پاکستان تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کے نتیجہ میں جو مقامی قیادتیں ابھر کر سامنے آئی تھیں وہ بلاشبہ پاکستان ہی نہیں ساؤتھ ایشیا کی سیاسی تاریخ کا انوکھا واقعہ تھا۔ انسان اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے لیکن ایک ہی غلطی دوہراتا نہیں۔ تحریک انصاف سے میرا قلبی رشتہ تھا کہ اس پودے کو میں نے تناور درخت بنانے میں اپنی زندگی کے 26 سال دیئے تھے۔ میں تحریک انصاف بننے سے بہت پہلے بھی سیاسی ورکر تھا اور جب تحریک انصاف نہیں ہو گی اور اگر میں ہوا تو بھی سیاسی ورکر ہی ہوں گا کہ ”مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا“۔ پاکستان کا ایک بھی صحافی ایسا نہیں جس کے کوئی نہ کوئی سیاسی نظریات نہ ہوں لیکن اس کے باوجود انتہائی آسانی اور ڈھٹائی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ صحافی کے کوئی نظریات نہیں ہوتے حالانکہ نظریات صرف ذہنی مریضوں کے نہیں ہوتے البتہ باشعور اور صاحب ِ مطالعہ کے کوئی نہ کوئی نظریات ضرور ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیدی کا رائٹ آف ووٹ ختم نہیں کیا جا سکتا اور پاگل کو یہ حق حاصل ہی نہیں ہوتا۔ اب فیصلہ تو انسان نے خود کرنا ہے کہ اُس نے ذہنی مریض کہلانا ہے یا یہ اقرار کرنا ہے کہ وہ اپنے نظریات رکھنے کے باجود صحافت کا فریضہ دیانت داری سے ادا کر رہا ہے۔ نظریاتی بنیاد پر صحافت کرنا کوئی بُری بات نہیں لیکن اس کا انکار انتہائی بُرا ہے۔ تحریک پاکستان کے نامور لیڈرز صحافی تھے لیکن بعد ازاں ہم نے اُسے ”جنگی صحافت“ کہہ کر صحافت کی الگ سے ایک شاخ بنا دیا تا کہ ”معتبر صحافیوں“ کا فارم ہاؤس بنا کر ایک ایسی نسل پیدا کی جا سکے جو برملا کہے کہ ہمارے کوئی نظریات نہیں جبکہ وہ خطرناک حد تک نظریاتی اور ”خود کش قسم“ کے صحافی ہوتے ہیں۔ یہ سب باتیں صرف اس لیے یاد آئیں کہ صحافی اپنے آپکو سیاسی کارکن سے زیادہ معتبر اور عقلمند تصورکرتے ہیں جبکہ ایک نجی چینل میں زندگی کے 7 سال گزارنے اور پرنٹ میڈیا میں 27سال رہنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر میں نے یہاں سے کنارہ کشی اختیار نہ کی تو کچھ بعید نہیں کہ کسی روز میرے دوست مجھے ملنے پاگل خانے تشریف لائیں۔ صحافیوں کے درمیان زندگی کے گزارے 27 سال میری زندگی کے یادگار دن اور راتیں ہیں، اللہ رب العزت جانتا ہے کہ ایسے ایسے سینئر صحافیوں سے ملاقاتیں ہوئی جو پاکستانی حکمرانوں کی نزولی ترتیب سے بھی نہ واقف تھے مگر ”نظریاتی ریفرنس“ کی بنیاد پر لا تعداد عقلمندوں پر حکومت کرتے میں نے اُنہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ”قوموں کے شکست و زوال کے اسباب کا مطالعہ“ میں آغا افتخار حسین نے ایک جگہ لکھا ہے ”جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو اُس میں ایسے دانشور پیدا ہوتے ہیں جن کی تحریریں پہلے مسرور، پھر مسحور اور پھر خوابیدہ کر دیتی ہیں“۔ دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ تمام تہذیبوں کے زوال میں ایک قدر مشترک پائی گئی ہے کہ زوال اُس وقت شروع ہوا جب اُس تہذیب نے اپنا نظام ِتعلیم غلاموں، بھانڈوں اور میراثیوں کے سپرد کیا۔ آج پاکستان کا وہ میڈیا جس سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ عقل و شعور کے مینار روشن کرے گا وہاں ملکی سیاست سے لے کر مذہبی ٹرانسمشن تک مسخروں اور بھانڈوں کی حکومت ہے تو بہتر ہے اسے بھی فکاہیہ صحافت کے بجائے ”ظرافتی صحافت“ کا نام دے دیا جائے۔ بلاشبہ اس سے ریٹنگ تو ٹھیک ہو جائے گی لیکن عوام کے ذہنی معیار کی ریٹنگ جہنم کے سب سے گہرے کنویں کی سب سے گہری کھائی تک جا گرے گی جہاں سے واپسی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رمضان کے حوالے سے ایسی ایسی فحش غلطیاں دیکھنے کو ملیں کہ کوئی رمضان اس سے پہلے ایسا نہیں گزرا۔ ایک صاحب تو ٹیلی فون پر بندے اور اُس کی ماں کا نام پوچھ کر ہر مسئلے کا حل بتا رہے تھے۔ بندہ خدا! میڈیا انتہائی حساس آلہ تقسیم علم ہے اسے بچوں اور ذہنی مریضوں سے دور رکھنا چاہیے لیکن افسوس زیادہ تر نجی چینلز میں تخلیقی ڈیپارٹمنٹ ہی نہیں اور اگر کہیں ہے بھی تو تخلیق آورد سے بھی نچلے درج کی دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہے۔ میری کسی سے پیشہ ورانہ رقابت نہیں کیونکہ صحافت میرا ذریعہ روزگار نہیں لیکن پاکستان کا محب وطن شہری ہونے کیلئے صحافی ہونا ضروری نہیں اس کی درستی کیلئے ہر وہ شخص مشورہ دے سکتا ہے جو اِس روزگار کے بارے میں باخبر ہے اور اُس نے اس مضمون کو سائنسی بنیادوں پر پڑھ رکھا ہے ورنہ حالت وہی ہو گی جو آج آپ کے سامنے ہے۔
کالم نگاری میرے نزدیک ”عصری شعور کا جمالیاتی اظہار ہے“۔ اب اس مختصر سی تعریف میں بھی عصری شعور، جمالیاتی ذوق اور اظہار کیلئے بہترین اسلوب درکار ہے لیکن جو کچھ پڑھنے کو مل رہا ہے ویسا تو میرے جیسا معمولی قلم کار بھی لکھ رہا ہے تو پھر وہ کونسا معیار ہے جس پر یہ لوگ عوامی شعور کی سطح بلند کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں؟ اگر کچھ بلند ہوا ہے تو صرف کچھ لکھنے والوں کا معیار زندگی کیونکہ انہیں ایسی گھٹن زدہ تحریریں لکھنے کا معقول معاوضہ ادا کیا جا رہا ہے جس نے معاشرے کی علمی فضاؤں سے آکسیجن ہی کم کر دی ہے۔ میز کے نیچے سے جو کچھ دیا جا رہا ہے اُس کی خبر دائیں ہاتھ سے دینے والا بائیں ہاتھ سے لینے والے کو بھی نہیں ہونے دیتا۔ میرے نزدیک ”سکرین کیسے چلے گی یہ سائنس ہے اور سکرین پر کیا چلے گا یہ آرٹ ہے“۔ یعنی ابلاغیات سائنس اور آرٹ کے مرکب سے معرض وجود میں آنے والی تیسری شے ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ سائنس دان آرٹسٹ بنے بیٹھے ہیں اور آرٹسٹوں کو سارا سائنسی کام سونپ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہم تک پہنچنے والی خبریں اور اطلاعات انتہائی ناقص اور نا قابلِ فہم ہوتی ہیں۔ اینکر پروگرام کا ابتدائیہ کچھ بتاتا ہے، اُس کے سوالات بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ یہاں تک کے اختتامیہ ایسا دلچسپ ہوتا ہے کہ اُس کا کوئی تعلق ابتدائیہ سے ہوتا ہے اور نہ ہی اُن سوالات و جوابات سے جو سارے پروگرام میں کیے جاتے ہیں۔ اِن حالات میں ناظر پر کیا گزر رہی ہوتی ہے اس کا اندازہ ایک باشعور ناظر ہی کر سکتا ہے جو سامع بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں جو گوگل سرچ کر لے اُسے بھی ریسرچر تسلیم کر کے بلند ترین مقام پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کتاب پڑھنے کو میڈیائی دنیا میں جہنم کے بدترین عذاب سے کم نہیں سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ میں کسی سے پوچھ کر یا سن کر نہیں لکھ رہا، یہ وہ ہے جو مجھ پرگزرا ہے، جو میں نے سہا ہے اور جو میں نے نبھایا ہے۔ ہم قوم کو دیو مالائی داستانیں سنا کر گمراہ اور خوابیدہ کر رہے ہیں اور اسی کا معاوضہ اُن لوگوں سے وصول کر رہے ہیں جنہوں نے گمراہ اور خوابیدہ انسانوں کی طاقت سے سماج کو تاراج کرنا ہوتا ہے۔ دنیا کے بڑے تھنک ٹینکس کی ریسرچ ہمارے اداروں کے بارے میں کیا ہے؟ اس بارے ہم نے کم ہی غور کیا ہے۔ کبھی کبھار کوئی خبر مل جاتی ہے ورنہ اُن ویب سائٹس کے لنکس بھی ہمارے اچھے خاصے ریسرچرز کو نہیں معلوم جہاں کسی موضوع پر سائنسی بنیادوں پر ریسرچ دستیاب ہوتی ہے لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ جس دیس میں ابھی تک سرچ ہی کچھ نہیں ہوا وہاں ریسرچر کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ لیکن یہ معجزہ ہے، کرامت ہے، کچھ بھی ہے لیکن پاکستان میں ہے۔ لوگ سینے پر ہاتھ رکھ کر ریسرچر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور انہیں تسلیم کرنے والے بھی موجود ہیں لیکن آج ہماری پہلی ذمہ داری اِس ریاست کو بچانا ہے کہ وہ مداری جو روزانہ رسے پر کرتب دکھاتا ہے ایک د ن خبر آتی ہے کہ آج وہ اُسی رسے سے گر کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ بس بہت ہو چکا کھیل تماشا اب اسے بند ہونا چاہیے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.