گذشتہ کالم میں ہم نے 1984 میں گورنمنٹ ایم اے او کالج میں منعقد دانشوروں کے مذاکرے میں حضرت واصف علی واصفؒ کے ایک جملے ”پاکستان نور ہے، نور کو زوال نہیں“ کے سیاق و سباق پر سیر حاصل تبصرہ کیا تھا۔ یہ جملہ تب سے زبان زدِ عام ہے۔ جب کبھی سوشل میڈیا اس جملے کا تذکرہ ہوتا ہے تو کچھ لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں، تو 1971 میں پاکستان دو لخت کیوں ہو گیا تھا؟
یہاں ہم سیاسی اسباب پر کم اور روحانی اور نظریاتی اسباب پر زیادہ غور کریں گے۔ دراصل سیاسی اسباب کے پس پشت بھی نظریاتی محرکات ہوتے ہیں۔ پہلے خیال الگ ہوتا ہے، پھر گھر الگ ہو جاتا ہے۔ ایک گھر میں رہنے والے بھائیوں میں پہلے فکری اختلاف رونما ہوتا ہے، ازاں بعد صحن میں دیواریں اٹھ جاتی ہیں۔ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کی مثال ہمارے سامنے ہے، شمالی کوریا اور جنوبی کوریا آج بھی الگ ہیں۔ ایک رنگ، نسل اور زبان ہونے کے باوجود جب ایک قوم کے معاشی نظریات جدا ہو گئے تو ملک بھی الگ ہو گئے۔ جب کیمونزم کا نظریہ کمزور ہوا تو دیوارِ برلن بھی کمزور پڑ گئی۔ بہرطور قومیں نظریے کی بنیاد پر بنتی ہیں، نظریے کی بنیاد پر اکٹھی ہوتی ہیں اور نظریاتی تقسیم پر تقسیم بھی ہو جاتی ہیں۔ نظریہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔
ہم انہی فطری اصولوں پر بات کرتے ہوئے آپ کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان کا قیام کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ہے۔ کلمہ طیبہ ایک نظریہ بھی ہے اور ایک عہد ہے، پاکستان بھی ایک عہد تھا…… یہاں لوگ عہدوں کی دوڑ میں مصروف ہو گئے اور عہد شکنی کے مرتکب ہوئے۔ ہم بحیثیت قوم اس عہد پر قائم نہ رہ سکے۔ کلمہ طیبہ، کلمہ توحید ہے۔ توحید کا ایک مفہوم یہ ہے کہ مسلمان اپنی نسبی اور لسانی عصبیتوں کو ترک کرتے ہوئے خود کو قومِ رسولِ ہاشمی قرار دیں گے…… یعنی کثرت کا انکار اور وحدت کا اقرار کریں گے…… وطن پرستی، نسل پرستی بلکہ خود پرستی کا انکارکریں گے اور خدائے واحد کا اقرار کریں گے۔
پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی بدقسمتی سے ہمارے بنگالی بھائیوں نے اپنے جغرافیائی خطے کی شناخت کلمہ توحید سے جوڑنے کے بجائے دوبارہ اپنی لسانی اور نسلی عصبیتوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، اور قائد اعظمؒ کی زندگی ہی میں بنگالی زبان کے حوالے سے تعصّب کا بھر پور مظاہرہ کیا۔
ڈھاکہ میں قائد اعظم کو سختی سے یہ کہنا پڑا ”مجھے سخت حیرت ہے کہ کچھ لوگ پاکستان کی قومی زبان کے متعلق عجیب باتیں کر رہے ہیں، پاکستان کی قومی زبان اردو، اردو اور صرف اردو ہو گی“ بوجوہ ہمارے بنگالی بھائی کلمہ وحدت کے لیے قائم وطن کی خاطر اپنی زبان کی قربانی نہیں دے سکے۔ اگرچہ اپنی لسانی عصبیت برقرار رکھنے میں وہ بتدریج ”کامیاب“ بھی ہو گئے، لیکن بحیثیت مسلمان امت وہ ناکام ہو گئے۔ مسلمانان ہند نے اپنی اپنی علاقائی عصبیتوں کی نفی کرنے کے بعد پاکستان حاصل کیا تھا۔ اس طرح پاکستان اپنی اصل میں ایک نظریہ ہے۔ پاکستانی قوم اسے کہیں گے جو اپنی زمین کا رشتہ کلمہ توحید سے جوڑتی ہے …… اور اِس میں وہ اپنے تمام نسبی اور لسانی تفاخر فراخ دلی سے چھوڑ دیتی ہے۔ پاکستان ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی ہجرت کا نتیجہ ہے۔ پاکستان برصغیر میں امت مسلمہ کا ایک متفقہ اجتہاد تھا …… اور اصول اجتہاد میں یہ شامل ہے کہ جس بات پر ایک مرتبہ اجتہاد ہو چکا ہو، اِس پر دوبارہ نہیں ہو سکتا۔
ملک کے ایک صوبے کا علیحدہ ہو جانا اگرچہ اہلِ پاکستان کے لیے ایک غم و اندوہ کی داستان تھی لیکن یہ پاکستان کا زوال نہیں تھا۔ 2002 میں مجھے بنگلہ دیش جانے کا اتفاق ہوا اور مجھے ذاتی مشاہدہ ہوا کہ اس علیحدگی کا فیصلہ انہیں کس قدر مہنگا پڑا۔ ان کے بزرگ اور ذی فہم دانشور ہندوستان کے ہاتھوں اپنی بے توقیری کی داستانِ غم سناتے رہے۔ ہندوستان نے 1971 کے بعد بنگلہ دیشی مسلمانوں کا جس درجہ معاشی استحصال کیا، وہ بیان کرتے رہے۔
جس طرح انسانی وجود کا ایک حصہ اپنے اصل کے ساتھ دھڑکن برقرار نہ رکھ سکے اسے علیحدہ کر دیا جاتا ہے، کیونکہ ایسے مردہ عضو کے جسد کے ساتھ چپکے رہنے سے پورے وجود کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ بعینہ توحید کے نظریے سے منسلک ہونے کے بعد (یعنی پاکستان کا حصہ بننے کے بعد) اگر کوئی اس کی اساس کا منکر ہو جائے تو اس کا علیحدہ ہو جانا یا کر دیا جانا، قدرت کا فیصلہ ہے۔ اگر میرا ایک بازو کٹ جاتا ہے تو میرا نام، کام اور کلام تب بھی ”اظہر وحید“ ہی رہے گا …… مجھے زوال تو اس وقت لاحق ہو گا جب میں اپنے نام سے منسلک کام اور کلام کو ترک کر دوں، اپنے نظریے کو تج دوں، disown کر دوں۔ اس طرح پاکستان ایک نام ہے اور اس نام سے منسلک ایک نظریہ ہے …… اور یہ نظریہ توحید ہے …… اور اس نظریے سے منسلک عوام ہیں۔ اس نظریے کا تقاضا ہے کہ امیر و غریب سب کو ایک قانون کے سامنے جوابدہ کیا جائے، امیر کو غریب کا استحصال کرنے کی اجازت اور طاقت نہ دی جائے، اس کا تقاضا ہے کہ غریب کی کفالت بشمول تعلیم، صحت، خوراک ریاست اپنے ذمے لے …… واللہ خیرالرازقین کا تقاضا ہے کہ اللہ کے نام پر قائم ریاست کو غیراللہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ جب تک عوام و خواص اس نظریے سے قولاً فعلاً منسوب رہیں گے، زوال سے محفوظ رہیں گے۔ جس طرح مسلمانوں کی شکست، اسلام کی شکست تصور نہیں ہوتی، اسی طرح کسی مخصوص وقت میں پاکستانی حکومتوں کی ناقص پالیسیاں اور باہمی ادارہ جاتی مناقشت تصورِ پاکستان کا زوال نہیں …… کیونکہ پاکستان صرف ایک مخصوص نسل تک محدود نہیں۔ کسی ایک نسل کی ناکامی آنے والی نسلوں کی ناکامی ہرگز نہیں۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد اندرا گاندھی نے جب بڑے فخر سے کہا کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے، عین اسی وقت دو قومی نظریہ دوبارہ زندہ ہو رہا تھا۔ کس طرح……؟ کائناتی اصولوں کا پیمانہ ہاتھ میں لیں اور دیکھیں۔ بنگالی زبان کے تعصّب کے سبب اپنے کلمہ گو بھائیوں سے علیحدگی کا منطقی نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ مشرقی بنگال (بنگلہ دیش) دوبارہ مغربی بنگال (ہندوستان) میں ضم ہو جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایسا کرنا نہ تو ہندوؤں کو گوارا ہوا (کہ درمیان میں کلمہ موجود ہے) اور نہ ہمارے روشن خیال بنگالی بھائیوں ہی کو خیال آیا کہ وہ کلمے کو چھوڑ کر اپنی لسانی اصل (متحدہ بنگال) میں جا ملیں۔ اس طرح ایک رنگ، نسل اور زبان کی سانجھ کے باوجود ”مسلمان بنگال“ اور ہندو بنگال باہم ایک ملک نہیں بن پائے۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ درمیان میں کلمے کی نظریاتی سرحد قائم ہے۔ گویا خلیج بنگال کے کناروں سے دو قومی نظریہ ایک بار پھر نئے جنم اور نئے نام سے اُبھرنا شروع ہو گیا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بعض دُور اندیش ہندوستانی دانشور کہہ رہے تھے کہ پاکستان توڑنے کے چکر میں ہم نے دو پاکستان بنا دیے ہیں۔
حق شناس جانتے ہیں کہ یہ نور ظہور سب اُسی ذاتِ بابرکات کا ہے، جسے قرآن میں سراجاً منیراً کہا گیا …… اَزل سے روشن، اَبد تک روشنی اور ہدایت کا منبع!! جب تک کوئی فرد یا قوم اِس ذاتؐ سے بر بنائے محبت وابستگی کا اظہار کرتا رہے گا، وہ زوال سے دُور ہے …… اور زوال اس سے دُور!!!
Next Post
تبصرے بند ہیں.