پروفیسر جے۔پی چودھری ماہر سیاسیات و سماجیات ہیں۔آپ کی حالیہ فکر اور کا زاویہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ”اے دانشورانِ شرق وغرب! اکیسویں صدی عیسوی اور پندرھویں صدی ہجری حقیقی گلوبلزم کے قیام کی صدی ہے۔ اکیسویں صدی عیسوی اورپندرھویں صدی ہجری میں 193 کی 193 قومی، علاقائی اور جغرافیائی ریاستوں کی معدومیت اور انٹرنیشنلزم کے خاتمے اور انہدام کی صدی ہے۔ اکیسویں صدی عیسوی اورپندرھویں صدی ہجری پورے کے پورے کرہ ارض کی اور سارے کے سارے ابنِ ادم کی کامل آزادیوں اور کامل نجات کی صدی ہے۔اکیسویں صدی عیسوی اور 15وِیں صدی ہجری ابنِ ادم کی بارڈر لّیس ہم آہنگی، میل جول، میل ملاپ، رابطوں، رشتہ داریوں اور بھائی چارے کی صدی ہے۔ اکیسویں صدی عیسوی اور 15وِیں صدی ہجری ہر طرح کے استحصال، ہر طرح کے سُود اور ہر طرح کی لوٹ کھسوٹ سے پاک ایک اور صرف ایک بارڈر لّیس، لاطبقاتی عالمی،جمہوری ریاست کے قیام اور ایک اور صرف ایک بارڈر لّیس، لاطبقاتی، عالمی، جمہوری اور جنتی سماج کے قیام کی صدی ہے۔“جو لوگ بھٹو کو ایک عظیم جمہوری لیڈر اور پی پی پی کو بڑی جمہوریت پسند سیاسی جماعت سمجھتے ہیں۔ وہ بھٹو صاحب کے آمریت پسندی اور آمروں کے ساتھ مل کر جمہوریت پہ شب خون مارنے کی ماضی کی ایک بازگشت سماعت فرما لیں اور جو لوگ پی پی پی کی جمہوریت کش پالیسیوں پہ حیراں ہیں کہ بھٹو جیسے انقلابی کی جماعت کیسے جمہوریت پسندی چھوڑ کر اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھی ہے تو وہ یہ جان لیں کی پی پی پی کے بانی چیئرمین بھٹو بھی اسی خصلت کے مالک تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کا میجر جنرل سکندر مرزا کو خط کچھ اس طرح سے ہے۔
میجر جنرل سکندر مرزا جب پاکستان کا صدر تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس کے نام ایک خط لکھا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سکندر مرزا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ؛ جناب تاریخ آپ کو ایک عظیم شخص کے طور پر یاد رکھے گی اور آپ کا نام قائداعظم محمد علی جناح سے بھی اوپر لکھا جائے گا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے محض ایک وزارت کے لیے سکندر مرزا جیسے شخص سے قائد اعظم کا موازنہ کیا اور پھر اس کو قائداعظم سے بھی بلند مقام پر فائز کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سیاست میں پاکستان کے آمر صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے متعارف کرایا۔ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی پرورش پاکستان کے آمر فوجی حکمران جنرل ایوب خان نے کی۔ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے 1958 میں مارشل لاء کی حمایت کی تھی اور جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت میں وفاقی وزیر بن گیا تھا۔ بلکہ ایوب خان کی قربت حاصل کرنے کے لیے ایوب خان کو ”ڈیڈی“ کہا کرتا تھا۔یہ بھٹو کی کامیابی کا راز تھا۔اب ن لیگ کی طرف آتے ہیں۔
جیسا میں باربار کہتا ہوں ن لیگ کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ نواز کو بینظیر کے مقابل اسٹیبلشمنٹ نے پنجاب سے زبردستی پیدا کیا جس کی ٹریننگ جنرل ضیاء الحق نے کی۔ ن کا مائنڈ سیٹ مکمل آقا و غلام والا ہے کہیں یہ کسی کے غلام ہیں تو کہیں یہ خود کسی پر آقا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی سیاسی لیڈر کا ایک مشہور مقولہ ہے میاں نواز شریف کے لیے کہ جب یہ اقتدار میں ہوتا ہے تو گریبان پکڑتا ہے اور جب اقتدار میں نہیں ہوتا تو سر جھکا کر اپنا کام نکال لیتا ہے۔
یہاں مثال دیتا ہوں کہ جب تک ضیا بکتا رہا نواز شریف بھی ضیا الحق کو اپنا بزرگ بولتا رہا اور جب ضیا الحق کا دور ختم ہونے لگا تو نواز شریف جمہوری بن گیا۔یہ ن لیگ ہی تھی جس نے محترمہ شہید کے خلاف IJI بنائی۔کل تک یہ ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے تھے اور آج ریاست میں ریاست بنانے والوں کے غیر آئینی اقدامات کی تعریف و تائید میں لگے ہوئے ہیں۔موجود سیاسی صورت حال میں ملک و قوم کا کسی کو خیال نہیں۔سبھی لوگ اپنے مفادات و اختیارات کی جنگ لڑ ہیں۔جس ملک اور قوم مفلوج ہو چکے ہیں۔اگر موجودہ صدی میں ہم نے درج بالا فکر کو اپنے لیے سچ کرنا ہے تو پھر غلامی سے نکل کر آزادی،کرپشن سے نکل کر ایمانداری اور غیر ذمہ داری سے نکل کر ذمہ داری کی طرف آنا ہوگا۔اگر اب ایسا نہ ہوسکا تو پھر داستانوں میں کیا تاریخ میں بھی ملیا میٹ ہوجائیں گے۔بقول جاوید رامش
بری خبر نہیں اتنا اداس کرتی مجھے
میں جتنا اب تری خوشخبریوں سے ڈرتا ہوں
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.