غیر یقینی کی صنعت پر ضرب کاری کا وقت آ گیا

143

ملکی حالات پر پریشان عوام ابھی تک سمجھ نہیں پا رہے کہ آگے کیا ہو گا؟ اس وقت یہی دشمن کا ہتھیار اور ہماری کمزوری ہے، پاکستان میں غیر یقینی کی صورتحال کو برقرار رکھنا اور بڑھاوا دینا سب سے بڑی صنعت بن چکی ہے جس میں باقاعدہ سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اس خطرناک کھیل میں مخصوص مفادات رکھنے والی مختلف لابیاں ملوث ہیں۔ یقینی طور پر اس قسم کا منفی تاثر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی دیا جا رہا ہے لیکن نوٹ کی جانے والی اصل بات یہ ہے کہ آخر ان سب کے پیچھے کون ہے؟ تھوڑی سی تحقیق کی جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بعض اندورنی اور بیرونی حلقے پاکستان میں استحکام نہیں چاہتے، وہ چاہتے کہ حالات خراب ہونے کا تاثر زیادہ سے زیادہ پھیلا کر وہ اپنا ایجنڈا پورا کرتے رہیں کیونکہ اگر حالات نارمل ہوتے نظر آئے تو نہ صرف لوگوں میں بے چینی کم ہو گی بلکہ ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ مجھے یاد ہے کہ کئی سال پہلے میرے ایک عزیز امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آئے اور واپڈا میں بڑے عہدے پر فائز ہو گئے، ان دنوں بھی واپڈا میں بہت شور تھا کہ بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ 1997-98 کے دوران اس وقت کی سول حکومت نے اس مقصد کیلئے فوجی اہلکاروں کی خدمات بھی حاصل کی تھیں۔ چند روز تک خبریں آتی رہیں کہ حکومتی جماعت سمیت کچھ بڑی سیاسی شخصیات کے خلاف بجلی چوری پکڑے جانے پر کارروائیاں کی جا رہی ہیں، ملک کے مختلف حصوں میں بجلی چوری کرنے والے عام صارفین کے گھروں، دفاتر اور کاروباری مراکز پر چھاپوں کی اطلاعات بھی آتی رہیں لیکن حکومت خود چلی گئی اور بجلی چوری نہ رک سکی۔ ایک روز اپنے عزیز واپڈا کے اسی افسر سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا کہ آپ خود بہت پروفیشنل ہونے کے ساتھ ساتھ ایماندار اور دلیر بھی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ادارے میں بد عنوانیوں میں کمی آ رہی ہے اور نہ بجلی چوری رک رہی ہے، اس افسر نے دو ٹوک لہجے میں کہا کہ بات صرف اتنی ہے کہ ادارے کے اندر کے لوگ ہی نہیں چاہتے کہ شفافیت آئے اور سسٹم منظم انداز میں آگے بڑھے کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ ایسا ہو گیا تو نہ صرف کرپشن کے راستے بند ہو جائیں گے بلکہ سب کی پیشہ ورانہ اہلیت بھی کھل کر سامنے آ جائے گی۔ انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ رجحان پچھلے کئی سال سے ملک کے حوالے سے بھی زور پکڑتا جا رہا ہے، ایک عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کی بھی یہی پالیسی رہی ہے کہ معاملات کو جان بوجھ کر الجھایا جائے تاکہ لوگوں کی توجہ اصل مسائل کی طرف مرکوز ہی نہ ہو سکے، معاشرے کے دوسرے طاقتور طبقات نے بھی اسی کی پیروی کرنا شروع کر دی ہے، پورا ملک ایک عرصے سے کاروباری مفادات کو ہر چیز پر مقدم رکھنے والے کارٹلز کے شکنجے میں ہے۔ اپنے سرمائے کی بنیاد پر حکومتیں گرانے اور بنانے میں کلیدی اہمیت اختیار کر جانے والے ان کارٹلز کو قابو کرنا بھی اس لیے مشکل ہو گیا ہے کہ یہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی مرحلے پر غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ یہ بات تو سب کے سامنے ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے کے بعد غیر یقینی کی فضا پیدا کرنے اور بڑھاوا دینے میں اسٹیبلشمنٹ کے ہی کچھ حلقوں کا ہاتھ تھا۔ اس دوران چیف جسٹس بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ہم خیال ججوں نے جو کچھ کیا وہ صرف حکومت کے لیے نہیں بلکہ ریاست کے لیے شدید اضطراب کا سبب بنا۔ ویسے تو سندھ ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کے معاملات بھی زیادہ بہتر نہیں رہے مگر لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹس کے بعض ججوں نے تو حد ہی کر دی، عدلیہ کی جانب سے اس قسم کے اقدامات 9 مئی کے بعد بھی جاری رہے، اسی عرصے کے دوران بعض بڑی کاروباری شخصیات نے اپنا لچ تلتے ہوئے پی ٹی آئی کی معافی تلافی کے لیے عملی کوششیں کیں۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ان کاروباری گروپوں کو مکمل طور پر فری ہینڈ دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ کورونا کی وبا کے دوران آنے والی تین ارب ڈالر کی امداد بھی بلاسود قرضوں کی شکل میں تقسیم کر دی گئی، مزید ظلم یہ کہ قرضے واپس بھی نہیں کیے جا رہے، اس سے بھی بڑی زیادتی یہ کہ قومی اسمبلی اپنی مدت ختم کر کے تحلیل ہو گئی مگر نور عالم خان جیسے دبنگ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور کئی دوسرے ارکان کے مطالبے اور اصرار کے باوجود امداد کی رقم سے قرضہ کے لیے ہضم کر جانے والوں کی فہرست خود حکومتی اداروں نے فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے، بہر حال ان سیٹھوں نے ایک بار پھر سے ایسے ہی لوشے لینے کے لیے ایک حد سے زیادہ کوششیں کیں تو اسٹیبلشمنٹ نے سخت قسم کی شٹ اپ کال دے کر مکو ٹھپ دیا۔ اس دوران جوڈیشل ایکٹوازم کے نام پر ہم خیال ججوں نے حکومت کو گرانے کے لیے جو کوششیں کیں وہ ناکامی سے دوچار ہو گئیں۔ قومی اسمبلی کی موجودگی تک یہ طے کر لیا گیا تھا کہ خصوصاً ہم خیال جج جو پہلے آئین ری رائٹ کر کے ایک بہت بڑے تنازع کا حصہ بن چکے ہیں اپنی کارروائیوں سے باز نہ آئے تو چیف جسٹس سمیت ان سب کو پارلیمنٹ کی کمیٹی میں طلب کیا جائے گا۔ یہ وارننگ کارگر ثابت ہوئی اور ہم خیال جج ٹھنڈے ہو کر بیٹھے گئے لیکن وہ مناسب موقع کی تاک میں تھے جیسے ہی قومی اسمبلی تحلیل ہوئی ”مشہور زمانہ“ تین رکنی بنچ  نے فوراً عدالت لگا کر پارلیمنٹ سے منظور ہونے والا ریویو اینڈ ججمنٹس ایکٹ اڑا دیا، اس سے پہلے چیف جسٹس بندیال کے حوالے سے ایسی اطلاعات سامنے آ چکی تھیں کہ وہ جاتے جاتے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو ”سرپرائز“ دیں گے۔ نگران حکومت آتے ہی مخصوص ججوں سمیت وہ تمام حلقے پھر سے سرگرم ہو گئے ہیں جن پر پی ڈی ایم اور اتحادی حکومت کے دور میں بڑی حد تک پا لیا گیا تھا، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے غلط خبریں پھیلا کر معاشرے میں انتشار پیدا کرنے کی کوششیں پھر سے تیز کر دی گئی ہیں، اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ان عناصر کے نہ صرف بیرونی بلکہ اندرونی سہولت کار اب بھی متحرک ہیں لیکن یہ بھی طے ہے کہ نگران سیٹ ماضی کی طرح کا روائتی اور چپ چاپ ایک طرف بیٹھ پر دہی کھانے والا نہیں ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کی اتحادی حکومت میں ہر پارٹی کے اپنے اپنے عزائم اور ترجیحات تھیں یقینا مصلحتیں اور خدشات بھی ہوں گے، اسی لیے ہم خیال ججوں سے لے کر پی ٹی آئی کی قیادت تک ہر کسی کے بارے میں ایک حد سے زیادہ آگے جانے سے گریز کی پالیسی اختیار کی گئی جو بظاہر کارآمد بھی ثابت ہوئی لیکن نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی حکومت کی ایسی کوئی مجبوری نہیں۔ سانحہ 9 مئی، اس سے پہلے اور بعد میں پیش آنے والے واقعات کے ذمہ داروں کو قابو کر کے انجام تک پہنچانا نگران حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہو گا۔ ملک میں عدم استحکام اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرنے والوں کو اگر اندازہ نہیں تو بہت جلد لگ پتہ جائے گا۔ یہ ”آپریشن“ کرنا لازم ہو چکا ورنہ کوئی بھی حکومت چل نہیں پائے گی۔ قوی امکان یہی ہے کہ نگران حکومت کے ارکان کا چناؤ کرنے سے پہلے ہی اس حوالے سے ٹھوس حکمت عملی اور مکمل منصوبہ بندی کر لی گئی ہو گی۔ عدم استحکام اور غیر یقینی پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے تمام عناصر خواہ کسی بھی ادارے یا شعبے میں بیٹھے ہوں ان کے داؤ پیچوں کو بجھتی ہوئی شمع کی آخری پھڑ پھڑاہٹ تصور کیا جانا چاہئے۔

تبصرے بند ہیں.