12اگست اور اس کے بعد، سیاستدانوں کا امتحان

88

آئین پاکستان کے مطابق 12 اگست 2023 اسمبلیوں کی مدت قیام ختم ہو جائے گی اور پھر 13 اگست کو نگران حکومتیں معرض وجود میں آ کر 60 دنوں کے اندر اندر انتخابات کرا کے نئی اسمبلیاں قائم کرانے اور حکومتیں بنوانے کی پابند قرار پائیں گی۔ آئین کے مطابق اگر کوئی بھی اسمبلی اپنی مقررہ مدت سے پہلے تحلیل کی جاتی ہے تو پھر انتخابات کی مدت 90 روز ہوتی ہے عمرانی دور حکمرانی میں پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں مقررہ مدت سے پہلے توڑدی گئیں تو وہاں 90 روز میں انتخابات کرانے قرار پائے تھے لیکن آئین کے مطابق قبل از وقت اسمبلی تحلیل کرنے کے لئے ناگزیر حالات کی موجودگی بھی ضروری ہے گو اسمبلی تحلیل کرنا، وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کا اختیار ہوتا ہے لیکن وہ اس اختیار کو ڈکٹیٹر کی طرح من مرضی سے استعمال نہیں کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دو صوبائی اسمبلیاں قبل از وقت تحلیل کرنے کے بعد یہاں ایک ایسا بحران پیدا ہوا جس کی ہماری آئینی و سیاسی قومی تاریخ میں کہیں بھی مثال نہیں ملتی ہے پنجاب اور کے پی کے میں نہ تو 90 روز میں انتخابات کرائے جا سکے اور نہ ہی سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل ہو سکا۔ پنجاب میں قائم نگران حکومت جس کی عمر 90 دن تھی، ابھی تک قائم ہے 90 دن بھی گزر گئے سپریم کورٹ کی حکم کردہ تاریخ بھی گزرگئی انتخابات نہیں ہو سکے لیکن حکومت ابھی تک قائم ہے 4 ماہی بجٹ بھی پیش کر چکی ہے اور اب 13 اگست کے بعد 60 دنوں کے اندر اندر انتخابات کرانے کی ذمہ داری بھی یہی حکومت نبھاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جہاں تک کے پی کے نگران حکومت کا تعلق ہے اس کی زندگی یا موت بارے کوئی بحث ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہے حالانکہ وہاں بھی آئین پاکستان لاگو ہوتا ہے 90 دنوں میں اس حکومت نے بھی انتخابات کرانے تھے انہوں نے نہیں کرائے، سپریم کورٹ نے کوئی نوٹس نہیں لیا کوئی حکم جاری نہیں کیا۔ اس صوبائی حکومت کی آئینی حیثیت کیا ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے لیکن وہ چلتی جا رہی ہے اغلب امکان یہی ہے کہ 13 اگست کے بعد بھی یہی حکومت چلے گی اور 60 دنوں میں انتخابات کرانے کی ایک بار پھر پابند ہو گی۔
اس وقت سب سے اہم سوال جو ہماری قومی سیاست و صحافت میں گردش کر رہا ہے کہ کیا 12 اگست کے بعد 60 دنوں میں انتخابات کے ذریعے نئی حکومتیں قائم ہو جائیں گی؟ جاری حکومت (مرکزی حکومت) 28/27 دنوں بعد 12 اگست کی رات 12 بجے تک اپنی آئینی مدت پوری کرکے ختم ہو
جائے گی اور 13 اگست ملک پر عبوری حکومت نافذالعمل ہو گی۔ پھر 60 دنوں کے اندر اندر انتخابات کے ذریعے نئی اسمبلی قائم ہو گی اور نئی حکومت قائم ہو چکی ہو گی۔ یہ بات نارمل حالات میں پوری ہوگی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انتخابات کے حوالے سے ابھی تک کسی قسم کی کوئی کارکردگی یا سرگرمی کہیں بھی نظر نہیں آ رہی ہے حکمران اتحاد، اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے، 13 جماعتی حکومتی اتحاد میں شامل ہر جماعت شریک اقتدار ہو کر مزے لوٹ رہی ہے، بادی النظر میں ہر قابل ذکر جماعت اس وقت شریک اقتدار ہے کسی کو اقتدار سے علیحدہ ہونے میں دلچسپی نظر نہیں آ رہی ہے عہدوں کی بندر بانٹ جاری ہے اتحادی حکومت نے 15 مہینوں میں ایک اہم کام ضرور کر دکھایا ہے اور وہ ہے آئی ایم ایف سے قرض کا حصول۔ جس آئی ایم ایف کو سابقہ حکومت نے اپنی حرکات کے باعث ناراض کر دیا تھا، اتحادی حکمران اسے منا کر واپس لے آئے ہیں، 1.1 ارب ڈالر کے بجائے 3 ارب ڈالر کا قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں یہ بہت بڑی کامیابی ہے جس کا کریڈٹ اتحادی حکمرانوں کو بالعموم اور شہباز شریف کو بالخصوص دینا چاہئے ہم ڈیفالٹ کے دھانے تک پہنچے ہوئے تھے ہماری عالمی و علاقائی ساکھ شدید متاثر ہو چکی تھی ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں ہمارے دوست ممالک بشمول چین، سعودی عرب وغیرہ بھی ہمارے سر پر دست شفقت رکھنے سے گریزاں ہو چکے تھے لیکن شہباز شریف و اسحاق ڈار وغیرہم کی چابکدستیوں اور قرض مانگنے اور مانگتے ہی رہنے کی شاندار صلاحیتوں نے کام کر دکھایا اور 1.1 ارب ڈالر قرض کی درخواست کر کے 3 ارب ڈالر کا قرض لے اڑے اب ہماری معاشی صورتحال کسی بھی فوری دباؤ اور ڈیفالٹ کے خطرے سے مکمل طور پر باہر ہو گئی ہے عالمی ادارے بھی مثبت خبریں دے رہے ہیں۔ معاشی اشاریے بدستور بہتری کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کو منانے کی قیمت بھاری ٹیکسوں اور ناقابل برداشت مہنگائی کی شکل میں عوام ادا کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔ اس حوالے سے کسی قسم کے ریلیف یا صورتحال میں تبدیلی کے امکانات نہیں ہیں کیونکہ جاری آئی ایم ایف، عارضی ریلیف 9 ماہی ہے جس کے دوران 3 ارب ڈالر کا قرض قسطوں میں جاری کیا جائے گا۔ پہلی قسط کے طور پر 1.2 ارب ڈالر ہمیں مل بھی چکے ہیں اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی ہدایات بلکہ احکامات بھی سننے میں آ رہے ہیں کہ پاکستان کو کیا کیا کرنا ضروری ہے سخت مانیٹری پالیسی کا مطلب گردش زر میں کمی ہوتا ہے جسے بلند شرح سود نافذ کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔ سردست ہمارے ہاں شرح سود 22 فیصد ہے جو پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے اس بلند شرح سود پر صنعت کار، سرمایہ حاصل نہیں کر سکتا ہے بلکہ زر، گردش کے بجائے کھاتوں میں رہنا زیادہ بہتر سمجھتا ہے کہ بچتیں کرو، کھاتوں میں پیسے رکھو اور بلند شرح سود کے ساتھ نفع اندوزی کرو۔ ایسا ہی ہو رہا ہے سرمایہ کاری رک چکی ہے شرح میں مزید بلندی صنفی و معاشی ترقی کے لئے زہر قاتل ثابت ہو گی۔
بہرحال آنے والے دن، ہماری سیاست کے لئے ہی نہیں بلکہ سیاستدانوں کے لئے انتہائی اہم ہونگے سر دست اسٹیبلشمنٹ کنارے پر کھڑی ہے سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کئے ہوئے ہے اب قوم سیاستدانوں کے قول و فعل کو دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ کس قدر ذہانت، دیانت اور آئین پروری کا تیرت دیتے ہیں۔ آئین کی پاسداری میں ہی سب کی بھلائی ہے آئین بنایا بھی سیاستدانوں نے ہے یہ ہماری بنیاد ہے اس پر عمل درآمد میں ہی ہماری بقا و فلاح ہے اب بظاہر تو کسی اور عامل کی مداخلت نظر نہیں آ رہی ہے اس لئے سیاستدانوں کو آئین کے مطابق، انتخابات کرانے کا فیصلہ کر کے اپنے اوپر لگے متفرق الزامات کو دھو ڈالنا چاہئے۔

تبصرے بند ہیں.