آج یوم عاشور منایا جا رہا ہے صدیاں گزرنے کے بعد بھی معرکہ حق و باطل ہی جاری وساری ہے جیسے صدیوں پہلے تھا حسینؓ و یزید اس معرکہ حق و باطل کا استعارہ ہیں حسینؓ ابن علیؓ بظاہر اس معرکہ میں شہید ہو گئے لیکن انکی شہادت آج بھی حق پرستوں کے لئے نشان راہ بھی ہے اور نشان منزل بھی۔ کربلا میں حسینؓ یزیدی لشکر کے ہاتھوں شہادت کی منزل پا گئے۔ یزیدی لشکر فاتح ہونے کے باوجود نا مراد قرار پایا۔ آج ہمیں یزید کو یاد کرنے والا کوئی بھی کہیں بھی نہیں ملتا کوئی مسلمان حسینی جذبے و صداقت سے انکاری نہیں ہو سکتا ہے معرکہ حق و باطل میں آج بھی حسینؓ ہی فاتح ہے بامراد ہے با کمال ہے۔ قابل تقلید ہے حق کے لئے جینے مرنے والوں کے لئے عظیم نشان منزل ہے۔
صدیوں پہلے ہونے والے معر کہ حق و باطل کے بارے میں کسی کو حسینیت اور یزیدیت کے بارے میں کسی قسم کا کنفیوژن نہیں ہے ہر شے واضح ہے روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ کربلا میں جو عظیم الشان معرکہ آرائی ہوئی اسکے بارے میں اربوں کھربوں انسانوں کو حقائق معلوم ہیں آج ذرائع ابلاغ اپنی وسعت اور رسائی میں لا محدود منازل تک پہنچے ہوئے ہیں دیواروں کے پیچھے کیا ہو رہا ہے، بند کمروں میں، خفیہ میٹنگز میں کیا طے پایا ہے وغیرہ وغیرہ بھی اب عام ہوتے ہیں معلومات یعنی انفارمیشن کا دور دورہ ہے اب کوئی چیز کوئی معلومات، کوئی حقیقت چھپی نہیں رہتی ہے لیکن یہاں پاکستان میں 26 /25 کروڑ عوام کو نہ تو اپنے حال کے بارے میں کچھ پتہ ہے اور نہ ہی وہ اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ ابلاغی انقلاب آنے اور دنیا پر چھا جانے کے باوجود ہمارے عوام تہی دست و دامن ہیں۔ ہر لحاظ سے غریب ہیں، کمزور ہیں، پست ہیں، ذلیل ہو رہے ہیں، خوار ہو چکے ہیں۔
ہمیں بتایا جاتا ہے، سنایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے یہاں کی مٹی بہت زرخیز ہے۔ چار موسم ہیں دریا ہیں۔ بڑا نہری نظام ہے کسان محنتی ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں روٹی اور چینی بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، دالیں سبزیاں میسر نہیں ہیں، گوشت تو دور کی بات ہے ہماری اپنی زمین سے اگنے والی اجناس ہی عوام کو میسر نہیں ہیں۔ دنیا کا عظیم نہری نظام ہونے کے باوجود پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے کہا جاتا ہے کہ ہماری کپاس بہت اعلیٰ ہے ہم اس کے مانے جانے برآمد کنندہ ہیں لیکن ہمارے عوام کو کپڑا میسر نہیں ہے بجلی تو چلیں پیدا کرنا پڑتی ہے اور ہم ابھی تک اس قابل بھی نہیں ہو سکے ہیں کہ دستیاب ہوا، پانی اور سورج کی روشنی کو استعمال کرکے بجلی بنا سکیں حالانکہ یہ سب کچھ بہتات
میں اور ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں گیس تو ہماری اپنی ہے لیکن ہمیں وہ بھی دستیاب نہیں ہے۔
ہماری قومی تاریخ بو العجمیوں اور تضادات کا شکار نظر آتی ہے بنگالی جو آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی تھے، مسلم لیگ کے پرچم تلے قائد اعظمؒ نے پاکستان کے قیام کی تحریک کی قیادت کی اور بالآخر ایک عظیم الشان ریاست قائم کر دکھائی پھر تھوڑے ہی عرصے میں بنگالیوں میں اضطراب پیدا ہونا شروع ہو گیا زبان کے مسئلے نے سر اٹھایا پھر معاشی ناہمواریوں نے معاملات میں بگاڑ پیدا ہوا۔ ماڈرن دنیا کی تاریخ میں شاید ہی ایسے ہوا ہو کہ کسی اکثریتی گروہ نے اقلیت کے ساتھ لڑ کر علیحدگی حاصل کی ہو۔ ہمارے ہاں ایسا ہوا۔ بنگالی اکثریت میں تھے انہوں نے لڑ کر مغربی پاکستان کی اقلیتی ہیت حاکمہ سے آزادی حاصل کی۔
اس کے بعد 50 سے زائد سال گزار چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو آئے، جنرل ضیاء نے انہیں چلتا کیا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بھٹو نے مایوس و شکست خوردہ پاکستانیوں کو ایک بار پھر آمادہ پیکار کیا۔ 73 کا متفقہ آئین دیا۔ ایٹمی پروگرام شروع کیا۔ زرعی و صنعتی اصلاحات کیں قومی معاملات کو نئے سرے سے عازم سفر کرنے کی کاوشیں کیں وہ حقیقی معنوں میں عوامی لیڈر تھے لیکن منظر سے ہٹا دیئے گئے، پھر نواز شریف و بے نظیر قومی منظر نامے پر ابھرے انہوں نے عوام کو عزم و ہمت عطا کی۔ نواز شریف نے پاکستان کو معاشی استحکام دینے کی منظم کاوشیں کیں۔ پرویز مشرف نے انہیں منظر سے ہٹا دیا۔ بے نظیر منظر سے غائب کر دی گئیں۔ پھر عمران خان کو لایا گیا۔ سیاسی منظر پر بڑھانے اور چڑھانے کی سازش کی گئی۔ جنرل باجوہ نے اپنی سیاسی بساط بچھائی جو انہیں خود ہی 2022 میں لپیٹنا پڑی۔ اتحادی حکومت قائم کی گئی۔
بھٹو گئے، نواز شریف گئے، بے نظیر گئیں، پھر نواز شریف گئے، عمران خان بھی گئے۔ سیاست میں میوزیکل چیئر ز کا کھیل جاری ہے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے سکندر مرزا نے جس کھیل کا آغاز کیا تھا وہ ہنوز جاری ہے یہ کھیل مشرقی پاکستان کھا گیا۔ لیکن باقیماندہ پاکستان سنبھل نہیں پایا۔ آج حالات یہ ہیں کہ قومی قیادت نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان سمیت عمران خان اپنی کار کردگی دکھا چکی ہے سب اقتدار کے مزے چکھ چکے ہیں سب کو اپنا آپ دکھانے کے مواقع مل چکے ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ سیاست پراگندہ ہے معیشت ڈیفالٹ کے کنارے کھڑی ہے۔ ریاست ناکام نظر آ رہی ہے، عوام مکمل طور پر ناامید ہو چکی ہے، اشیاءخورونوش عوام کی اکثریت کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں ہمارے قومی مسائل میں سب سے اہم بات اشیائے خورونوش کی گرانی ہے، آٹا، دال، سبزی، چینی، چاول، کھانے کے تیل کی قیمتیں ہی نہیں بلکہ بجلی، گیس ، پیٹرولیم اور پانی کی قیمتیں اور انکی دستیابی بھی ہمارے اہم قومی مسائل میں شامل ہو چکی ہے۔ قوم کو روس سے آنے والی گیس کے بارے میں خوشخبریاں دکھائی جا رہی ہیں جبکہ LPG کی سرکاری قیمت 177 روپے فی کلو گرام ہونے کے باوجود بازار میں 240/230 روپے کلو میں بک رہی ہے بجلی کے بلوں میں پہلے ہی بہت سے نامعلوم ٹیکس شامل ہیں اب اس میں ریڈیو فیس بھی داخل کر دی گئی عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے قدر زر پست ترین سطح تک گر چکی ہے۔ ڈالر 300 تک پہنچنے والا ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری ساری سیاسی قیادت بشمول نئی اور پرانی پر عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے قوم کی امیدیں ختم ہو چکی ہیں۔ ہر طرف سکوت مرگ طاری ہے۔ کسی کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ سب سے اہم بات ”کیا ہو گا“ کے بارے میںکسی کو کچھ پتہ نہیں ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.