کیا وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف جانتے ہیں کہ اِس وقت پاکستانی اپنی معاشی زندگی کے بدترین دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟ یقینا نہیں جانتے ہوں گے ورنہ اتنا بے رحم کوئی کیسے ہو سکتا ہے کہ محلے میں موت ہوئی ہو اور کوئی اونچی آواز میں میڈم نور جہاں کے شوخ اور چنچل پنجابی گانے لگا کر بیٹھ جائے۔ چیئرمین سینیٹ کی مراعات کے بل کا پاس کرانے کی ناکام کوشش کرنا وزیر اعظم سے لے کر اِس بل پر خاموش رہنے والے ہر فرد بارے یہی تصور کیا جائے گا کہ یہ جلتے ہوئے روم کو دیکھ کر بانسریاں بجانے والے فنکار ہیں۔ یقینا مرنے والے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن زندہ انسانوں کیلئے یہ رویہ کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ جی! وہی زندہ انسان جن سے عنقریب آپ نے ووٹ کی بھیک مانگنے کیلئے در بدر ہونا ہے۔ لیکن حکمرانوں کی یہ عادت ہمیشہ سے رہی ہے کہ انہیں عیش میں یاد خدا اور طیش میں خوف نہیں رہتا۔
میں نے عمران نیازی کو زندگی میں بارہا سمجھایا تھا کہ انقلاب کیلئے ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ریاست ایک مضبوط ترین ادارے کا نام ہے جو مختلف مضبوط ترین اداروں کا جال ہوتی ہے اگر آپ انقلاب لانا چاہتے ہیں جو آپ کی خواہش ہے جس کا اظہار آپ برملا کر رہے ہیں تو آپ کو ریاست سے زیادہ مضبوط تنظیم بلکہ سیاسی ادارہ بنانا ہو گا تو کامیابی کا امکان سو فیصد ہے لیکن اگر آپ ریاست کی طاقت کے ساتھ کم طاقت سے ٹکرائیں گے تو وہ آپ کو نیست و نابود کر کے رکھ دے گی۔ اِس کیلئے میں نے انہیں کامیاب اور ناکام بغاوتوں کی بہت سے سچی کہانیاں بمعہ تجزیہ کے وقتاً فوقتاً پیش کیں۔ جس کا اثر عمران احمد خان نیازی پر اتنا تو ضرور ہوا کہ اُس نے تحریک انصاف کو ادارہ بنانے کی باتیں اپنی تقاریر میں شروع کر دیں۔ ہمیں بھی خوشی ہوئی چلو!
راہ پہ اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اورکھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
پنجاب نہیں پاکستان بھر میں عمران نیازی کے ابتدائی ساتھی کوہ میں، دشت میں اُس کا پیغام لے کر پھرے ہیں لیکن عمران نیازی کی اعلیٰ ترین صفت یہ تھی کہ وہ حمد کا خوگر تھا اُسے گلہ سننے کی عادت نہیں تھی۔ سیاست مکالمے کا نام جس کا مطالبہ عمران نیازی آج کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ مکالمے کا انسان ہی نہیں اللہ نے اُسے صرف احکامات جاری کرنے اور اُن پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں دوسرے احکاما ت جاری کرنے کیلئے بنایا ہے۔ وہ طاقت ور لوگوں سے مرعوب ہوتا ہے لیکن صرف اُتنی دیر تک جب تک اُسے پہلے سے زیادہ طاقت ور میسر نہ آ جائے۔ یہی عمران نیازی کی عمر بھر کی ریاضت کی کہانی ہے۔ وہ کرکٹ کے میدانوں کا بہت بڑا ہیرو تھا۔ اُس کے نام پر لاکھوں حسیناؤ ں کے دل دھڑکتے تھے۔ نوجوان اُس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بیتاب رہتے تھے لیکن کھیل کے میدان میں پہنچنے والے ہجوم اور تختہ دار تک جانے والے انسان مختلف ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایم آر ڈی کی تحریک میں جب ہم چند دوست محلے سے اکھٹے ہو کر احتجاج پر جا رہے ہوتے تھے تو ہمارے ہم عمر دوستوں کی بڑی تعداد میچ دیکھنے جا رہی ہوتی تھی یا میچ کھیلنے۔ وہ نوجوان 1978-79 میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کے بعد مکمل کرکٹ فوبیا کا شکار ہونا شروع ہو چکے تھے اور پھر کرکٹ
ڈپلومیسی نے ضیا الحق کی آمریت ہی نوجوانوں کے ذہن سے نکال کر رکھ دی۔ البتہ جو خود رو پودے قدرت کی آغوش میں پلے تھے۔ وہ ملٹری کورٹس اور ضیا الحق کی ہر بربریت کا سامنا کرتے رہے۔ عمران نیازی خود اُس زمانے میں کرکٹ کے عروج پر رہا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں ضیا کی آمریت اور عمران نیازی کے کرکٹ کا عہد ایک ہی ہے تو یہ بات کسی صورت غلط نہ ہو گی۔
نئی معرضِ وجود میں آنے والی پارٹی استحکام پاکستان منظرِ عام پر آ چکی ہے۔ اِس میں بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے جوکبھی نہ کبھی تحریک انصاف کا حصہ تھے لیکن کچھ عمران نیازی کی غلط اور دوست مخالف پالسیوں کی وجہ سے نالاں ہو کر الگ ہو گئے اور دوسری بڑی تعداد کو 9 مئی کے واقعہ نے الگ کر دیا۔ اِس میں ایک موقف یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ انہیں استحکامِ پاکستان پارٹی کی طرف ہانکنے کا کام اسٹیبلشمنٹ سرانجام دے رہی ہے تو میرا موقف اِس پر انتہائی صاف ستھرا ہے مجھے اِن ناموں میں سے وہ پانچ نام نکال دیں جو کبھی فوج مخالف کسی ظاہری یا زیر زمین تحریک کا حصہ رہے ہیں؟ جب تحریک انصاف کی حکومت بنائی جا رہی تھی تو یہی لوگ تھے جو عمران نیازی کو وزیر اعظم بنانے کا دھوکا کھا رہے تھے اور عمران نیازی اپنے ساتھیوں کو بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے کا دھوکا دے رہا تھا۔ اُس وقت کسی غیرت مند تحریکی نے یہ نہیں کہا تھاکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کیا کر رہی ہے۔ اُس وقت ”دہشت گرد“ ایم کیو ایم، کبھی چپڑاسی نہ بننے والا شیخ رشید، پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو پرویزالٰہی سب قابل قبول تھے۔ جہاں تک عبد العلیم خان کی بات ہے تو وہ مینار پاکستان کے ”تاریخی“ جلسے سے پہلے ہی عمران نیازی پر اپنی دولت کا بڑا حصہ نچھاور کرنے کا طے کر چکا تھا۔ جہانگیر ترین نے بھی جلسے کے بعد تحریک انصاف جوائن کر لی تھی۔ اِس کے علاوہ شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک اور ان گنت لوگ پارٹی میں آ گئے لیکن اپوزیشن نے عبد العلیم خان اور جہانگیر ترین کو ہی ”اے ٹی ایم“ کے القاب سے نوازا کیونکہ باقی سب تو طفیلی سیاست کر رہے تھے۔ عمران نیازی کی چمچہ گیری، اُس کے غلط فیصلوں پر ہاں میں ہاں کہنا، عمران کے پسندیدہ لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنا اور ایسی دوسری لاتعداد ”خوبیوں“ کی وجہ سے تحریک انصاف کی سے بہت سے لوگ مرکزی قیادت میں شامل کیے گئے۔ استحکام پاکستان پارٹی کا قیام بھٹکی ہوئی قیادتوں کے خلاف ایک احتجاج بھی ہے اور لاوارث ووٹروں کی پناہ گاہ بھی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب تک استحکام پاکستان پارٹی میں ورکنگ کلاس اور عام آد می کا چہرہ مرکزی، صوبائی اور ضلعی تنظیموں میں نظر نہیں آئے گا غریب اور کمزور آدمی اتنے طاقتور اور مضبوط لوگوں سے دور رہے گا۔ عبد العلیم خان نے سیاسی بے وفائیوں کو بھگتا ہے سو وہ اُس درد کو جانتا ہے کہ جب کسی کی محنت اٹھا کر کسی نااہل کے کھاتے میں ڈال دی جائے تو انسان کے دل و دماغ پر کیا گزرتی ہے۔ وہ انسان دوست با صلاحیت لیڈر ہے جو اپنی اعلیٰ صلاحیتوں سے ثابت کر سکتا ہے وہ تنظیم بنانے اور چلانے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ الیکشن کا بگل کسی وقت بھی بج سکتا ہے سو جہاں وزیراعظم چیئرمین سینیٹ کی مراعات کا بل پاس کرا رہے ہیں وہیں ضرورت ہے کہ عوامی آواز بنا جائے۔ یہ سیاست کا میدان ہے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے سیاست کے میدان میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔ عوام ہی افضل ہیں اور سب سے افضل ہیں۔ جو عوامی دکھوں کو اپنا سیاسی ایجنڈہ نہیں بناتا عوام اُس کے ساتھ کیا کرتے ہیں وہ گزشتہ کئی سال سے تواتر اور ایک سال سے تسلسل کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ عبد العلیم خان کی اعلیٰ ترین خوبی یہ ہے کہ وہ غیر مربوط نہیں مربوط ترقی پر یقین رکھتا ہے۔ وہ عام آدمی کے دکھوں سے واقف اور اُن کا حل جانتا ہے۔ شاید 9 مئی کی تخریب کے وجود سے ہی تعمیر کی کوئی صورت نکل آئے کہ پاکستان نے تو رہنا ہے البتہ مراعات اور مراعات یافتہ ایک دن نہیں رہیں گے یہی ازلی قانون ہے لیکن حکمران اِسے بھول جاتے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.