تیرہ جماعتی اتحادی حکومت ختم ہو گئی اگست 2018 میں قائم کی جانے والی اسمبلی بحکم تحلیل کر دی گئی۔ اپنی عمومی مدت اختتام سے چند روز قبل اسے تحلیل کر دیا گیا۔ گو آئین میں اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کرنے کا آپشن درج ہے لیکن ایسا صرف خواہش پر نہیں کیا جا سکتا ایسا کرنے کے لئے کسی دلیل کسی عامل کسی وجہ کا ہونا بھی ضروری ہے صرف کیئر ٹیکر حکومت کی مدت کو 60 دنوں سے بڑھا کر 90 دن تک کرنے کے لئے ایسا کیا گیا ہے جو بظاہر آئین کی روح کے مطابق ہرگز نہیں لگتا لیکن ہمارے حکمرانوں نے ایسا کر دکھایا ہے اسمبلی آئین میں دیا گیا آپشن استعمال کر کے قبل از وقت، چند دن قبل توڑی گئی ہے لیکن ایسا کر کے آئین کی روح متاثر کی گئی ہے۔
ویسے تو ہماری تاریخ غیر آئینی حرکات سے بھری پڑی ہے 1958 میں ایوبی مارشل لا سے پہلے بھی غیر آئینی اور غیر روایتی اور غیر پارلیمانی اقدامات اٹھائے جا رہے تھے حکومتیں بدلنے کا رواج عام ہو چکا تھا۔ ممبران اپنی وفاداریاں بدلتے نظر آتے تھے۔ سیاسی عدم استحکام عروج پر تھا جسے دیکھتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نے پھبتی کسی کہ میں نے اتنی دھوتیاں نہیں بدلی جتنی پاکستان میں حکومتیں بدلی ہیں، پھر ہم انتخابات میں دھاندلی کے نئے تصور ”جھرلو“ سے بھی متعارف ہوئے یہ اصطلاح بھی ہمارے انتخابی سیاسی نظام کی عکاسی کرتی ہے موجودہ دور میں ہم آئین کی قانونی طور پر پامالی سے بھی روشناس ہو چکے ہیں۔
اسمبلیوں کی قبل از وقت تحلیل آئین میں درج ضرور ہے اور ایسا کرنے کا اختیار وزیر اعظم/ وزیراعلیٰ کے پاس موجود بھی ہے لیکن ایک نظام میں، جمہوری نظام میں، پارلیمانی جمہوری نظام میں یہ اختیار بادشاہ سلامت کی طرح بے چون و چرا، بے لاگ انداز میں استعمال نہیں کیا جا سکتا ایسا نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے کہ اچانک رات سو کر اٹھنے کے بعد وزیر اعظم/ وزیراعلیٰ کے دماغ میں یہ خیال آئے کہ اسمبلی توڑ کر نہ دیکھ لیں کس طرح بحران پیدا ہوتا ہے اور پھر حکومت مجبور ہو جاتی ہے کہ الیکشن کرائے۔ عملاً ایسا ہوا 9/10 اپریل 2022 عمران خان کی حکومت اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے باعث گرا دی گئی۔ خان صاحب اصلی خان بن گئے سیاست کے بجائے انتقام پر اتر آئے۔ پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم نادر شاہی فرما دیا۔ کے پی کے کی حکومت نے تو طفل مکتب کے طور پر ایسا کر دیا جبکہ پنجاب میں ان کے اتحادی چودھری پرویز الٰہی نے خان صاحب کو سیاست دان بننے کا مشورہ دیا، انہیں ایسا کرنے سے روکنے کی
کوشش کی لیکن خان کے مؤکلات انہیں ایسا کرنے کی راہ دکھا چکے تھے اس لئے نادر شاہی خواہش کو حقیقت کا روپ دے دیا گیا۔ ایسا کرنا آئینی آپشن ضرور تھا لیکن اس کی روح کے بر عکس 90 روز میں انتخابات کرانے کے لئے نگران حکومتیں قائم کی گئیں جو کئی 90 دن گزار چکی ہیں وہ ہر ایسا کام کر رہی ہیں جو ان کے طے شدہ فرائض منصبی میں شامل نہیں ہے اور جس مقصد کے لئے انہیں قائم کیا گیا ہے اس کے لئے وہ تنکا بھی دوہرا نہیں کر رہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی حکم جاری کیا تھا۔ تاریخ بھی مقرر کی تھی کہ انتخابات منعقد کرائے جائیں لیکن ابھی تک اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ گویا دو صوبوں میں قانون شکن حکومتیں قائم ہیں، دھڑلے سے قائم ہیں، آئینی مدت گزار چکی ہیں، سپریم کورٹ کی دی گئی تاریخ بھی گزر چکی ہے۔ اب تو اسمبلیوں کی عمومی مدت بھی پوری ہونے کو ہے لیکن وہ ابھی تک انتخابات کرانے کی تیاری کرتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہیں۔
مرکز میں بھی اسمبلی توڑی جا چکی ہے آئینی آپشن کے مطابق لیکن اس کی روح کے برعکس، چند دن قبل اسمبلی توڑ کر کیئر ٹیکر حکومت کی مدت حکمرانی 60 دنوں سے بڑھا کر 90 دن کرنے کے لئے ایسا اقدام اٹھا کر شہباز شریف اتحادی حکومت نے کیا پیغام دیا ہے؟ پھر عبوری وزیراعظم کے اعلان میں تاخیر کیوں کی جا رہی ہے عبوری حکومت کا قیام شہباز شریف حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری اچانک پیدا نہیں ہو گئی بلکہ یہ قبل از وقت طے شدہ طریقے سے معلوم ہے لیکن ہمارے حکمران آئینی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے بجائے اس سے روگردانی کی راہیں تلاش کرتے ہیں اور ایسا بڑی خوبصورتی اور چابکدستی سے کرتے ہیں۔ ہمارے نظام پر ایک مدت سے مایوسی اور ناکامی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ عامتہ الناس نظام سے حکمرانوں سے مکمل طور پر نا امید ہو چکے ہیں۔ شہباز شریف کی کارکردگیاں اسحاق ڈار کی معاشی حکمت عملیاں اور آصف علی زرداری کی سیاسی جادوگریاں، سب کچھ خاک میں مل چکا ہے۔ اتحادی حکومت کے 16 مہینوں کے دوران حکمرانوں کا بھید بھرم ننگا ہو گیا ہے ان کی عوام دشمنیاں کھل کھلا کر سامنے آچکی ہیں۔
گزرے 16 ماہ کے دوران حکمران اتحاد نے قومی سیاست اور عوامی معیشت کے ساتھ جو کچھ کر دیا ہے وہ تاریخ میں بھی یاد رہے گا اور سیاست پر بھی اس کے گہرے سائے پڑے رہیں گے۔ قدر زر میں گراوٹ، قرض خواہ آئی ایم ایف کے احکامات کے مطابق بجلی، گیس اور پٹرول وڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافے کے عامتہ الناس کا بھرکس نکال دیا ہے۔ ریونیو جمع کرنے کی پالیسی کے باعث ہر سطح پر حکومتی ادارے ٹریفک، ایکسائز وغیرہ جس غیر انسانی انداز میں وصولیوں کے ریٹس بڑھا رہے ہیں الامان الحفیظ۔ ہیلمٹ نہ پہننے پر جرمانوں کے ذریعے وصولیوں کے ٹارگٹ دیئے جا رہے ہیں غلط پارکنگ پر 300 روپے لینے والی ٹریفک پولیس اب 2000 روپے جرمانہ وصول کر رہی ہے حکومت نے انہیں ماہانہ بنیادوں پر وصولیاں کرنے کے ٹارگٹ دے رکھے ہیں۔ آٹا، دال، گھی، سبزی کی قیمتیں ناقابل خیال حد تک بڑھ چکی ہیں اس پر بے یقینی کی کیفیت نے معاملات کو بالکل ہی برباد کر دیا ہے الیکشن 23 کے بارے میں غیر یقینی پائی جاتی ہے، معاشی حالات بہتر ہونے کے بارے میں بھی غیر یقینی پائی جاتی ہے حد یہ ہے کہ ہمارے ملک و قوم کا حال تو بے حال ہی ہے اس کے مستقبل کے بارے میں بھی مکمل بے یقینی، ناامیدی اور مایوسی پائی جاتی ہے۔ قابل اور کار آمد نوجوان دھڑا دھڑ املاک چھوڑ کر جا رہے ہیں سرمایہ پہلے ہی ملک چھوڑ چکا ہے۔ باقیماندہ کوڑا کچرا جو یہاں رہ گیا ہے وہ دھما چوکڑی مچا رہا ہے۔ اللہ خیر کرے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.