ہم نہ کہتے تھے

107

بہاروں کے پس پردہ خزاں ہے ہم نہ کہتے تھے
چمن کی خاک میں آتش فشاں ہے ہم نہ کہتے تھے
تحریک آزادی ہند سے تحریک پاکستان اور تحریک بحالی جمہوریت سے اب تک قوم حالت تحریک میں ہے، راہ ملی نہ منزل۔ اس لیے کہ نیت میں بھلائی نہیں مفاد ہوا کرتا تھا اور ہے۔ سابقہ کرپشن کو ہم نے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کر کے بھول جانے کی کوشش کی۔ بہرحال اگلے دن میں مبشر لقمان کا پروگرام دیکھ رہا تھا، وہ عمران نیازی کو نفسیاتی مریض، شدید ذہنی مریض قرار دے رہے تھے اور مجھے 2014 کے دھرنے میں عمران کے کنٹینر پر موجود مبشر لقمان یاد آ رہے تھے۔ کیا یہ وہی دور نہیں تھا جب عمران خان نیازی اپنے گھر کے گیٹ پر آئے اور 50 پُش اپ لگا دیے، کیا کوئی ایسا شخص جو قوم کے سامنے اپنے آپ کو انقلابی لیڈر اور وزیراعظم کے طور پر پیش کرے وہ ایسی حرکت کر سکتا ہے؟ کیا یہ کسی ذہنی مریض کی حرکت نہ تھی مگر مبشر لقمان کو تب احساس نہ ہوا کہ دراصل یہ دوہری شخصیت (Personality Disorder) کا مکمل نمونہ ہیں۔ قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ 2014 کے دھرنے کے لیے نیازی صاحب کو یقین اور اطلاع تھی کہ ابھی لاہور میں ہی ہوں گے کہ نواز شریف استعفیٰ دے دیں گے لہٰذا یہ 7/8 ہزار لوگوں کو لے کر رات لاہور میں ہی گھومتے رہے۔ پھر اطلاع ہوئی کہ گوجرانوالہ تک جانا پڑے گا۔ لاہور میں ان کے دونوں بیٹے بھی موجود تھے اور عوام کو دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ گوجرانوالہ پہنچ کر جب اس کے شرکا نے بدمعاشی کی تو وہاں سے جوتوں، اینٹوں اور پتھروں سے جواب آیا لہٰذا نیازی صاحب نے گوجرانوالہ کھانا کھایا، آرام کیا ٹرک پر جواب میں پتھر پڑنے پر اپنے دونوں بیٹوں کو واپس بھیج دیا۔ یہ اور قادری صاحب قوم کے بچے لے کر اسلام آباد پہنچ گئے۔ 9 مئی کو بھی اس نے قوم کے بچے استعمال کیے اور اپنے بچے لندن میں عیش کر رہے ہیں۔ دھرنا میں شمولیت کے لیے وزیراعلیٰ کے پی کے کی سربراہی میں قافلہ وفاقی حکومت کے خلاف چڑھائی کے لیے آ رہا تھا۔ ایک غدر تھا، ملک میں آئین اور قانون، حکومت اور ادارے جیسے وجود ہی نہیں رکھتے تھے۔ یہ 2014 کی بات کر رہا ہوں۔ نیازی صاحب کا مسکراتے ہوئے بیان تھا ”میں کچھ بھی کر سکتا ہوں“۔ یعنی پشاور کی طرف بنی گالہ سے نکل کر لشکروں سے لشکر ملا سکتا ہوں۔ تب کسی کو معلوم نہیں ہوا کہ یہ کون ہے، کیا نظریہ رکھتا ہے؟ اگلے روز ایک کلپ دیکھ رہا تھا شہباز شریف بطور اپوزیشن لیڈر کہہ رہے تھے کہ دیوار کے ساتھ لگانا تو سنا تھا مگر جناب وزیراعظم آپ تو اپوزیشن کو دیواروں میں چن رہے ہیں۔ اس پر عمران نیازی کا قہقہہ دیکھ کر مجھے تاریخ میں کھوپڑیوں کے مینار لگانے والے کے قہقہے یاد آ گئے۔ کسٹم کی نوکری سے کرپشن کے الزام پر نکالا جانے والا معید پیرزادہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو جھوٹ سنا رہا ہوتا ہے، اب تازہ وی لاگ میں نیازی جو دیواروں سے تقریر کر کے قوم سے خطاب کا نام دیتا ہے، آئی ایم ایف کا قرضے کے لیے شکریہ ادا کر رہا ہے جبکہ آئی ایم ایف کا بیان ہے کہ اس کی حکومت میں یعنی پچھلا معاہدہ توڑنے سے مہنگائی بڑھی۔ حکمرانی ملی صرف اداکاری کی۔ مخالفین کو بنیادوں میں چنا، کرپشن کی سرپرستی کی، سازشیں کیں، حسد، بغض کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ آئین، قانون کو روند ڈالا۔ معاشرت برباد کر کے رکھ دی۔ جھوٹ کو اصول سیاست بنایا۔ کس کو علم نہیں کہ نیازی صاحب کو کون لے کر آیا تھا۔ یہ جب بڑا مقبول تھا بہت طوطی بولتا تھا تب بھی مقبولیت کے حوالے سے میاں نواز شریف کی دھول کو نہیں چھو سکتا تھا۔ اس کو جتوا کر سلیکٹ کر کے مسلط کیا گیا اور اس کی حفاظت کی گئی یعنی حکومت گیری کی حفاظت۔ میں نے ارادہ کیا تھا اس ماضی بنتے ہوئے شخص کے متعلق بات نہیں کروں گا۔ مگر یہ جھوٹ اس روانی سے بولتا ہے کہ خاموشی جرم بن جاتی ہے۔ جب یہ بہت بڑا لیڈر تھا تب تیسرے نمبر پر بھی نہ تھا، حکومت ملنے کے بعد جب لانے والوں پر عام آدمی لعن طعن کرنے لگا تو انہوں نے اس بوجھ کو اٹھانے سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے سیاست میں عدم مداخلت کا ارادہ کیا۔ یہ
ارادہ نیازی صاحب کو کاٹ گیا۔ بلاول بھٹو نے تب ہی کہا تھا کہ ایک ادارے میں اس کی حمایت کم ہوئی ہے مگر دوسرے ادارے میں ابھی جاری ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ ہماری عدلیہ غیر جانبدار نہیں، عمران دار ججز اور مخصوص بینچز اس کے لیے ڈھال بن گئے۔ مگر قدرت کے فیصلے میں کون آڑے آ سکتا ہے۔ ٹرمپ نے جب امریکہ کے 200 سالہ جمہوری نظام کے خلاف آئین اور قانون روایات اور امریکی تہذیب کو نظر انداز کرتے ہوئے شورش کی، مجھے امریکہ میں دوستوں نے کہا ٹرمپ نے دو تین جج مقرر کیے ہیں وہ اس کی انتخابات کے نتائج اور مقدمات میں مدد ضرور کریں گے۔ میں نے کہا یہ پاکستانی عدالتیں نہیں کہ جس نے تعینات کیا یا کسی کی دوستی میں اپنے ملک کے نظام کی قربانی دے دیں۔ بالآخر ٹرمپ گرفتار ہوا۔ مگر ہمارے ہاں تو ساس کا نام بہت چلا۔ عدم اعتماد سے حکومت ختم ہوئی، نیازی صاحب کی اصلیت کے تمام پردے ہٹ گئے، باطن باہر آ گیا۔ جو لائے تھے در پردہ ان کی حمایت پر، بھارت، صہیونی، ارض وطن میں موجود شر پسندوں، امریکہ، جو چائنہ سے معاشی جنگ پاکستان میں لڑ رہا ہے، کی حمایت اور آشیر باد سے 9 مئی کو ملک دشمنی میں بربریت نے برہنہ رقص کیا۔ نیازی صاحب گرفتار ہوئے 9 مئی اس کا رد عمل بتانے لگے جب معاملہ بہت سنگین دیکھا تو حکومت پر الزام رکھ دیا۔ بہرحال جب عدالتوں نے احاطہ عدالت سے گرفتاری غلط قرار دی تو میں حیران تھا کہ ساری زندگی ایسا کوئی ضابطہ، قانون، آئینی مشق نظر سے نہیں گزری تو پھر عرفان قادر صاحب سے رابطہ کیا کہ احاطہ عدالت سے ملزم کی گرفتاری نہیں ہو سکتی۔ ان کا جواب تھا”کوئی قانون نہیں روکتا البتہ کمرہ عدالت سے گرفتار نہ کرنا ایک روایت ہے“۔ اپنے ملک میں جو چل رہا ہے سب کو علم ہے۔ مریم نواز، نوازشریف جھوٹے مقدمات میں جیل کاٹیں اور خان صاحب سچے مقدمات میں پیش نہ ہوں، یہ ڈرامہ نہیں چل سکتا۔ میں ہٹلر کے وقت میں ہولو کاسٹ کا دور پڑھ رہا تھا آپ یقین کریں نیازی دور کی بڑی مماثلت محسوس ہوئی۔ 75 سال کا قرضہ ایک طرف اور ساڑھے تین سال میں اس کا 80 فیصد ایک طرف، 75 سال میں لائی گئی بہتری ایک طرف اور ساڑھے تین سال کی بربادی ایک طرف تو پھر یاد اتا ہے جانباز مرزا:
بہاروں کے پس پردہ خزاں ہے ہم نہ کہتے تھے
چمن کی خاک میں آتش فشاں ہے ہم نہ کہتے تھے

تبصرے بند ہیں.