آرمی چیف جنرل سید حافظ عاصم منیر نے اپنا بیانیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ نہ پرانا پاکستان نہ نیا پاکستان اب نعرہ لگے گا۔ہمارا پاکستان۔۔۔آرمی چیف کا یہ نیا بیانیہ سن کر ایک پاکستانی لے طور پر ہم سب کو حوصلہ ملا تھا کہ اب جو پالیسیز بنیں گی۔ان کا محور اور مرکز کسی کی ذات نہیں بلکہ پاکستان ہوگا۔کسی حد تک اسکی جھلک بھی نظر آئی۔آرمی چیف نے جس طرح ملک کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے نکالنے کے لیے دن رات ایک کیا اس کے لیے بلاشبہ ان کی تعریف بنتی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے بھی برملا اس کا اظہار کیا۔جس طرح سعودی عرب۔امارات۔قطر اور چین وغیرہ نے پاکستان کو معاشی طور پر سپورٹ کیا اس سے کافی حد تک امید پیدا ہو گئی ہے کہ پاکستان اب صحیح سمت کی جانب گامزن ہو جائے گا۔اور ملک کو معاشی کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام بھی ملے گا۔ابھی پاکستانی عوام اور بزنس مین کمیونٹی کا آہستہ آہستہ اعتماد بحال ہورہا تھا کہ دہشت گردی کا جن ایک بار پھر بے قابو ہوتا نظر آرہا ہے۔ہر دوسرے تیسرے دن ملک کے کسی نہ کسی حصہ سے دہشت گردی کے واقعہ کی اطلاح مل جاتی ہے۔گزشتہ روز باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام کے کنونشن میں خوفناک دھماکہ کے نتیجے میں 50 کے لگ بھگ افراد کی شہادت نے پاک فوج اور سیاسی قیادت کو بہت کچھ سوچنے مجبور کردیا ہے۔اس واقعہ کی اہمیت اور زیادہ اس لیے بڑھ جاتی ہے۔کہ پورے ملک میں الیکشن ہونے جارہے ہیں۔آخر کون سی عناصر ہیں جو ملک کو دوبارہ عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔دہشت گردی کی لہر ایک ایسے وقت میں تیز سے تیز تر ہو رہی ہے جب ایک طرف آج سی پیک کو 10 سال مکمل ہو گئے ہیں۔چائنیز نائب صدر پاکستان کے دورے پر ہیں۔پاکستان اور چائنہ سعودی عرب ایران کی مدد سے سی پیک کو آگے بڑھانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔اور پاک فوج اسکو بھرپور سپورٹ کر رہی ہے۔پاکستان کی سٹاک ایکسچینج دہشت گردی کے واقعات کے باوجود بہت بہتری کی جانب جا رہی ہے۔۔آئندہ چند روز میں موجودہ حکومت فارغ اور اس کی جگہ ایک نگران حکومت لے رہی ہے۔ایسے حالات میں دہشت گردی کا بڑھ جانا طرح طرح کی قیاس آرائیوں کو جنم دے رہا ہے۔کہ پتہ نہیں الیکشن ہوں گے یا نہیں۔ملک میں کبھی استحکام بھی اسکے گا کہ نہیں۔ایسی صورت میں ملک میں رہ جانے والی بزنس مین کمیونٹی بھی اپ سیٹ ہوجاتی ہے۔کہ ان کا اور ان کے بزنس کا کیا بنے گا۔دوسری طرف مہنگائی کی چکی میں پستی عوام بھی عدم تحفظ کا شکار ہے۔پاکستانی عوام ماضی کی دہشت گردی کو یاد کرکے سہم جاتے ہیں۔۔بقول شاعر
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
ماضی میں بھی جب پوری قوم دہشت گردی کی لپیٹ میں تھی۔ہمارے جوان شہید ہو رہے تھے۔صحافیوں دانشوروں۔سکالرز۔افسران پاک فوج کے افسران کو ٹارگٹ کیا جا رہا تھا تو ملک میں یہ بحث ہو رہی تھی کہ اچھے اور برے طالبان میں سے ہم کو کس سے کس طرح پیش آنا چاہئے اس وقت بھی اوپینین میکنگ تقسیم تھی۔پوری قوم تقسیم تھی۔میڈیا پوری طرح سے کردار ادا نہیں کر پا رہا تھا۔پھر ریاست نے فیصلہ کیا۔اہل سیاست دان فوج اور میڈیا کے بڑوں نے فیصلہ کیا پوری قوم نے ساتھ دیا نتیجتًاافواج پاکستان نے دہشت گردی کی ایک خوفناک جنگ لڑ کر امن کے دشمنوں کو شکست دی۔اور ملک میں امن بحال کیا۔آج پھر سیاست دانوں پاک فوج۔میڈیا سول سوسائٹی اور عوام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہوگا تاکہ امن کے دشمنوں کو ایک بار پھر شکست دی جا سکے اور یہ کم جناب حافظ عاصم منیر صاحب آپ کے بغیر کوئی نہیں کر سکتا۔ایک بار پھر نیشنل ایکشن پلان پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کرنا پڑے گا۔ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کر کے سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کرنا ہوگا۔قوم کو مایوسی اور نا امیدی سے نکالنا ہوگا۔اور بزنس کمیونٹی کو اعتماد دینا ہوگا پھر ہمارا پاکستان کا بیانیہ پورا ہوگا۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.