قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تاریخ (9 اگست) کا اعلان کر دیا گیا ہے وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے اپنے ساتھیوں کو عشائیہ بھی دے دیا ہے اب ایسے لگ رہا ہے کہ اسمبلی اپنی مدت (12 اگست) پورا کرنے سے پہلے ہی تحلیل کر دی جائے گی اس طرح انتخابات کرانے کی لازمی مدت 60 دن کی بجائے 90 دن قرار پائے گی۔ کیا خوب دھاندلی کی ابتدا ہے آئین کے مطابق اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کر کے خود بخود تحلیل ہو تو الیکشن 60 دنوں کے اندر اندر منعقد کرانا ہوتے ہیں لیکن اگر اسمبلی توڑی جائے یا تحلیل کی جائے تو پھر انتخابات منعقد کرانے کے لئے 90 دنوں کی مہلت ہوتی ہے ہمارے ارباب حل و عقد میں 3 دن قبل اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کرکے 90 دنوں میں انتخابات کرانے کی مہلت حاصل کرنی ہے کیا یہ پری پول رگنگ نہیں ہے اسمبلی تحلیل کرنے یعنی توڑنے کے لئے جواز اور شرائط ہونے ضروری ہیں حالات کی ناگزیری بھی اسمبلی توڑنے کا جواز ہو سکتی ہے کیا حالات ناگزیر ہیں کہ اسمبلی 3 دن قبل توڑ کر آگے بڑھا جائے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے ایسا صرف اس لئے کیا جا رہا ہے تا کہ 60 کی بجائے 90 دن حاصل ہو جائیں۔ جس ”کارِخیر“ یعنی فریش مینڈیٹ کے حصول کی ابتدا ہی بددیانتی اور بدنیتی سے کی جائے گی اس کا نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا۔ ہمارے ملک کے حالات پہلے ہی مخدوش ہیں ہماری سیاسی و قومی وحدت پارہ پارہ ہے، ہماری قومی و شخصی معیشت تار تار ہے، اقوام عالم میں ہم با وقار قوم تسلیم نہیں کئے جاتے ہیں چین اگر ہمارے ساتھ کھڑا ہے تو اس میں ہمارا کمال نہیں ہے اس کے معاشی و سٹرٹیجک مفادات کیونکہ ہمارے ساتھ وابستہ ہیں اس لئے وہ ہمارا ساتھی بن کر کھڑا ہے قومی اتحاد کو ریزہ ریزہ کرنے میں قاسم کے ابو جی نے دیگر ریاستی فیصلہ سازوں کے ساتھ مل کر ”اپنا مشن“ شاندار انداز میں مکمل کر دیا ہے ابو جی نے اپنے مشن کی تکمیل کے حوالے سے سب سے محترم و مضبوط ادارے کی عزت بھی خاک میں ملا دی ہے۔ ریاستی و دفاعی تنصیبات پر حملہ کر کے ابو جی نے ثابت کر دیا ہے کہ یہاں ہر کسی کا گریبان پکڑا جا سکتا ہے فوج و دیگر ریاستی اداروں نے مل جل کر جو بت تراشا تھا، جو لیڈر بنایا تھا اس نے عوامی پذیرائی کو اپنے ہی محسن کی عزت خاک میں ملانے کے لئے استعمال
کیا۔ حد یہ ہے کہ ابو جی آج بھی بڑے طنطنے اور ڈھٹائی کے ساتھ کھڑے ہیں انہیں ابھی تک کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے گرفتاری ہوئی ہے اور نہ ہی نااہلی یا کوئی بھی سزا سنائی جا سکی ہے۔
قومی سیاست کے حوالے سے تاثر پایا جاتا ہے کہ 16 ماہی حکمرانی کے نتیجے میں اتحادی (12 رکنی پی ڈی ایم+ پیپلز پارٹی) حکومت عوامی پذیرائی (اگر کہیں پہلے تھی) کھو چکی ہے 16 مہینوں کے دوران سیاسی جادوگر، معاشی حکمت کار اور ایسے کئی دیگر کردار اپنا آپ دکھا کر عوام کو مایوس ہی نہیں کر چکے بلکہ ناامید اور نامراد بنا چکے ہیں۔ 16 ماہ کے دوران حکمران اتحاد کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا نعرہ بھی اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ حکمران اتحاد نے آئی ایم ایف کو خوش کر کے منانے اور ان سے قرض کی اگلی قسط حاصل کرنے کی کاوشوں میں عوام کی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ حکمران اتحاد نے اس پر ہی بس نہیں کیا اپنے آپ کو مراعات دینے میں بھی مثالیں قائم کر دکھائی ہیں۔ عوام جب نانِ جویں کو ترس رہے ہیں تو ایسے میں افسران کے لئے، وہ بھی چھوٹے معمولی قسم کے افسران کے لئے اربوں روپے کی گاڑیوں کی خریداری عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی کاوش ہی کہلا سکتی ہے آخری دنوں میں حکمران اتحاد نے جس انداز میں قانون سازی کرنے کی کوشش کی ہے تھوک کے حساب سے بل بغیر کسی طریق کار کی پابندی کے منظور کرائے ہیں اس سے بھی انتہائی منفی تاثر پیدا ہوا ہے درجنوں یونیورسٹیوں کے چارٹر رز کی منظوری کے حوالے سے کرپشن کی ہوشربا دا ستانیں بھی سننے میں آ رہی ہیں لیکن انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ خلقِ خدا پر کیا بیت رہی ہے اور وہ کیا کہہ رہی ہے۔
دوسری طرف عمران خان بوجوہ ثابت قدم نظر آرہے ہیں ان کی پارٹی توڑنے اور ریزہ ریزہ کرنے کی کاوشیں کی جا رہی ہیں لیکن عمران خان، جو اس سارے قضیے میں مرکزی ملزم کی حیثیت رکھتے ہیں، بالکل محفوظ و مامون ہیں انہیں ہاتھ نہیں لگایا جا رہا ہے۔ اسرائیلی مندوب کے بیان کے بعد عمران خان کی مبینہ طاقت و روابط پر مہر تصدیق ثبت ہو جاتی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کاوشیں کی جا رہی ہیں کہ عمران خان کو سیاسی منظر سے ہٹانا یا غائب کرنا قطعاً ممکن نہیں ہے عمران خان کی عوامی مقبولیت کے حوالے سے بھی تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کی واحد سیاسی شخصیت ہیں جنہیں عوامی پذیرائی حاصل ہے جبکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی وغیرہم سب اپنا سیاسی اثاثہ 16 ماہی دورِ حکمرانی میں ضائع کر چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران اور فیصلہ ساز قوتیں (سوائے اعلیٰ عدلیہ کے) عمران خان کی سیاست ہی نہیں بلکہ انہیں عملاً دریا برد کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے تاثرات کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک اور بڑا مستحکم تاثر پیدا ہو چکا ہے کہ الیکشن اپنی آئینی مدت میں ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے ہیں اس تاثر کو تقویت وزیراعظم کے اس بیان سے بھی ملتی ہے کہ ”الیکشن نئی مردم شماری کے مطابق ہونگے“ سردست نئی ووٹر لسٹیں، نئی حلقہ بندیاں ہونا باقی ہیں اگر وزیراعظم کی بات کو سچ مان لیں تو ”الیکشن مقررہ مدت مدت میں نہ ہونے“ کا تاثر حقیقت کا روپ دھارتا نظر آ رہا ہے۔ پھر دو صوبائی اسمبلیوں میں قائم عبوری حکومتوں کی آئینی و قانونی حیثیت پر بھی بڑا سوالیہ نشان ہے۔ دیکھتے ہیں تاریخ کے افق سے کیا ابھرنے والا ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.