جب ملک لاوارث ہو جائیں تو یہی ہوا کرتا ہے۔ پاکستان کا کوئی ایک شعبہ بتا دیں جہاں سے کوئی خیر کی خبر آ رہی ہو۔ ہر طرف ایک عجیب سی افراتفری اور نفسانفسی کا عالم ہے۔ تعلیم کا شعبہ جسے سب سے زیادہ مقدس و محترم سمجھا جاتا ہے جتنی اندھیر نگری اس شعبے میں مچائی جا رہی ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ جس کی سیدھی سیدھی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ایک تو یہاں پیسہ بہت ہے اور دوسرا یہاں سے پیسہ اور دیگر مفادات نکالنا آسان ہے بہت۔ ہر تعلیمی ادارے میں لائق، اچھے، حقیقی اور باکردار استادوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے اور ان کے مقابلے میں نوسر باز قسم کے نالائق، مکار، ریسورسفل چوکس افراد کاپی پیسٹ ڈگریوں کی بنیاد پر بڑی بڑی تنخواہیں چھاپ رہے ہیں اور اتنے بے شرم ہیں کہ اپنے جرائم پر شرمندہ ہونے کے بجائے ان مظلوم، سچے، محنتی اور لائق استادوں کو مجرم بنا کے پیش کرتے ہیں جن کا حق مار کے ان سے پہلے ترقی لے کر بھی بیٹھ جاتے ہیں اور کمیٹیوں کے ہیڈ بنا کر نوازے بھی جاتے ہیں۔ پی ایچ ڈی کی ڈگریاں کیسے ملتی ہیں اور یہ فیک کیسے ہوتی ہیں میں ذاتی طور پر آگاہ ہوں۔ شروع شروع میں جب گجرات یونیورسٹی بنی تو لاہور پریس کلب میں اکثر صحافی دوست یہ کہتے سنے گئے کہ گجرات میں ایم فل میں داخلہ لینے کا سوچ رہا ہوں۔ ایک تو مہینہ میں بس ایک آدھ بار جانا پڑے گا اور دوسرا تھیسز وغیرہ میں بھی جگاڑ لگ جائے گی۔ میری عادت ہے کہ میں جب بھی کسی پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر سے ملتا ہوں اس سے اس کا سبجیکٹ اور موضوع ضرور پوچھتا ہوں اور اگر موضوع میری دلچسپی کا ہو تو مکالمہ بھی کرتا ہوں۔ یقین کریں پہلے پانچ منٹ کی گفتگو میں سارا کچا چٹھا سامنے آ جاتا ہے۔ آج اساتذہ کے بھیس میں بغیر محنت کے دو نمبر طریقے سے ڈگریاں لینے والوں کی اکثریت ہے جو تھیسز خود کرتے ہیں نہ انٹرویو اور دفاع کی تیاری لیکن ڈگری خود چل کر ان کی جیب میں آ جاتی ہے۔ ان نوسر بازوں کی وجہ سے حقیقی محترم و معتبر استاد کا مقام اور پیشہ بدنام ہو کر رہ گیا ہے اور جو کچھ ہمارے بیٹوں اور بیٹیوں پر ان یونیورسٹیوں میں گزر رہا ہے وہ اتنا بھیانک ہے کہ دیکھ کر روح تک لرز جاتی ہے۔ یعنی اس وقت تعلیمی اداروں میں ہونے والی وحشت گردی کے باعث نہ ہی حقیقی استاد جس بیچارے نے دن رات محنت کر کے ڈگریاں لی ہیں سکون میں ہے اور نہ وہ والدین جو اپنا آپ بیچ کر بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ مزے میں ہیں تو استادوں کے بھیس میں چھپے وہ وحشت گرد جو پہلے بغیر پڑھے ڈگریاں لیتے ہیں پھر بلیک میلنگ اور سفارشوں کے ذریعے نوکریاں حاصل کرتے ہیں پھر اپروچ کر کے جھوٹے نمبر لگوا کر اور قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑا کر ترقیاں پاتے ہیں اور پھر انہیں معصوم اساتذہ کے لیے ہر وقت جینا اور نوکری عذاب بنا کے رکھ دیتے ہیں جن کے سامنے ان کو سر نہیں اٹھانا چاہیے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا سکینڈل سامنے آنا قدرت کے نظام کے تحت ہی ہوا ہے ورنہ یہاں ہر دوسرے ادارے کا حال یہی ہے۔ کچھ سال پہلے جب امیر حسین نام کے ایک بڑے آدمی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر تھے تو میں نے وہاں پر موجود مفاد مافیا کی دادا گیری کا تجربہ اور مشاہدہ ذاتی طور پر کیا تھا۔ میں وی سی کے کمرے میں بیٹھا ایک طالب علم کی زندگی برباد کرنے والوں کی شکایت پیش کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا اور وی سی صاحب چاہ رہے تھے کہ میں اپنی عرضی چھوڑ کر فوراً وہاں سے چلا جاؤں۔ جب مجھے وہاں بیٹھے کچھ دیر ہو گئی تو میرے سامنے ہی وی سی صاحب کے لیے جامِ مشروب ِ مستاں آ گیا۔ میں جام و سبو کے احترام میں گھبرا کر اپنا مدعا وغیرہ بھول گیا اور اٹھ کر باہر آ گیا۔ مجھے باہر ہی کسی نے بتا دیا کہ وی سی صاحب کے دفتر میں ہر شام چار بجے کے بعد یہی محفل چلتی ہے۔
مشروب ِ مستاں کے ساتھ کباب کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہے کباب ِ شاداب کی برکتوں سے ہی کچھ لوگوں کی پی ایچ ڈی کی ڈگری تین سال میں مکمل ہو جاتی ہے اور وہ بھی بغیر پڑھے اور بغیر محنت کیے۔ بعد ازاں ڈگری کے حصول اور تقرری کی درمیانی مقررہ مدت سے پہلے تقرری ہو جاتی ہے۔ بین الاقوامی معیار کے ڈبلیو اور ایکس لیول مجلوں میں ریسرچ پیپرز شائع کرانے والوں کے بجائے لوکل، غیر معیاری اور وائی کیٹیگری میں آنے والے میگزینوں میں پیسے دے کر چھپوائے گئے ریسرچ پیپرز والوں کی فوری ترقی ہو جاتی ہے اور حق دار منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ لیکن اب بات صرف اسلامیہ یونیورسٹی کے ان فنکاروں تک یا سابق وی سی اطہر محبوب تک نہیں رہی بلکہ مختاریا گل ودھ گئی اے۔ عزت مآب گورنر صاحب کے پاس بہت سارے کیسز اور انکوائریز آئی ہونگی کچھ کا حل نکل آیا ہو گا کچھ لٹک گئی ہونگی لیکن بات براہ راست گورنر صاحب کے نام تک نہیں پہنچی تھی جو اسلامیہ یونیورسٹی کے سابق وی سی اطہر محبوب سکینڈل پر گورنر صاحب کی خاموشی کے باعث اس طرف بھی چل نکلی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام اور ان کے بچوں کا تو خیر کوئی پُرسان حال ہے ہی نہیں کم از کم کوئی ان اداروں کی تباہی پر ہی کچھ بول پڑے جن کا فرض ہی اداروں کی دیکھ بھال اور خیر و عافیت کا خیال رکھنا ہے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب کنور دلشاد اور سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کمیشن کا جن کی فرض شناسی اور احساس ذمہ داری کے باعث فوری ایکشن ہونا شروع ہو چکا ہے اور اس میں بلاشبہ وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے بھی سخت احکامات دیے جا چکے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے نئے وی سی صاحب کے لیے ان کی تقرری جہاں عزت اور بخت کی بات ہے وہاں کسی بڑے اور سخت امتحان سے کم نہیں۔ ابھی جب انہیں پتہ چلے گا کہ سابق وی سی صاحب نے کب کس اخبار کے کونسے مہا ایڈیٹر کو کس طرح رام کر رکھا تھا اور کس کالم نگار سے کیسے جان بچائی ہوئی تھی اور کونسے ٹی وی چینل کے کس چیتے سے کیسے بلیک میل ہوتے ہوتے بچ گئے تھے تو یقینا نئے وی سی صاحب کے بھی ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ اندر کی اطلاع یہ ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کی دو ہستیاں اس وقت پورے پاکستان کے اصلاح پسندوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ یہ دو افراد بظاہر صحافی، بظاہر استاد اور بظاہر ہی پی ایچ ڈی بتائے جا رہے ہیں وگرنہ ان کی حقیقت جاننے کے لیے حکومت اور میڈیا والوں سے ان کے کیسز کو مثال بنائے جانے کی گزارش کی جا رہی ہے۔ جن کی تقرریاں، ترقیاں اور نوکریاں سب کچھ مشکوک ہیں۔ اب اس سے پہلے کہ نئے وی صاحب کے سر پر یونیورسٹی ہاؤسنگ سکیم کا ملبہ بھی آ گرے انہیں چاہیے کہ کسی کے دباؤ میں آئے بغیر انصاف پر مبنی اور انتہائی غیر جانبدارانہ انویسٹی گیشن کرائیں اور اٹل فیصلہ لیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو اور پھر یونیورسٹی کے باقی شعبوں میں بیٹھے وحشت پسندوں کو نکال کر باہر پھینکیں۔ نہیں تو جتنے دن مزے لینے ہیں لے لیں کیونکہ محبوب اطہر صاحب باہر بیٹھے بڑی شدت سے ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اب پنجاب میں نئے وی سی کی تقرریوں کے معاملے میں رکاوٹیں دور ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی سکینڈل کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا بنایا جانا بہت امید افزا قدم ہے۔ کمیٹی کے سربراہ سید محمد علی شاہ وی سی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کا شمار پاکستان کے معتبر اور ممتاز ماہرین تعلیم میں ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ کمیٹی میں انتہائی سینئر اور بہترین شہرت کے حامل ماہرین کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سکیورٹی ایجنسیز بھی معاملات کو بہت گہرائی سے دیکھ رہی ہیں۔ حکومت کی طرف سے تحقیقاتی کمیٹیوں اور اداروں کو واضح اور صاف پیغام دے دیا گیا ہے کہ ہر قیمت پر قواعد و ضوابط کی پاسداری اور انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.