آئی ایم ایف: "معاہدے حدیث نہیں ہوتے”

72

کچھ معاہدے بڑے شرمناک ہوتے ہیں مگر مجبوریوں میں آکر کرنا پڑتے ہیں۔ 1790ء میں تیسری اور آخری جنگ پلاسی یا جنگ میسور سے پہلے ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت اپنی آدھی سلطنت اور بھاری تاوان انگریزوں کے حوالے کر دیئے۔ ٹیپو سلطان کا مقصد یہ تھا کہ انگریزوں کو کسی طرح ہندوستان پر قبضے سے روکا جائے اوراُسے یقین تھا کہ آنے والے وقت میں وہ اپنی شکست کا بدلہ لے لے گا۔ آدھی سلطنت بھی واپس مل جائے گی لیکن اس کے اپنے لوگوں کی غداری کی وجہ سے اسے اپنے ہی دارالحکومت میں اپنے ہی قلعے میں محصور ہونا پڑا جہاں آخر کار لارڈWolselle کے فوجیوں نے اُسے شہید کر دیا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ گزشتہ سال نومبر سے جاری مذاکرات کا ڈیڈ لاک ختم ہو چکا ہے اور انہوں نے پاکستان کے لیے 3 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کر لیا ہے جسے وزیراعظم شہباز شریف اپنی بہت بڑی فتح قرار دے رہے ہیں۔ یہ اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ یہ ڈیڈ لاک گزشتہ حکومت کا پیدا کیا ہوا ہے جنہوں نے پٹرول کی قیمت میں 100 روپے فی لیٹر اضافہ کرنے کا معاہدہ کیا اور عدم اعتماد آنے پر جب اپنی حکومت جاتی دیکھی تو قیمت میں اضافہ کے بجائے 20 روپے کمی کر دی بجلی کی قیمت کم کر دی جس سے معاشی ڈھانچہ زمین بوس ہو گیا لیکن جو معاہدہ 9 ماہ کی تاخیر سے ہوا ہے اس میں فتح یا رقص و سرور یا خوشیاں منانے کا کوئی پہلو نہیں ہے جیسے ہی وقت آگے بڑھے گا مہنگائی میں مزید اضافہ ہونا ہے بجلی کی قیمت بڑھنی ہے، پٹرول مہنگا ہونا ہے، ڈالر کا نیچے آنا عارضی ہے، یہ خوشیاں منانے کا وقت نہیں ہے۔
اس وقت ہمارے انرجی سیکٹر پر 21.58 بلین ڈالر کا قرضہ ہے ملک میں افراط زر کی شرح 38 فیصد ہے جو ایشیا میں سب سے زیادہ ہے گویا اس وقت افغانستان کی معاشی حالت بھی پاکستان سے بہتر ہے۔ نئے معاہدے کے تحت 385 ارب کے نئے ٹیکس لگنے جا رہے ہیں جو 1.3 بلین ڈالر بنتا ہے یعنی یہ اتنی ہی رقم ہے جتنی ہمیں پہلی قسط ملی ہے۔ ملک میں شرح سود 22 فیصد کی سطح پر ہے جس کی وجہ سے قرض لے کر نیا کاروبار کرنا ممکن نہیں جبکہ کاروباری سیکٹر کی Cost of doing business آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ اگلے دو سال میں پاکستان کو ماضی کے واجب الادا قرضوں کی واپسی کی مدمیں 25 سے 30 بلین ڈالر واپس کرنا ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو مجبور کیا ہے کہ ڈالر پر Exchange Cap ہٹا دے اور بین الاقوامی پیش گوئی یہ ہے کہ اگلے سال تک ڈالر 340 تک پہنچ چکے ہیں اس سال یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔ قدرتی آفات کی وجہ سے گزشتہ سال کے سیلاب میں ہماری معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ روس یوکرائن جنگ کا نقصان بھی ہمیں اٹھانا پڑا تیل اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ اس دوران گزشتہ حکومت کے دور میں پاکستان گندم برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست سے نکل کر گندم درآمد کرنے والا ملک بن گیا اور روس سے دو گنا قیمت پر گندم خریدنا پڑی۔ اس وقت سب سے زیادہ مہنگائی غذائی اشیا کی قیمت میں ہے۔ امپورٹ پر پابندی زرمبادلہ بچانے کے لیے لگائی گئی تھی جس سے ملک میں تجارتی سرگرمیوں میں مزید کمی آگئی جس سے ایکسپورٹ پر بھی اثر پڑا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ یہ ساری تصویر کشی اس بات کی غماز ہے کہ موجودہ حکومت قرضہ لینے میں تو کامیاب ہوئی ہے لیکن اس کی مقبولیت انتہائی سطح پر مجروح ہو چکی ہے جس کا خمیازہ انہیں آئندہ انتخابات میں بھگتنا پڑے گا اس کا سب سے زیادہ اثرن لیگ پر آئے گا کیونکہ باقی جماعتیں جونیئر پارٹنر ہیں۔
تحریک انصاف کے 4 سالہ طرز حکمرانی کو دیکھ کر عوام نے اب سمجھ لیا ہے کہ پہلے دو جماعتوں کی باریاں لگی ہوئی تھیں اب یہ 3 ہو گئی ہیں جبکہ کوئی بھی ڈلیور کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ PTI نے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا لیکن جن پرستاروں کا جماعت کے ساتھ چاند اور چکور والا عشق ہے وہ قائم ہے۔
اگلے مہینے نگران حکومت بننے جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے جمہوری اداروں کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ 140 ممبران قومی اسمبلی سے استعفے دلوا کر میدان PDM کے لیے بالکل خالی کر دیا۔ اب جبکہ نگران حکومت تشکیل کرنے کا وقت ہے اگر وہ اسمبلی میں موجود ہوتے تو نگران سیٹ اپ ان کی مرضی کے بغیر نہیں بن سکتا تھا۔ اب حکومت اپنی من مانی سے نگران وزیراعظم اور کابینہ تشکیل دے گی اس کا ملک کو نقصان یہ ہو گا کہ یہ حکومت کے وفادار لوگ ہوں گے جس سے اگلے انتخابات کی غیر جانبداری مشکوک ہو جائے گی جسے اپوزیشن تسلیم کرے گی اور نہ ہی بین الاقوامی طور پر ان کی ساکھ سلامت رہے گی۔ گویا انتخابات منعقد ہونے سے پہلے ہی مشکوک ہو جائیں گے۔
اسی اثنا میں اس طرح کی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ نگران حکومت بن تو جائے گی لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ اپنی تین ماہ کی معیاد پوری کر کے گھر چلی جائے یہ سلسلہ صوبائی نگران حکومتوں کی طرح طوالت اختیار کر سکتا ہے اور جب ایک دفعہ آئینی مدت کو over step کر دیا جائے تو پھر یہ matter نہیں کرتا کہ آئین سے انحراف ایک دن کا ہے یا ایک ماہ کا ہے یا ایک سال کا ہے پھر راستہ open ہو جاتا ہے۔
جہاں تک اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کی کارکردگی کا تعلق ہے تو اس پر متضاد آرا آ رہی ہیں کچھ دیوانے تجزیہ کار (PTI خود اپنے آپ کو جنون کہتی ہے جس کا مطلب دیوانہ یا پاگل) یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ الیکشن نہیں بلکہ PTI کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے ریفرنڈم ہے۔ جس میں PDM پر فارمنس سٹینڈ نہیں کرتی مگر یہ رائے حقیقت سے اتنے ہی فاصلے پر ہے جتنے ہمارے سیاستدان جمہوریت سے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو اس کی پارٹی قیادت نے 9 مئی کے فوراً بعد تنہا چھوڑ دیا تھا۔ دوسری طرف ان پر توشہ خانہ اور قادر ٹرسٹ کے مقدمات خاصے سنگین ہیں جن میں ان کا بری ہونا بظاہر ناممکن ہے ان کا ایک منحرف گروپ استحکام پاکستان کے نام سے وجود میں آچکا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر ستمبر وسط سے پہلے انہیں سزا ہوتی ہے تو عدالتیں انہیں out of way ریلیف کے لیے تیار بیٹھی ہیں لہٰذا Wait & Watch گیم جاری ہے کہ نیا چیف جسٹس آجائے یہاں تو عدالتوں نے ایسی قانون شکنی پر بھی ضمانت دی ہے جو ابھی ہوئی نہیں۔ بہرحال قوس قزح میں سات رنگ ہوتے ہیں لیکن پاکستانی سیاست کے رنگوں کی تعداد قوس قزح سے دوگنی چوگنی ہے یہاں سب چلتا ہے۔ ہمیں تو آئی ایم ایف کا معاہدہ جنگ میسور کی یاد دلاتا ہے۔ مگر بقول آصف زرداری معاہدے حدیث نہیں ہوتے۔

تبصرے بند ہیں.