دانشوری، تجزیہ کاری، سیاست اور رہبری محض یہ نہیں کہ مسائل، مایوسی اور بہتان طرازی بیچی جائے۔ کئی محقق دور کی کوڑیاں لاتے ہیں کہ فلاں واقعہ یوں نہیں یوں ہے فلاں لیڈر یا حکمران نے یہ کیا اور فلاں نے وہ کیا۔ جو ہو گیا اب اس سے سبق حاصل کر کے آگے چلنے کا کوئی طریقہ بھی کسی نے بتایا ہے؟ مسائل کی محض نشاندہی نہیں مسائل کا حل درکار ہے۔
آج ارض وطن پر مافیاز کا راج ہے، مافیاز کہاں سے کہاں تک ان کی بُنت اورتانا بانا کہ دوسرا کیا پہلا سرا ہاتھ نہ آئے۔ وکالت کی شروعات میں ضیا الحق کا دور تھا، کرپشن بطور پالیسی رائج تھی، ہیروئن، کلاشنکوف اور غیر ملکی ناموں پر کھلنے والے تعلیمی ادارے تھے۔ مفت تعلیم بند کر دی گئی، پرائیویٹ تعلیم آج شاید ہی کوئی بندہ مشکل سے بچوں کی جاری رکھ سکتا ہو۔ آئندہ عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں اور حکمران طبقوں نے اپنے اہداف مقرر کر لیے ہیں اور وہ سب کے سب اہداف بظاہر عوامی نمائندگی اور قوت کے بل بوتے آئین کی شقوں کے مطابق ہوں گے۔ کیا عوام نے بھی اپنے مسائل کے حل کو مطالبات کی صورت میں اپنے اپنے علاقے اپنے طبقے کے مطابق ترتیب دیا ہے؟ بالکل نہیں۔ نیازی واحد رہنما ہے جس کا کوئی نظریہ نہیں البتہ مفت بھری، کرپشن پروری، ڈھٹائی، الزام، جھوٹ اور اداکاری منشور ہے۔ دیگر جماعتوں میں بڑی تین جماعتیں تو اب بھی اقتدار میں ہیں۔ وفاق، خاص طور پر ایف بی آر میں ہونے والے تعیناتیاں تو ”قابل ستائش“ ہیں۔ کبھی میاں شہباز شریف ڈھونڈ ڈھونڈ کر دیانتدار لوگوں کو تعینات کرتے تھے مگر اب معاملہ اس کے برعکس ٹھہرا۔ شاید نگران دور میں یہی گھوڑے سواری کے لیے پشت فراہم کریں گے۔
وطن عزیز میں کسی بڑے انقلاب کی ضرورت نہیں، کسی کو سمندر سے پیسہ ڈھونڈنے کے کرتب نہیں دکھانے بلکہ پہلے سے موجود قانون کی عملداری کی ضرورت ہے۔ ملاوٹ ہمارے ملک کا بدنامی کی حدوں کو پار کر چکنے والا مسئلہ ہے، شہد سے شراب تک، دوا سے دعا تک، پیر سے پروہت تک، آجر سے اجیر تک، قلمکار سے فنکار تک سب دو نمبر، خور و نوش کی ہر چیز ملاوٹ زدہ، مضر زندگی۔ میں نے اپنے ایک ریٹائرڈ کمشنر دوست سے پوچھا کہ ان جرائم کے تدارک کے لیے کوئی قانون ہے؟ اس نے کہا کہ پرائس کنٹرول کی مہم کسی وقت چلائی جاتی رہی ہے۔ میں نے کہا کہ شہباز شریف کی وزارت علیہ کے دور میں عائشہ نامی خاتون کیا کرتی تھیں؟ کہنے
لگے، وہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ اور اس قانون کے تحت کارروائی کرتی تھیں۔ میں نے کہا کہ جعلی دوائیاں، تو جواب ملا کہ ڈرگ ایکٹ کے تحت پھر اپنے دوست معروف ایڈووکیٹ جناب عرفان حیدر گورایہ سے بات کی اور پوچھا، دوائیوں میں ملاوٹ کا کوئی قانون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ بہت سخت قانون 10 سال بلکہ اس سے بھی زیادہ قید کی سزا ہے۔ میں نے کہا، مگر کبھی ایک گھنٹہ قید ہوتے نہیں سنا تو جواب آیا کہ سرکاری ملازم مقدمہ بناتے ہیں مگر پیروی نہیں کرتے اور کیس ہوا ہو جایا کرتا ہے، محض جرمانہ وغیرہ چلتا ہے۔ ویسے تو پی آئی سی لاہور کا بھی ایک سکینڈل آیا تھا، 3/4 لوگ جعلی دوا کا شکار ہوئے، کیا کسی کو سزا ہوئی؟ قارئین سول لا جس میں شہری حقوق، عزت، شہرت کا تحفظ، ایذا رسانی کا تدارک کیا گیا ہے کبھی نہیں سنا کہ قانون حرکت میں آیا ہو۔ قارئین پرائس کنٹرول اور منافع خوری، جعلی ادویات و جعلسازی کے سدباب کے لیے باقاعدہ ایکٹ قانون بنے ہوئے ہیں مگر مجال ہے کسی دور میں بھی عمل ہوا ہو۔ تعلیم، صحت، لینڈ مافیا، افسر شاہی، کلرک مافیا، جرائم پیشہ گروہوں کے مافیاز، سیاست کار مافیا، حکمران طبقہ مافیہ اور حیرت ہے کہ یہ سب مافیاز کی آپس میں ایسی بُنت ہے کہ ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے۔ ایک انتہائی خوفناک مافیا بھکاری مافیا ہے، باقاعدہ چوکوں، چوراہوں، سڑکوں ٹریفک کے اشاروں پر قبضہ ہے۔ مساجد، امام بارگاہوں، تہواروں پر قبضہ ہے۔ آپ فیملی کے ساتھ ہوں یا اکیلے، گاڑی کھڑی کریں دونوں طرف سے آگے سے گاڑی گھیر لیں گے۔ آپ پیدل ہوں دکاندار سے بات کریں، یہ پہلے آ ٹپکیں گے۔ اب یہ بیرون ملک سعودیہ، ایران، عراق اور شام زیارات تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان کی تعداد 2 کروڑ تک ہے۔ گھروں بھٹوں پر بچوں کو مزدوری، بچوں سے بھیک منگوانا ایک باقاعدہ صنعت بن چکا ہے۔ مزدوری لینے والوں کے بجائے، بچوں سے بھیک منگوانے اور پیدا کر کے گھروں اور بھٹوں پر کام کرانے والوں کو سزا ہونی چاہیے جو سکول میں ہونے چاہیے تھے یہ بھیک کے دھندے میں دھنسے پڑے ہیں۔ 9 فروری 1948 کو ڈی سی لاہور نے آرڈر کیا تھا کہ کوئی بھکاری لاہور میں نظر نہ آئے، اس وقت کراچی میں تعداد کم تھی۔ آج ہمارے شہر بھکاریوں سے بھرے پڑے ہیں، بھکاری اور آوارہ گردی ایکٹ موجود ہے مگر بیوروکریسی جو دیمک کی طرح ملک چاٹ گئی۔ قائد اعظم کو تو مہلت نہ ملی، قائد عوام کو مہلت نہ ملی جن کو وقت ملا وہ اقتدار کی طوالت کے چکر میں رہے۔
آئیے ذرا ایک نظر سنگاپور کی طرف ڈالتے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا نے اپنے بدن کا بیکار حصہ سمجھ کر الگ تھلگ کر دیا، چھوڑ دیا۔ آج اسی خطے کا سب سے خوش حال ترین ملک ہے۔ صرف ایک لی کوان یو، جو ستمبر 16 ستمبر 1923 کو پیدا ہوئے اور 23 مارچ 2015 کو وفات پائی، وہ سیاسی حوالے سے بہت جدوجہد بھی کرتے رہے اور مختلف عہدوں پر فائز رہے لیکن جب وہ وزیراعظم بنے تو کہتے ہیں، میں نے سوچا کہ میں بھی دوسروں کی طرح وقت گزارتا اور اسی کرپشن کے کاروبار کا حصہ بنتا ہوں، پھر سوچا کہ نہیں اب اس ملک سنگاپور کی تقدیر تحقیر نہیں ہو گی لہٰذا تین اصول میرٹ کریسی، موٹیویشن اور ملٹی نیشنلزم۔ انہوں نے سب سے پہلے بیوروکریسی کو اسٹیبلش کیا اور پھر کسی کا لحاظ نہیں رکھا، وہ بیوروکریسی میں وزیر کو بھی شامل سمجھتے تھے۔ ایک ہدایت یافتہ جمہوریت کے قائل تھے، وقت کی ضرورت سمجھ کر کچھ لا یعنی پاپولسٹ نظریات کو قدرے پس پشت رکھا، جو ضروری تھا۔ موٹیویشن میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والوں کی حوصلہ افزائی، اجرت ضرورت کے مطابق اور قانون، میرٹ، اخلاقیات کے برعکس جانے والوں کو معطل نہیں جیل میں ڈالا۔
میں امریکہ میں رہا، وہاں کبھی آٹھ بجے کے بعد نیویارک میں دکانیں کھلی نہ دیکھیں سوائے 24 گھنٹوں والے سٹوروں کے اور صبح 5 بجے انہیں اپنی اپنی ٹرین ٹرین کے انتظار میں کھڑے دیکھا۔ جو قومیں طلوع آفتاب دیکھتی ہوں، دنیا میں نمایاں ہو کر طلوع ہوتی ہیں اور جو بعد از دوپہر اٹھتی ہیں ان کا مقدر بھی زوال پذیر ہوتا ہے۔ یہ ہمارا اجتماعی معمول اس وقت ہو گا جب سرکاری ملازم صبح آٹھ بجے ڈیوٹی پر ہوں گے۔
حلیمہ یعقوب اس نظام اور سلسلے کا نتیجہ تھیں جو لی کوان یو نے دیا۔ آج سنگاپور کا پاسپورٹ دنیا میں ٹاپ تھری ممالک جبکہ بندرگاہ میں پہلی پانچ بندرگاہوں میں شامل ہے۔ ہر خاندان کے رہنے کو گھر ہے۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کو تو موقع نہیں ملا تھا۔ اگر ہمارے حاکم لی کوان یو اور حلیمہ یعقوب کو ہی پیدا کر جائیں، سسٹم دے دیں تو ہم سمجھیں گے کہ پاکستان بنانے والوں کا خواب پورا ہو گیا۔ لی کوان یو بعد میں اپنے پیروکاروں اور ماتحتوں کے ماتحت حکمرانی کا حصہ رہے، ملک کی بنیادیں اس قدر مضبوط کر دیں کہ پھر مثال بن گیا۔ بیوروکریسی کو نکیل ڈالے بغیر، بڑی کوٹھیاں اور گاڑیاں رویے درست نہیں ہونے دیں گی۔ میرٹ، موٹیویشن، ملٹی نیشنلزم سوسائٹی کی بنیاد رکھنا ہو گی۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.