کہا جاتا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں ”سفید انقلاب“ کی اصطلاح شاہ ایران نے اس وقت استعمال کی جب وہ اپنی ریاست کو جدید اور مغربی خطوط پر استوار کرنا چاہتے ہیں، معاشرتی، اقتصادی اصلاحات کو انھوں نے سفید انقلاب کا نام دیا، یہ چھ شقوں اور بلوں پر مشتمل تھا،جن میں قابل ذکر زرعی اصلاحات اور جاگیر داری کا خاتمہ،تمام جنگلوں کو نیشنلائزڈ کرنا،صنعتی انتظامیہ کو منافع میں شریک کرنا،انتخابات کے قوانین میں تبدیلی،تعلیم کو لازمی قرار دے کرس خواندگی کا نصاب تشکیل دینا شامل تھا، عوامی سطح پر اس پروگرام کو زیادہ پذیرائی نہ مل سکی،حزب مخالف نے اس پر تنقید کی تو شاہ کو پولیس پر انحصار کرنا پڑا۔باالفاظ دیگر یہ سافٹ قسم کا ایک انقلاب تھا جس کا مقصد سماج میں نمایا ں تبدیلی لانا تھا۔یہ تحریک خونی انقلاب سے یکسر مختلف تھی۔شہنشاہ ایران کو پذیرائی نہ ملنے کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے یہ پروگرام اسوقت متعارف کرایا جب انکے اقتدار کی کشتی ڈوب رہی تھی۔
ساٹھ کی دہائی میں ہماری صنعت کا بھی عروج تھا،واکس گاڑی،بیڈ فورڈ ٹرک،اٹالین ویسپا،میسی ٹریکٹر،پک اپ، ایکسائیڈ بیٹری اسکی بڑی مثالیں ہیں جو یہاں بن رہی تھیں،سوشل ازم کے بخار میں مبتلا مسٹر بھٹو کے ذہن میں ”سفید انقلاب“ لانے کی دھن سوار ہوئی، انھوں نے بغیر ہوم ورک کئے اصلاحات کے نام پر31 صنعتی یونٹ، 13 بنک 14 انشورنس اور 2پٹرولیم کمپنیاں قومی تحویل میں دے دیں،جو زرعی اصلاحات نافذ ہوئی، اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں، مگر اس کے بعد صنعتی ترقی اس ملک کے لئے ایک خواب بن کر رہ گئی۔قائدعوام سوشلزم کے نام پر انقلابی تبدیلی لانے میں اس لئے ناکام ہوئے کہ شاہ ایران کی طرح انھیں بھی عوامی پذیرائی نہ ملی۔
دنیا اس وقت نئے دور میں داخل ہے، علاقائی تعلقات فروغ پا رہے ہیں، سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد معاشی اورعوامی آسودگی کا حصول سب ممالک کا بڑا ہدف ہے، کلیدی کردار اب چین ادا کر رہا ہے، اگرچہ وہ تائیوان کے دیرینہ ایشو پر مفاہمت کرنے کو تو تیار نہیں مگر ون بلٹ ون روڈ کے معاشی پروگرام کی کامیابی کے لئے وہ سب سے ہاتھ ملا رہا ہے، ایران،سعودی تعلقات میں پیشرفت مشرق وسطیٰ میں بڑی سفارتی کامیابی ہے،اس لئے بھی کہ پاور پالیٹکس میں سعودی عرب کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،اسی تناظر نے چین نے سعودیہ کے ساتھ تیس معاہدے کرتے ہوئے 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے، اس کے بہت مثبت اثرات علاقائی اقتصادی ترقی پر ہوں گے، ماہرین کا خیال ہے کہ فوری طور پر دس لاکھ ملازمتوں کے نئے مواقع سعودی عرب میں پیدا ہوں گے۔
چین کی خارجہ پالیسی کا یہ سنہرا اصول ہے کہ وہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ طالبان کے عہد میں وہ سرمایہ کاری کر رہا ہے، کئی دہائیوں سے جنگ وجدل میں مصروف رہنے والے افغانیوں کو چین نے معاشی ترقی کا نیا وژن دے کر سہانے خواب بھی دکھائے اور روشن مستقبل کی نوید دی ہے،افغانی سرکار نے چینی کمپنی کی مدد سے شمالی افغانستان میں خام تیل نکالنے کا کام شروع کردیا ہے۔
محتاط اندازے کے مطابق روزانہ 100ٹن تیل نکالا جائے گا جس سے طالبان سرکار کروڑوں ڈالر کما سکے گی،انکل سام نے تو اپنے مفاد کے لئے ہمیشہ یہاں بمباری ہی کی ہے مگر چین افغانستان میں معاشی انقلاب لا نے کا نقیب ہے۔
حالت جنگ میں ہمیشہ رہنے والے عوام بھی خوشحالی اور خود انحصاری کا منہ دیکھ سکیں گے، جو وصف افغانی سرکار کو اللہ نے عطا کیا ہے ہماری مقتدرہ اس سے محروم ہے، انکی سادگی ہمارے ارباب اختیار کے شاہانہ طرز زندگی کا موازنہ سوشل میڈیا پر کیا جاتا ہے، وجہ یہ ہے کہ اس قوم نے کبھی غلامی نہیں دیکھی، ہم تو پیدا ہی غلام ہوئے،اسی کلچر ہی میں پناہ لی، ہمارے دکھ آزادی کے بعد وہی ہیں جو عہد غلامی میں تھے، آج کے ”لارڈ ز“نے بھی عرصہ حیات عوام پر تنگ کر رکھا ہے، افسر شاہی کا وہی شاہانہ مزاج،وہی مراعات اس کا مقدر ہیں،جسکی قیمت عوام ادا کرتے ہیں، اس میں ہل من مزید کی کیفیت وڈیرہ، جاگیردار، سرمایہ دار پیدا کرتا ہے، یہ وہ طبقہ ہے جو عوامی مسائل سے نابلد ہے، اسے کیا معلوم بارش میں کمزور چھت گر جائے، بچے والدین سے سامنے موت کے منہ میں چلے جائیں تو غربت کے مارے بچے اور والدین کس کرب سے گذرتے ہیں، بھاری بھرما لی امداد بھی اس دکھ کا مداوا نہیں کر سکتی۔سیاسی الیکٹیبل بے روزگاری، قرض،مہنگی تعلیم،میرٹ کے عدم اطلاق،تھانہ کچہری کلچر کے احساسات سے نا آشنا ہیں جس سے ہر روز عوام کوسابقہ پیش آتا ہے،معاشی حالات سے مایوس ہر شہری اس قدر تنگ ہے کہ اب وزراء بھی مہنگائی کی شہادت دینے لگے ہیں۔
وزیر اعظم بھی معترف ہیں کہ ہمیں بیرون ملک قرض مانگتے ہوئے اب شرم آتی ہے، اس طرح کوئی ریاست نہیں چل سکتی،خود انحصاری کی راہ اپنانا ہو گی مگراس کا راستہ تو قانون کی حکمرانی سے ہو کر گزرتا ہے،اگر ایسا ہو جائے تو کرپشن کی صورت میں مخصوص ہاتھوں میں جانے والا سرمایہ قومی خزانہ میں آئے، صوابدیدی اختیارات کا خاتمہ، ترقیاتی فنڈز کے نام پر لوٹ مار روکنے قومی خزانہ کو تحفظ دینے کے لئے سب کو قربانی دینا ہوگی،غیر ضروری مراعات سے ہاتھ کھینچنا پڑے گا،زرعی اصلاحات سے وسائل کی تقسیم کو بھی منصفانہ بنانا پڑے گا،نئی سرمایہ کاری ہی سے ملازمتوں کے نئے امکانات پیدا کر سکتی ہے، تاہم سٹیٹس کو بدلنا ہی پڑے گا،اپنی ذات کو پیچھے اور قومی مفادات کو آگے رکھنا ہو گا،مگر دستیاب حالات میں لازم ہو گیا ہے کہ خونی انقلاب کا انتظار کئے بغیر مقتدرہ تمام اداروں میں اصلاحات لاتے ہوئے رعایا کی زندگی کو آسان تر بنائے۔ قانون پر عمل درآمد کے لئے عوام کو بھی شعور دیا جائے تاکہ یہ ہجوم ایک قوم بن سکے۔
ہماری معاشی ترقی کے لئے سی پیک منصوبہ زیر تکمیل ہے،علاقہ کی ترقی اسکی کامیابی سے عبارت ہے،تاہم اس کا انحصار متعلقہ ریاستوں کے طرز حکومت اور علاقائی تنازعات پر ہے۔
ہماری سرکار کو بھی چین کی طرح کسی صورت میں کشمیر کے تنازع سے دست بردار نہیں ہونا چاہئے مگر گڈ گورننس سے ملکی سطح پر ”سفید انقلاب“ کی داغ بیل ڈالنا وقت کی ضرورت ہے،جسکی جھلک ہم میڈیا کی آنکھ سے ذ مہ دار ریاستوں میں دیکھتے ہیں، یہ انقلاب زبانی دعووں سے قطعی ممکن نہیں ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی قیادت اس کی ضرورت محسوس بھی کرتی ہے کہ نہیں کیونکہ یہ انقلاب علمی ثبوت بھی مانگتا ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.