معاشرے جب زوال کا شکار ہوتے ہیں تو ان کے تمام ستون ریت کی دیوار کی طرح آہستہ آہستہ بھُرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر بعض اوقات یک بعد دیگرے اور بعض اوقات اکٹھے تمام شعبے ہی دھڑام سے گرتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے پہلے جس شعبے کی تباہی زوال اور کریا کرم نظروں میں آیا وہ سیاسی تھا۔ فوج کی مسلسل مداخلت اور سیاستدانوں کی اقتدار پرستی نے ریاست کے اس ستون کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ پھر صحافت کا جنازہ نکلا۔ صحافت، اقتدار اور سرمائے کے گٹھ جوڑ نے مفاد کا ایسا ایسا راستہ دریافت کیا کہ آج سے پہلے تک یہ تصور کرنا محال تھا۔ حتیٰ کہ کاروباری طبقے کو زرد صحافت پر پلنے والے کالے بلیک میلروں سے بچنے کے لیے اپنے اخبار اور ٹی وی چینلز کھولنا پڑے۔ پھر بھی حالات یہ ہیں کہ معزز صحافیوں نے جووں کے ڈوں سے لیکر یونیورسٹیوں میں اپنے عزیز و اقارب کی بھرتیوں تک مفاد اٹھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ کئی چوکس تو ایسے وحشت گرد ہیں کہ جو شروع میں ہی بھانپ گئے تھے کہ معزز رہتے ہوئے لوٹ مار کرنے کے لیے کم از کم بھی کالم نگار ہونا ازحد ضروری ہے۔ اس کے بعد پھر تجارتی ہسپتالوں میں ہونے والا علاج کا ناجائز دھندہ جس میں ٹیسٹ لیبارٹریوں سے لیکر فارماسوٹیکل کمپنیوں تک اور ڈاکٹروں سرجنوں سے لیکر ادویات بیچنے والوں تک سب نے پوری یکجہتی سے معاشرے کے داماد ہونے کا حق ادا کیا ہے۔ اور اب یہ تعلیمی وحشت گردی جس نے گھروں میں بیٹھے ماں باپ کے اوسان خطا کر کے رکھ دیے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بیٹھے سستے دانش ور اور ذہنی نابالغ ایسا ایسا تبصرہ فرما رہے ہیں کہ ماں باپ شاید بیٹیوں کو یونیورسٹیوں میں بھیجنا بند کر دیں گے۔
ابھی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بپا کی جانے والی وحشت گردی سے اڑنے والی گرد بیٹھی
بھی نہیں کہ ایک سرخ آندھی اور اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے وی سی منصور سرور کے دور میں یونیورسٹی میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور جعلسازیوں کے بارے بڑے بڑے الزامات سامنے آ رہے ہیں اور ڈینز اور چیئرمینز کی تقرریوں پر مبینہ انکشافات کا سلسلہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر جاری ہے جس میں بتایا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر منصور سرور نے اپنے پورے دور میں سنیارٹی لسٹ و سنیارٹی رولز کی عدم موجودگی میں تقرریاں کی۔
ڈاکٹر منصور سرور نے نا صرف خود یو ای ٹی ایکٹ کی خلاف ورزی کی بلکہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور چانسلر آفس کو بھی گمراہ کیا۔ ذرائع کے مطابق چیئرمین کی تقرری تین سینئر پروفیسرز میں سے وائس چانسلر کرتا ہے جبکہ ڈین کا تقرر تین سینئر پروفیسرز میں سے چانسلر یعنی گورنر کرتا ہے۔ یو ای ٹی نے کبھی سنیارٹی لسٹ یا سنیارٹی رولز ہی نہیں بنائے۔ یعنی سنیارٹی لسٹ کی عدم موجودگی میں سنیارٹی کا تعین کر لیا گیا۔ یو ای ٹی لاہور کے ایک طالب علم عبدالولی خان نے گورنر پنجاب کو خط لکھا ہے جس میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر منصور سرور کی تعلیمی وحشت گردی کے بارے انکشافات کی لائن لگا دی ہے۔ خط کی کاپی وائس چانسلر یو ای ٹی، سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کمیشن، پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور صدر لاہور پریس کلب کو بھی ارسال کی گئی ہے۔ خط میں یو ای ٹی لاہور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر منصور سرور کیخلاف غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر انکوائری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خط میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر منصور سرور چار سال تک یونیورسٹی میں غیر اخلاقی سرگرمیوں ملوث، خواتین کو ہراساں کرتے رہے اور دفتر کو منفی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے رہے۔
سیشن 2019/2023 کے شکایت کنندہ طالب علم عبد الولی خان داوڑ نے وائس چانسلر دفتر کے باہر لگے کیمروں کی چھ مہینوں کی ریکارڈنگ قبضے میں لینے کا مطالبہ کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ مخصوص خواتین کے وائس چانسلر دفتر میں داخل ہونے کے اوقات، وائس چانسلر کی قربت پانے کے بعد عہدے پر تیزی سے ترقی ملنے کو بھی دائرہ تفتیش میں شامل کیا جائے اور وی سی ہاؤس کے سی سی ٹی وی کیمروں کا ریکارڈ بھی قبضہ میں لیا جائے کیونکہ منصور سرور چار سال تک وی سی ہاؤس میں اپنی فیملی کے ساتھ شفٹ ہونے کے بجائے اسے غیر اخلاقی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے رہے۔
درخواست گزار نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ کیمروں کی ریکارڈنگ غائب کر دی جائے گی لہٰذا مکمل ریکارڈ فوری طور پر قبضے میں لینے کے لیے ایف آئی اے کی معاونت حاصل کی جائے۔ خط میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ پروفیسر منصور سرور نے ان خواتین کے رشتے داروں کو نوازنے کے لیے اپنی مدت ملازمت کے آخری مہینوں میں 3 سنڈیکیٹ اور تین سلیکشن بورڈز کرائے جس میں 50 سے زائد افراد کو بھرتی کیا گیا۔ اس پر الگ سے انکوائری کرانا بے حد ضروری ہے تاکہ میرٹ کی خلاف ورزیاں سامنے لائی جا سکیں۔
عزت مآب گورنر پنجاب نے اس خط کا کیا نوٹس لیا ہے اس وقت تک کوئی خبر سامنے نہیں آئی لیکن نہایت معتبر ذرائع نے بتایا ہے کہ اس خط پر وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر ِ خاص کنور دلشاد صاحب فوری طور پر اس معاملے کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے نوٹس میں لاتے ہوئے قانونی کارروائی کے لیے دفتری کارروائی کو آگے بڑھا چکے ہیں۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ یو ای ٹی کے سابق وی سی منصور سرور کے خلاف شکایت پر سیکرٹری ہائر ایجوکیشن بھی سرگرم ہو چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے ہائی کورٹ سے اسلامیہ یونیورسٹی کے ایشو پر جوڈیشل انکوائری کی اپیل کے نتائج بھی بہت مثبت نکلنے کی امید ہے۔ یونیورسٹیوں میں تعلیمی وحشت گردی کے حالات کا جائزہ لینے سے یہ اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں کہ اگلی باری یونیورسٹی آف گجرات اور یونیوسٹی آف اوکاڑہ میں سے کسی ایک کی ہے۔
تبصرے بند ہیں.