سیاسی حوالے سے تجزیہ کرنے کے لیے بہت مواد ہے اتنا کہ ایک کالم تو کیا آج کے سیاسی، سماجی، معاشی، اقتدار کی راہداریوں، اقتدار کے پھیلے ہوئے سنگھاسن، عدالتی، نوکر شاہی کی چیرہ دستیوں، ننگے پاؤں، ننگے بدن پھرنے والے اس ارض وطن کے گوشت پر پلنے اور پلٹ کر ان کے لیے ہی دکھاوے کے دستر خوان لگا کر کراہت زدہ نام پانے والوں، دنیا ڈھونڈن والے در در پھرنے والوں!!! فٹ پاتھ، جھونپڑیوں، پلوں کے نیچے سونے والوں، ہسپتالوں میں عدم توجہ کے سبب دم توڑنے والوں، ڈاکٹروں کی غفلت سے مرنے والوں، روٹی کپڑا دوائی کے ہاتھوں مرنے والوں، بے کس باپوں، بے روزگار نوجوان بیٹوں کے دکھوں اور ان کو جبراً مقروض کرنے والوں، 100 کنال اور 700 کنال اور ہزاروں کنال کی سرکاری کوٹھیوں میں پڑے ہوئے کالے فرعونوں اور ان کی تواضع میں ہزاروں سرکاری ملازموں پر ماتحت عدلیہ تو پرانا قصہ ہوا، اب اعلیٰ عدلیہ میں بھی انصاف کے منتظروں، بعض خصوصی عدالتیں جو دراصل دکانیں ہیں، اینکروں، لکھاریوں کے جعلی اور فنڈڈ تجزیات پر کالم تو کیا کتابیں بھی کم ہے یہ دنیا والوں کے دلوں کی کہانی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے: پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اس سب کے بعد، سو وہ ہو گئے جیسے پتھر یا ان سے بھی سخت اور پتھروں میں تو ایسے بھی ہیں جن سے جاری ہوتی ہیں نہریں اور ان میں ایسے بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں اور نکلتا ہے ان سے پانی اور ان میں ایسے بھی ہیں جو گر پڑتے ہیں اللہ کے ڈر سے اور اللہ بے خبر نہیں تمہارے کاموں سے“۔(مفہوم)
اللہ کریم دل کے نہاں خانوں میں پیدا ہونے والے خیال، ذہن کے کروڑویں حصے کو چھو جانے والی بات کو بھی جانتا ہے۔ ابھی یکم محرم پہ نئے اسلامی سال کی مبارک چند پیغامات آئے ہیں۔ دعوے سے کہتا ہوں کہ ان میں سے 0.01 فیصد کو بھی اسلامی مہینے کے اعتبار سے اپنی تاریخ پیدائش معلوم نہیں۔ محرم کو ذہن میں رکھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ان کے علم میں ہے، ان کو بتایا گیا ہے کہ حضرت عمرؓ کا یوم شہادت بھی یکم محرم کو ہے۔ ہمارے
خاندان میں ایک بیٹی کی شادی تھی اور تاریخ 3 سے 5 جنوری طے ہو رہی تھی درمیان میں ایک تقریب 4 جنوری کی آئی تو 4 جنوری مجھے کھٹکنے لگی، ساتھ ہی یاد آیا کہ میری والدہ محترمہ کا چار جنوری 1998 کو وصال ہوا تھا لہٰذا وہ تاریخ نکال دی گئی۔ چلیں ان کی خوب موجیں ہیں جو محرم کو بھی نیا سال اور یکم جنوری کو بھی نیا سال منا کر دل بغدادی کرنے والے کوفہ بھی یاد رکھیں۔ بات کہاں کی کہاں چلی گئی۔ ارادہ تو تھا دل والوں کی دنیا پر بات کریں۔ عمران سیریز، نواز شریف کی واپسی، زرداری کی داستان، بلاول بھٹو کی آمد، مولانا فضل الرحمن کی سیاست، استحکام پاکستان، پی ٹی آئی پی، ق لیگ شرطیہ نئے پرنٹ کے ساتھ پر لکھنے والے مجھ سے زیادہ باخبر ہیں۔ لہٰذا ہم دل والوں کی دنیا میں میرزا عبدالقادر بیدل، جنہوں نے 5 مغل بادشاہ دیکھے، نے ایک قصیدہ لکھا جو چلتے چلتے شہزادہ اعظم تک پہنچ گیا اس نے پوچھا، یہ کہاں ہوتے ہیں اتنے بڑے لکھاری؟ جواب ملا کہ یہ آپ کے دربار میں ملازم ہیں، حکم دیا کہ ان سے کہیں ہمارے لیے لکھے۔ میرزا صاحب کو پیغام دیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ بیدل دوستوں کے لیے قصیدہ لکھتا ہے شاہوں کے لیے نہیں۔ گھر چلے گئے اور اگلے روز گھر سے ہی استعفیٰ بھیج دیا۔ خیال کی اڑان ہے کہ قابو میں نہیں۔ حضرت بہلول داناؒ یاد آ گئے۔ حضرت سیدنا سری سقطیؒ فرماتے ہیں: ایک بار مجھے قبرستان جانا ہوا۔ وہاں میں نے حضرت سیدنا بہلول داناؒ کو دیکھا کہ ایک قبر کے قریب بیٹھے مٹی میں لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: ”آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ جواب دیا: میں ایسی قوم کے پاس ہوں جو مجھے اذیت نہیں دیتی اور اگر میں غائب ہو جاؤں تو میری غیبت نہیں کرتی“۔ میں نے عرض کی: ”روٹی مہنگی ہو گئی ہے؟“ تو فرمانے لگے: اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم مجھے کوئی پروا نہیں، اگرچہ ایک دانہ دینار کا ملے۔ ہم پر اس کی عبادت فرض ہے جیسا کہ اس نے ہمیں حکم دیا ہے اور ہمارا رزق اس کے ذمہ کرم پر ہے جیسا کہ اس نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے“۔ ایک مرتبہ کسی نے کہا: ”بہلول! بادشاہ نے تمہیں پاگلوں کی مردم شماری کا حکم دیا ہے“۔ فرمایا: ”اس کے لیے تو ایک دفتر درکار ہو گا۔ ہاں دانا گننے کا حکم ہو تو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں“۔ ایک دن داناؒ بازار میں تھے لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ اللہ کو راضی کر لو، اللہ کو راضی کر لو۔ کچھ عرصہ بعد قبرستان میں بیٹھے تھے اور خود کلامی میں مبتلا تھے۔ بازار میں دیکھنے والے ایک شخص نے پوچھا، بہلول یہاں کا کر رہے ہو۔ کہنے لگے، کل تک ان سے کہہ رہا تھا کہ اللہ کو راضی کر لو آج یہ کہتے ہیں اللہ کو راضی کرا دو مگر اللہ نہیں مان رہا۔ زبیدہ خاتون کا مشہور واقعہ بھی حضرت بہلولؒ کا واقعہ ہے جو مٹی کا گھروندہ خریدا تھا اور اگلے روز خلیفہ نے بھی درخواست کر دی۔ خلیفہ ہارون الرشید بہلول دانا سے بہت سیکھتے اور ان سے رغبت رکھتے تھے۔ ایک دن دیکھا کہ بارش کی وجہ سے قبریں جو اکثر گر جاتی ہیں۔ داناؒ قبرستان میں بیٹھے سامنے ہڈیاں اور کھوپڑیاں رکھے ہوئے ہیں۔ خلیفہ کا گزر ہوا تو پوچھا، بہلول کیا کر رہے ہو۔ کہنے لگے، خلیفہ تیرا باپ بھی مر گیا دادا بھی، میرے بھی مر گئے۔ دیکھ رہا ہوں اس میں سے آپ کے باپ دادا اور میرے باپ دادا کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں کون سی ہیں۔
چند واقعات دل کی دنیا اور کچھ صورت حال دنیا والوں کے دلوں کی بیان کر سکا مگر اللہ کا دین کسی کا ڈی این اے ٹیسٹ نہیں، اس پر عمل ہے جو بالکل دنیا میں کھو جانے سے روکتا اور دنیا کو ترک کرنے سے بھی روکتا ہے۔ ایک آسان سیدھا راستہ ہے۔ صد افسوس کہ علماء دین کے نام سے شہرت پانے والے لوگ آج دیگر واقعات تو بہت سناتے ہیں۔ فرقوں کی سچائی اور مسالک کی بڑائی بیان کرتے ہیں مگر اللہ کا پیغام، دین، قرآن زندگیوں سے نکال دیا گیا ہے۔ جس پر اللہ کریم فرماتے ہیں: لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تا کہ ایک دوسرے کو شناخت کرو (اور) اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔ بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے۔ بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے ہیں، کہہ دو تم ایمان نہیں لائے لیکن تم کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں اورابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو تو تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا، بے شک اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔
اللہ جس کی بھلائی چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے (مفہوم)۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.