اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چھ رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز (عام شہریوں) کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دینے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
اس لارجر بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی،جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل نے زیر حراست سویلینز کی فہرست پبلک کرنے سے متعلق ہدایات کے لیے مہلت طلب کی تھی۔
آج ہونے والی سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی نے فوجی عدالتوں کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس موقع پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ انھوں نے فل کورٹ تشکیل دینے کی تین وجوہات اپنی درخواست میں بیان کی ہیں اور بڑی وجہ یہ ہے کہ فوجی آمر پرویز مشرف بھی فل کورٹ فیصلے کی مخالفت نہیں کر سکے تھے جبکہ سپریم کورٹ کے ججز بشمول جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دینے کی بات کی ہے۔
فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ سپریم کورٹ ایک فیصلے میں قرار دے چکی ہے اگر ایک جج کیس سننے سے انکار کرے تو اسے وہ کیس سننے کا نہیں کہا جا سکتا ہے تاہم عدالتی تاریخ میں ملٹری کورٹس کیسز فل کورٹ نے ہی سنے ہیں۔
اس پر جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا دیگر درخواست گزاروں کا بھی یہی مؤقف ہے۔ اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ صرف اپنی حد تک بات کر رہے ہیں جبکہ ایک اور درخواست گزار اعتزاز احسن نے کہا کہ عدالت نے تمام دستیاب ججوں کو بینچ میں شامل کیا تھا تاہم دو ججوں کے اٹھ جانے کے بعد یہ ایک طرح کا فل کورٹ بینچ ہی ہے اور یہ کہ دو ججز کے بینچ سے اٹھنے سے کوئی تنازع پیدا نہیں ہوتا۔
اس دوران اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ انھوں نے بھی فل کورٹ کا کہا تھا مگر دو ججز بینچ چھوڑ گئے جبکہ ایک پر اعتراض کر دیا گیا۔
درخواست گزاروں کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ بینچ پہلے یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا اس کیس کی سماعت فل کورٹ میں کی جائے یا موجودہ بینچ ہی سماعت کو جاری رکھے گا۔
فل کورٹ سے متعلق دلائل سے قبل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ نو مئی کے واقعات میں بہت سے لوگ ملوث تھے اور شواہد کی روشنی میں ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا۔
اس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ گرفتاری سے قبل اگر کوئی انکوائری ہوئی ہے تو ریکارڈ پر کیوں نہیں جس پر اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ انکوائری ریکارڈ پر موجود ہے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ صرف ان افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جنھوں نے فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا، اس پر اٹارنی جنرل ن کہا کہ کور کمانڈر ہاؤس کو نقصان پہنچانے والوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فوجی ٹرائل کا سامنا کرنے والے زیر حراست افراد سے متعلق رپورٹ جمع کروا دی گئی ہے اور تحریری جواب میں پورا چارٹ ہے کہ کتنی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے دریافت کیا کہ 102 گرفتار افراد کی گرفتاری کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا گیا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر شواہد کی روشنی میں افراد کو حراست میں لیا گیا۔
تبصرے بند ہیں.