ولایتی انڈے اور ولایتی غنڈے

78

مرغبانی سے دلچسپی رکھنے والے دیسی اور ولایتی مرغ کا فرق خوب جانتے ہیں۔ دیسی مرغ نجیب الطرفین دیسی ہوتا ہے یعنی اس کے ممی اور ڈیڈی دونوں کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے جبکہ ولایتی مرغ کہلاتا تو ولایتی ہے لیکن اس نے کبھی ولایت کی شکل زندگی میں نہیں دیکھی ہوتی۔ کچھ لوگ عرصہ دراز تک یہی سمجھتے رہے کہ شاید وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور اس نے ولایت سے کوئی ڈگری حاصل کی ہوتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ مرغ دیسی ہو یا نام کا ولایتی، دونوں کی تعلیم قریباً ایک جیسی ہی ہوتی ہے آپ چاہیں تو دونوں کو کم تعلیم یافتہ یا دونوں کو ان پڑھ سمجھ لیں۔ دونوں میں ایک فرق بہت واضح ہے اور اسی فرق سے انسان ہو یا مرغ بہت فرق پڑتا ہے۔ دیسی مرغ کا شجرہ نسب بہ آسانی دستیاب ہوتا ہے جبکہ ولایتی مرغ کی صرف ممی کا علم ہوتا ہے اس کے ڈیڈی کے بارے میں کوئی نہیں جانتا وہ کون تھا کہاں سے آیا تھا اس کی ممی کا بھی صرف اس لیے اتا پتہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ انڈے سے باہر نکلتا ہے ایسا نہ ہوتا تو شاید اسکی ممی کے بارے میں بھی وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہوتا کوئی اسے بطخ کی اولاد کہتا تو کوئی اْسے کچھوے کا بچہ کہتا۔ کچھ لوگ اسکے گورے رنگ سے جیلس ہو کر یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اسے تو کوئی اپنا گناہ چھپانے کیلئے لفافے میں ڈال کر سڑک کنارے چھوڑ گیا تھا۔ غرض کہ جتنے منہ موجود ہوتے اتنی ہی کہانیاں سننے میں آتیں۔ دیسی مرغ کو صاحب کردار کہا جا سکتا ہے جبکہ ولایتی مرغ کے حسب ونسب پر شک کرنے کے علاوہ اسکا کردار بھی مشکوک نظر آتا ہے، محکمہ پولٹری سے درخواست کی جائے کہ آپ حکومت پاکستان کی پالیسی برائے مرغبانی کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو وہ آپ کو ایک دیسی مرغ اور چار مرغیاں مناسب قیمت پر دیں گے۔ یہ چار مرغیاں، اس مرغ کے عقد میں رہیں گی اور فرائض زوجیت مروجہ اصولوں کے مطابق ادا کرتی رہیں گی۔ اول تو وہ کسی ولایتی مرغ کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھیں گی اگر کبھی بھولے سے پہلی نظر پڑ بھی گئی تو دوبارہ اسے کبھی نہ دیکھیں گی، یہی کردار دیسی مرغ کا ہوتا ہے، وہ بھی کسی ولایتی مرغی کی طرف کبھی نظر بد نہیں ڈالتا۔
دیسی اور ولایتی مرغ میں کردار کا جو فرق ہے وہی اثر ان مرغیوں کے انڈوں میں ہے۔ آپ دن میں چار ولایتی انڈے کھا لیں آپ کو جسم کے کسی حصے میں اس کا اثر محسوس نہیں ہوگا جبکہ ایک دیسی انڈا کھانے کے بعد آپ کو لگ پتہ جائے گا، جو فرق دیسی انڈوں اور ولایتی انڈوں میں ہے وہی فرق دیسی غنڈوں اور ولایتی غنڈوں میں بھی ہے آپ کے علم میں ہے 9 مئی کے تخریب کاری کے واقعات کے بعد جب متعدد مرد و خواتین کی گرفتاریاں ہو چکیں تو ایک اور گھناؤنا منصوبہ بنایا گیا جس کا راز قبل از وقت فاش ہو گیا جس کے بعد رات دس بجے کے قریب پولیس رینجرز کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لاہور میں ڈیفنس گلبرگ اور ماڈل ٹاؤن کے علاقوں میں گشت شروع کر دیا، کیفیت کچھ ریڈ الرٹ کی سی تھی، کچھ اہم شخصیات سے صورتحال کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو جواب ملا کہ سب کچھ حفظ ما تقدم کے زمرے میں آتا ہے اس سے زیادہ کچھ بتانا سر دست ممکن نہیں، رات گئے وزیر داخلہ جناب رانا ثنا اللہ صاحب نے عجلت میں ٹی وی پر خطاب کیا اور معاملے پر کچھ روشنی ڈالی لیکن بہت کچھ پھر بھی راز میں رہا۔ ٹیریان کے ڈیڈی اور ہمنواؤں نے منصوبے کے مطابق ایک ریپ سین تیار کرایا اور اس کے ریلیز کرنے سے پہلے ولایتی غنڈوں کی میٹنگ بلا کر انہیں یہ کلپ متعدد بار دکھایا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ ظالموں نے زندان میں آپ کی باجیوں کی عزت لوٹ لی ہے اگر اس پر احتجاج نہ کیا گیا تو جانے اور کس کس کے ساتھ یہی سلوک ہو پس ابھی اسی وقت ساتھیوں کو اکٹھا کرو، غیرت کا مظاہرہ کرو اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دو، بیرون ملک میڈیا ٹیمیں بھی ہدایات کی منتظر تھیں۔
ولایتی غنڈے وہاں سے ہدایات لے کر اٹھے اور انہوں نے لاہور ڈیفنس میں کسی جگہ صورتحال پر غور کرنے کیلئے اور مزید مشاورت کیلئے جمع ہو کر مختلف پہلوؤں پر سوچا جس کے بعد تقریبِ غوروفکر میں شریک تمام افراد نے فیصلہ کیا کہ اگر واقعی جیل میں خواتین کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو یہ کوئی بہت بڑا یا سنگین واقعہ نہیں ہے، ضروری نہیں کہ سب کچھ اس طرح ہوا ہو جس طرح بتایا گیا ہے۔ عین ممکن ہے اس میں فریقین کی ”میراجسم میری مرضی“ والی سوچ بھی شامل ہو پس یہ معمول روٹین کا واقعہ ہے اس پر ملک گیر احتجاج یا ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا کوئی جو از نہیں، یہ سوچ بھی سامنے آئی کہ گرفتاریوں کے بعد قائدین نے کسی کی کوئی خبر گیری نہیں کی بلکہ چوہوں کی طرح اپنے اپنے بلوں میں چھپ گئے لہٰذا خواہ مخواہ اس چھوٹے سے واقعے کو غیرت کا مسئلہ نہ بنایا جائے بلکہ ”چِل“ کیا جائے، ولایتی غنڈوں نے اس فیصلے کے بعد سفید نسوار کی تین تین لکیریں اپنے اندر اتاریں، ولایتی میوزک سنا، ولایتی مجرے دیکھے اور اپنے اپنے گھر کی راہ لی، ولایتی غنڈوں کی اس مثبت سوچ کے نتیجے میں ملک مزید انتشار کا شکار ہونے سے بچ گیا۔ ذرا تصور کیجئے اگر ان ولایتی غنڈوں کی جگہ دیسی غنڈے ہوتے تو کیا ستم ڈھاتے، یوں غیرت کارڈ استعمال کرنے کی کوشش نا کام ہوئی۔ ولایتی انڈے اور ولایتی غنڈے ایک ہی جیسے نکلے۔

تبصرے بند ہیں.