ساتویں مردم شماری 2023: 64 فیصد جوان نفوس

110

پاکستان کی آبادی 2017 میں 20 کروڑ 76 لاکھ 84 ہزار 626 سے بڑھ کر 2023 میں 24 کروڑ 14 لاکھ 99 ہزار 431 ہوگئی ہے۔ یہ اضافہ 2.55 فیصد سالانہ بنتا ہے آبادی میں اضافے کی یہ شرح بہت زیادہ ہے ہماری معاشی ترقی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے یہ شرح نا معقول اور وسائل پر بوجھ ہی نہیں بلکہ اس کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے بلوچستان کے علاوہ دیگر تمام صوبہ جات بشمول اسلام آباد میں شرح افزائش آبادی عمومی شرح آبادی کے قریب قریب ہے سوائے بلوچستان کے جہاں آبادی میں اضافے کی شرح 3.20 ریکارڈ کی گئی ہے جو بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں یہی صوبہ سب سے پسماندہ ہے حالانکہ رقبہ کے لحاظ سے صوبہ بلوچستان سب سے بڑا صوبہ ہے۔
حیران کن انکشاف یہ ہے کہ پاکستان کی مجموعی آبادی کا 64 فی صد 30 سال سے کم عمر کا ہے جبکہ ان میں 29 فی صد 15 سے 29 سال پر مشتمل ہے اس طرح پاکستان یوتھ پاپولیشن کے حوالے سے دنیا کا نمبر 1 اور 15 تا 29 کی عمر کے حوالے سے خطے میں دوسرا بڑا ملک ہے۔ پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کا بیان کردہ عامل بظاہر خوش کن اور مثبت شے ہے لیکن اگر اس عامل کے ساتھ، اتنی بڑی یوتھ کے ساتھ مناسب سلوک نہ کیا گیا تو جان لیں یہ خوش کن عامل ہماری قومی سلامتی کے لئے خطرناک ثابت ہو چکا ہے ہم اس خطرے کی ایک جھلک حال ہی میں 9 مئی کو دیکھ چکے ہیں ایک گمراہ کن تربیت اور ذہن سازی کے ذریعے ایک شخصیت نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر کے ملک کو بدامنی اور ناامیدی کی گہری کھائی میں گرا دیا ہے۔ یہی 64 فی صد یو تھ ہمارے لئے وبال جان بھی بن سکتی ہے۔ نوجوانوں میں پذیرائی اچھی بات، لیکن یہ اگر منفی مقاصد کی آبیاری کے ذریعے ہو تو نتائج ویسے ہی نکلتے ہیں جیسے ہم دیکھ چکے ہیں۔
ہم نے نیوکلیئر پروگرام شروع کیا اچھا قدم تھا لیکن اسے صرف ایٹم بموں اور نیوکلیئر میزائلوں کی تیاری تک محدود رکھا گیا اس کے ذریعے ہم نے اپنے توانائی کی کمی کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی۔ ہندوستان نے امریکہ سے نیوکلیئر سول ٹیکنالوجی حاصل کر کے اس سے ایک طرف عامتہ الناس کو سستی بجلی فراہم کرنے کا ذریعہ بنایا دوسری طرف اسے صنعت و حرفت میں بروئے کار لا کر پیداواری انقلاب برپا کیا آج بھارت کے خزانے میں 600 ارب ڈالر سے زائد زرمبادلہ جمع ہے ہم 6/7 ارب ڈالر کے ساتھ زندگی وموت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ بات ہو رہی تھی نوجوان آبادی کی۔ نوجوان کسی بھی ملک یا معا شرے میں انتہائی موثر اور فعال کردار کے حامل گردانے جاتے ہیں اس عمر میں ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی سوچ ہوتی ہے موثر فعال اور جوان آبادی کے لحاظ سے افغانستان خطے میں نمبر ون ملک ہے۔ ہم نے دیکھا ہے اس نے امریکہ جیسی سپر طاقت اور اس کے ترقی یافتہ حلیفوں کو شکست فاش دی اپنی آزادی کی حفاظت کی۔ ملا عمر نے انتہائی نوجوانی کے عالم میں تحریک طالبان شروع کی اور خانہ جنگی میں مبتلا ملک کو امن و چین سے مالا مال کر دکھایا۔ پھر امریکی اتحادیوں کو شکست فاش دے کر اپنے ملک کو آزاد کرایا اور اب 2/3 سال سے بغیر کسی غیر ملکی امداد کے ملک کو چلا بھی رہے ہیں۔ طالبان حکومت میں بابے کم ہی نظر آئیں گے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ایک بات ثابت ہوا چاہتی ہے کہ ایٹم بم ہمارے لئے بہت بڑی اور پائیدار نعمت ثابت نہیں ہوا ہے بلکہ نیوکلیئر پروگرام نے ہمیں اقوام مغرب کی نظروں میں ناقابل بھروسہ بنا دیا ہے امریکہ و اس کے حواری، جن کے ساتھ ہم دہائیوں سے جڑے بیٹھے ہیں، ہم پر ہر وقت دباؤ ڈالے رہتے ہیں کہ ہم اپنا یہ پروگرام رول بیک کریں ورنہ نتائج کے لئے تیار رہیں۔ ان اقوام کی کھلی اور چھپی پالیسیوں اور ہماری نالائقیوں کا نتیجہ ہے کہ ہم قومی سطح پر دیوالیہ ہونے کے کنارے پہنچے ہوئے ہیں جبکہ عام آدمی کی معیشت ایک مدت سے پہلے ہی دیوالیہ ہو چکی ہے۔ ہمیں آٹا، چینی، سبزی، دال کھانے کا تیل بھی میسر نہیں ہے حالا نکہ ہم زرعی معیشت والا ملک ہیں 60 فی صد سے زیادہ آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور زراعت سے وابستہ ہے ہمیں خالص دودھ بھی دستیاب نہیں ہے حالانکہ ہم دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ بجلی، گیس اور پٹرول کا تو کچھ کہئے ہی نہیں، ان کی سپلائی پر عوام دشمن اور پاکستان دشمن مافیا مسلط ہے۔ میرا روئے سخن پٹرول، بجلی و گیس سپلائرز/ ڈسٹی بیوٹرز نہیں بلکہ کمپنیوں کے مالکان، امپورٹرز اور فیصلہ ساز ہیں جو صرف اور صرف نفع اندوزی اور ذاتی مفادات کے تحت سوچتے اور کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ ضروریات ہمارے لئے سوہان جسم ہی نہیں بلکہ روح بھی بن چکی ہیں۔ آبادی کے حوالے سے چین کی پالیسی ”کھانے کے لئے 1 منہ اپنے ساتھ کام کرنے کے لئے دو ہاتھ بھی لاتا ہے“ ہمارے لئے ہی نہیں ہر ترقی کے خواہشمند ملک کے لئے مشعل راہ ہونا چاہئے ہم اپنی نوجوان نسل کو 64 فی صد نوجوان آبادی کو تعلیم و تربیت کے ذریعے، ہنر مندی کے فروغ کے ذریعے، انہیں با صلاحیت اور باروزگار بنا کر پاکستان کے لئے خیر وفلاح کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔ ہم نے ایسا نہ کیا، فوری طور پر نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں کہ یہی نوجوان چھینا جھپٹی میں مبتلا ہو کر ملک کو انارکی کا شکار بنا دیں۔ اس کی ایک جھلک ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.