیو کمیٹی کی ایمرجنٹ میٹنگ بُلائی گئی جسے بعد ازاں اس لئے منسوخ کر دیا گیا کہ ڈی جی ٹی او کے اُس آرڈر پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم امتنائی جاری کر دیا تھا۔ پھر اس کے ساتھ ہی دوبارہ ای سی کی میٹنگ بلائی گئی جو بے مقصد گئی کہ جس میں انہوں نے ای سی کی خالی نشستوں پر الیکشن کا شیڈول جا ری کر دیا۔ جبکہ عدالتی فیصلے کے اپنی جگہ ہونے کے باوجود دوبارہ ای سی میٹنگ بلانا غلط تھا۔ یہ تمام تر واقعات نہ صرف توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں بلکہ چلتے معاملات کو مزید الجھا رہے ہیں۔ہمارا موقف ہے کہ سیاست ضرور کی جائے لیکن پیاف فاؤنڈرز کے بڑے معاملات کو بجائے بگاڑنے کے ان کو سلجھانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ دوسری جانب جو افراد اس وقت لاہور چیمبر کا صدر بننے کی خواہش رکھتے ہیں انہیں بھی قانون کو سمجھنا ہو گا۔ کسی کے کہنے پر یا پھر کسی کی گارنٹی پر وہ اس سال تو صدر نہیں بنیں گے بلکہ قانون کو سمجھتے ہوئے اور لوگوں کو ساتھ ملا کر ہی بن سکیں گے۔ جو افراد انہیں صدر بنوانے نکلے ہیں وہ کہیں ان سے کوئی غیر قانونی حرکت نہ کروا دیں۔ جس کا اندیشہ موجود ہے اور جس کے خدشات زیادہ ہیں ہمارے نزدیک ساری بات انسان کی ساکھ کی ہوتی ہے، قائم مقام صدر اب اگر اپنے اعلان کے مطابق الیکشن نہ کروا سکے تو انکی ساکھ کو بے حد نقصان ہو گا۔ اور آخر ی گزارش یہ ہے کہ پیاف فاؤنڈرز اور دیگر گروپس اپنے اندر کی لڑائیوں کو ختم کرتے ہوئے قانون کی بالا دستی کو تسلیم کریں اور اس کو اپنی مرضی سے نہ چلائیں ورنہ قانون خود انتقام لے گا اور وہ افراد جو ان کو یہ کام کرنے پر مجبور کرتے رہے ہیں پیچھے سے غائب ہو جائیں گے۔ اب یہاں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اگر اس سال الیکشن نہ ہوا جو کہ واضح ہو چکا ہے کہ نہیں ہونے تووہ افراد جنہوں نے کئی افراد کو آئندہ کے لئے ای سی اور صدر بنوانے کا خواب دکھایا ہے اور اسی چکر میں وہ قائم مقام صدر پر دباؤ ڈالے ہوئے ہیں کہ الیکشن اناونس کر دو، خواہ عدالت، قانون، یا آئین اس کی اجازت دیتا ہو یا نہ دیتا ہو انکا کیا ہو گا۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.