بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں

73

اب یہ احساس گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ اقتدار والوں کو عام شہریوں کے مشوروں کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ خود کو عقل کل سمجھتے ہیں یا پھر ان کو آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کی مشاورت کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں تاریخ کے بد ترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ ہر لمحہ بھاری لگ رہا ہے کہ اگر کسی مالیاتی ادارے نے کوئی قرضہ نہ دیا تو ہماری معیشت کا حال بد سے بدتر ہو جائے گا۔ اگرچہ کبھی کبھار عوام کا دل رکھنے کے لیے ان کی رائے معلوم کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے مگر آج تک ان پر عمل درآمد نہیں دیکھا گیا انہیں فقط اپنے آشیر بادیوں سے غرض ہوتی ہے وہ جو انہیں تجاویز و احکامات دیتے ہیں ان پر ہی وہ عمل پیرا ہوتے ہیں لہٰذا پورے ملک کا نظام بگڑ چکا ہے۔ مہنگائی ، بیروزگاری اور نا انصافی بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں جس سے انتہائی تکلیف دہ سماجی تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پاس ہر نوع کے وسائل موجود ہیں مگر انہیں بروئے کار لانے میں قاصر ہیں شاید اس لیے کہ کہیں آشیر بادی خفا نہ ہو جائیں۔
اب جب چھہتر برس بیت چکے ہیں تو بھی زندگی کے پر سکون و حسین لمحوں سے محروم ہیں کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب ذہن میں خوف و بے بسی کے طوفان برپا نہ ہوتے ہوں۔ یقین جانیے بستر پر لیٹے ہوئے بھی مختلف النوع اذیت ناک خیالات کی بھر مار جسم پر گویا ہتھوڑے برسا رہی ہوتی ہے بندہ کیا کرے کیا نہ کرے اب یہ فہم بھی جارہا ہے ہاتھ پاؤں جیسے مفلوج ہو رہے ہوں اکتاہٹ ، بیزاری لوگوں سے ملنا جلنا ایک خیال ہوتا جا رہا ہے جبکہ کبھی عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں سے رابطہ رکھنا ضروری تصور کیا جاتا کیونکہ اس سے دماغ کو ایک توانائی حاصل ہوتی پھر کسی کو کوئی شکوہ شکایت ہوتی تو وہ باہمی ملاقات سے دور ہو جاتی ایک ایسا سماج پروان چڑھ رہا تھا کہ جس میں دکھ سکھ سانجھے ہوتے مگر اقتدار والوں کی حکمت عملیوں اور ان کی بڑھتی ہوئی خواہشات نے اس سماجی جڑت کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا غیر محسوس انداز میں ان کے اندر لا تعلقی و بیگانگی کی لہریں دوڑا دی گئیں جس سے وہ تنہا ہو گئے علاوہ ازیں جدید ٹیکنالوجی نے بھی بے سود مصروفیات کو جنم دیا جس سے تنہائی میں اور اضافہ ہو گیا یعنی تو کون میں کون کی آندھیاں چلنا شروع ہو گئیں۔ آج ہم ایک دوسرے کی مشکلات و تکالیف کو محسوس نہیں کرتے بلکہ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اندر سے خوش ہوتے ہیں یوں یہ معاشرہ بے حس معاشرہ کہلانے کے قریب تر پہنچ چکا ہے جسے اپنی ذات کے سوا اور کچھ نہیں معلوم لہٰذا اب کچھ لوگ شدت سے گزرے ہوئے وقت کو یاد کرنے لگے ہیں کہ جب شہروں کی گلیوں محلوں کے لوگ اپنے گھروں کی دہلیز پر آ کر بیٹھتے اور آپس میں گفتگو کرتے، دکھ بانٹتے چھوٹے موٹے مسائل کو زیر بحث لاتے کبھی مل کر کھانا بھی کھاتے، سیرو تفریح کے لیے بھی نکل پڑتے۔ اس طرح دیہاتوں میں لوگ ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرتے، کچے مکانوں میں رہتے ، بعض کے تو بڑے دروازے تک نہ ہوتے دو تین کمرے ہوتے جن کی چار دیواری چار پانچ فٹ سے زیادہ نہیں ہوتی، وہیں چولہا بھی ہوتا ، صحن میں چارپائیاں بچھی ہوتیں۔ ایک طرف ڈھور ڈنگر ہوتے، سبزیاں ہر کسان اگاتا ، دودھ خالص ہوتا اور اسے فروخت کرنا بدشگونی ہوتی محلے میں جس کی گائے بھینس دودھ نہ دے رہی ہوتی اس کے ہمسائے پر لازم ہوتا کہ وہ اس کی کچھ ضروریات پوری کرے۔ ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ کچھ گھروں میں بھینس وغیرہ پالنے کی سکت نہیں ہوتی تھی لہٰذا وہ اپنے قریبی گھروں سے لسی دودھ لے لیتے۔ کبھی کبھی انہیں مکھن کا پیڑا بھی دے دیا جاتا۔ وہ تھا سماج وہ تھے انسانی معاشرے کے خدوخال۔ پنجابی کی ضرب المثل ہے کہ آج ”کوئی وڈی انگلی تے لون بھی نہیں چھڑکدا“ ہم کہاں جا رہے ہیں کوئی بھی با اختیار اس سماجی ابتری و بربادی کی جانب نہیں دیکھ رہا مگر کب تک کہ اگر مکمل طور سے سماج لاتعلق اور محسوسات کے حصار سے باہر آگیا تو پھر کوئی اہل اقتدار اور کوئی اہل اختیار بھی اس پہلو سے محفوظ نہیں رہ سکے گا لہٰذا یہ جو طرز عمل اوپر کی سطح پر دیکھا جار ہا ہے اس کو تبدیل کرنا ہو گا مگر بات وہی ہے کہ عام شہری کا کوئی بھی مشورہ اشرافیہ کو قابل قبول نہیں ہوتا لہٰذا عمومی شعوری تبدیلی نے آج کے نوجوان کو بدگمان اور بدظن کر دیا ہے اور وہ موجودہ صورتحال سے بے حد مایوس ہو چکا ہے اس لیے وہ یہاں اپنا مستقبل روشن نہیں دیکھ رہا اور بیرون کی طرف چل پڑا ہے۔ بہرحال ہم ایک اجتماعی تبدیلی کی جانب بڑھ رہے ہیں جسے اشرافیہ بڑے غور سے دیکھ رہی ہے اور چاہتی ہے کہ ”حالت موجود“ برقرار رہے یہ نظام حیات نہ بدلے یونہی قائم و دائم رہے مگر اسے سوچنا چاہیے کہ اسے ذہنوں کو قابو میں کرنے کے لیے لوگوں کے دلوں میں اپنائیت کی گرہ لگانی چاہیے جو وہ نہیں لگا رہی اور اس کی ایسی کوئی کوشش اور خواہش بھی نگاہوں سے نہیں گزر رہی بلکہ وہ اس کے الٹ جا رہی ہے یعنی وہ خود چاہتی ہے کہ لوگ اس سے ہٹ کر کھڑے ہوں کہ ان کا دور رہنا ہی بہتر ہے۔ اسی لیے ہی انہوں نے انہیں کبھی شریک اقتدار نہیں کیا ایک جماعت نے کوئی دوچار نچلے طبقے کے لوگ اقتدار میں شامل کیے وہ بھی اس لیے کہ وہ کہہ سکے کہ یہ جماعت عوامی ہے ہم آئندہ کسی کالم میں اشرافیہ کا ماضی میں اقتدار کے حوالے سے کیا سوچ اور کردار ہیں تفصیل سے عرض کریں گے مگر ا±س سے اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ان دنوں عوام کو غالب اکثریت اس کے طرز فکر و عمل سے سخت نالاں ہیں کہ اس نے محض آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے اس کی سخت ترین شرائط کو مان لیا ہے اور جواز یہ پیش کیا ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو ہم ڈیفالٹ کر جاتے۔ کب تک ایسا ہوتا رہے گا اس کا جواب اہل اقتدار کو دینا چاہیے کیونکہ جو شرائط تسلیم کی گئی ہیں ان کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی تو بڑھے گی ہی ایک نفرت کا نیا طوفان پیدا ہونے کا اندیشہ ہے مگر عجیب بات ہے کہ انہیں کوئی پروا ہی نہیں اور اگر پروا ہوتی تو وہ بجلی ، گیس مہنگی نہ کرتے ابھی تو آغاز ہے آگے چل کر بہت کچھ مہنگا ہونا ہےاور یہ ایک تسلسل ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہر آنے والے برس اور مہینے میں حالات خراب ہو جاتے ہیں اور پھر عالمی مالیاتی اداروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے لہٰذا تمام سیاسی جماعتیں اور تمام سٹیک ہولڈر مل کر خلوص نیت سے پہلے عوام کا اعتماد حاصل کریں پھر معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے جدوجہد کا راستہ اختیار کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ بہت جلد یہاں دودھ کی نہریں بہہ نکلیں گی پھر دکھوں کے مارےچہروں پر رونق بھی آجائے گی!

تبصرے بند ہیں.