عام انتخابات دور نہیں

42

عوام کے ازہان میں یہ خیال قوی ترہورہا ہے کہ ملک میں عام انتخابات معینہ مدت پر ہونے کی بجائے آئندہ برس تک التواکا شکار ہوسکتے ہیں چند ماہ قبل تک ایسے خیالات کے حامی حکومتی حلقے بھی رہے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ریاض بھی ایسی تجاویز کے یہ کہتے ہوئے حمایتی کھائی دیے کہ قومی اسمبلی کی معینہ مدت میں ایک سال کی توسیع کے لیے اگر قرارداد پیش کی گئی تو اپوزیشن تعاون کرے گی لیکن کیا عملی طورپر ایسا ممکن ہے؟ آئینی ماہرین اِس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں کیونکہ آئین میں ایسی کسی کوشش کا کوئی جواز نہیں البتہ ہنگامی حالات میں کیونکہ آئین معطل ہوتاہے اِس لیے کچھ بھی ممکن ہے مگر اِس وقت ملک میں نام کی حدتک سہی بظاہر جمہوری اِدارے کام کررہے ہیں اِس لیے ہنگامی حالات کا سہارا لینااور غیر آئینی فیصلے کرنا کسی طورممکن نہیں دوسری صورت یہ ہے کہ حکومت،الیکشن کمیشن اور مقتدر قوتیں عام انتخابات کے لیے عدمِ تعاون کی پالیسی اختیارکرلیں جیساکہ پنجاب میں انتخابات کرانے سے متعلق سپریم کورٹ کافیصلہ آنے کے باوجودعدمِ تعاون کی روایت قائم کی جا چکی لیکن اب حالات عام انتخابات کی طرف جاتے محسوس ہوتے ہیں اسمبلی مدت پوری ہوتے ہی نگران حکومت بنانے اور عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونا بعید ازقیاس نہیں رہا جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔
اِس میں شائبہ نہیں کہ ملک کی معاشی حالت دگرگوں ہے کافی تگ ودو کے بعدآئی ایم ایف کی طرف سے ابتدائی رضامندی سے تین ارب ڈالر مزید قرض ملنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے مگرحتمی منظوری بارہ جولائی کو ہونے والے ایگزیکٹو بورڈ میں دیئے جانے کا امکان ہے تاہم حتمی منظوری سے قبل آئی ایم ایف کے وفد نے کئی سیاسی جماعتوں سے اُن کا نقطہ نظر جاننے کے لیے ملاقاتیں کیں اِس حوالے سے عمران خان سے بھی زمان پارک میں ملاقات کی گئی جس میں انھوں نے آئی ایم ایف پروگرام کی حمایت کی اور ملاقات میں شفاف انتخابات کا مطالبہ دہرایا ملاقات کے دوران ملنے والی تائید کو قرض کے حوالے سے انتہائی اہم تصورکیا جا رہا ہے سب سے اہم تین ارب ڈالر دینے کا طریقہ کارہے قرض کی اقساط دینے کی ایسی ترتیب بنائی
گئی ہے جس کے تناظر میں عام انتخابات کی طرف جانے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں تین ارب ڈالر میں سے ایک ارب موجودہ حکومت رواں ماہ جولائی،ایک ارب نگران حکومت جبکہ ایک ارب ڈالر عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت کو ملنے ہیں اگراسمبلی مدت مکمل ہونے کے باوجود برقرار رہتی ہے تو دوراب ڈالر ملنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں جن کا موجودہ معاشی حالات میں ملک متحمل نہیں ہو سکتا اسی بنا پر فہمیدہ حلقے اب قدرے وثوق سے کہنے لگے ہیں کہ عام انتخابات کی طرف جانا حکومتی مجبوری ہے۔
حکومت نے بجٹ میں مختص ترقیاتی حصے کا نصف صرف تین ماہ یعنی جون،جولائی اور اگست میں نہ صرف خرچ کرنے کامنصوبہ بنایا ہے بلکہ اِس حوالے سے بھاری رقوم بھی تقسیم کی جانے لگی ہیں ن لیگ اور پی پی کے مابین اِس حوالے سے بظاہر کھینچاتانی ہے مگر اندرکھاتے کامل اتفاق ہے دونوں جماعتوں کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ ترقیاتی رقوم ایسے شہری اور دیہی حلقوں میں خرچ کی جائیں جہاں پی ٹی آئی بہتر پوزیشن میں ہے چند چھوٹی جماعتیں بھی فنڈز لینے کے چکر میں ہیں مگر واقفان حلقے کہتے ہیں کہ ابھی تک ن لیگ اور پی پی کے امیدواروں سے منصوبے لیکر فنڈزدیے جارہے ہیں پی ٹی آئی پر نومئی کے حوالے سے لگنے والزامات اورجنم لینے والے مصائب کو غنیمت جان کر حکومت عام انتخابات کرانے پر رضامندہو ئی ہے کیونکہ موجودہ حالات سے بہتر کوئی اورموقع مل ہی نہیں سکتا استحکام پاکستان پارٹی بن چکی ایسے سازگار حالات کی وجہ سے حکومتی اتحاد کوانتخابات میں جانے کی ہمت ہوئی ہے۔
دبئی بیٹھک میں ن لیگ اور پی پی نے نواز شریف کو اعتماد میں لیکر عام انتخابات کی حکمتِ عملی کو حتمی شکل دے لی ہے تبادلے کرنے سمیت نگران سیٹ اَپ کی جزیات تک طے کر لی گئی ہیں حیران کُن بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ کو ایسی خاص اور اہم مشاورت سے الگ تھلگ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ ممکن ہے انتخابات کے بعد حکومتی تشکیل کا عمل دوجماعتوں کے درمیان رکھناہو جس پر فضل الرحمن نے خفگی کا اظہار کیاہے لیکن یہ توقع رکھنا کہ بالابالا مشاورت سے وہ اتحادی حکومت سے ناراض ہو کر سیاسی راہیں جُدا کرلیں گے غلط ہوگا مولانا بھی سیاسی میدان کے پُرانے کھلاڑی ہیں اُنھیں بخوبی معلوم ہے کہ جیت کو یقینی بنانے میں انتظامی مشنری کا تعاون بہت ضروری ہے اسی لیے منانے کی کسی طرف سے ہلکی سی بھی کوئی کوشش کی گئی تووہ بخوشی مان جائیں گے پی پی اور ن لیگ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا کسی حدتک امکان موجودہے کیونکہ دونوں کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے موجودہ پوزیشن کو مزید بہتر بن سکتی ہے نو مئی کا واقعہ دونوں کے لیے لاٹری ثابت ہوا ہے اسی لیے موقع ہو یا نہ ہو عمران خان کو ذمہ دار قرار دینے میں بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہی ہیں دونوں جماعتوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی نفرت پر مبنی الزامات اور انتشار انگیز رجحانات سے شروع ہونے والی سیاست کا اختتام ایسے عمیق تشدد سے ہوا ہے جس سے نہ صرف ریاستی رٹ متاثر ہوئی بلکہ دفاعی اِداروں سے بھی نفرت پروان چڑھی جس کی راہ روکنا ملک کی خدمت ہے۔

تبصرے بند ہیں.