ہر تیسرے درجے کے ملک کیلئے آئی آیم ایف پروگرام اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے، کہ اُس کے بغیر کوئی بھی ملک اس کے ساتھ لین دین نہیں کرتا۔ اگر کسی ملک میں آئی ایم ایف پروگرام چل رہا ہو تو باہر سے انویسٹمنٹ آتی ہے، دیگر مالیاتی ادارے آسانی سے قرض دے دیتے ہیں، دنیا بھر سے آپ کو اُدھار پر مال مل جاتا ہے، امریکا بہادر خوش رہتا ہے، ورلڈ بنک بڑے پراجیکٹ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے شروع کر دیتا ہے اور تو اور دوست ممالک آسانی سے رہن رکھنے کے لیے آپ کو ڈالر دے دیتے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام نہ ہوتو یقینا آپ کے ملک کے حالات پتلے ہو جاتے ہیں، کوئی ملک آپ کو ادھار مال نہیں دیتا، آپ کو ہر طرف کیش پر مال اُٹھانا پڑتا ہے، اور بدلے میں کیش ختم ہو جائے تو آپ ڈیفالٹ بھی کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی بات کی جائے تو معاہدہ ہونے یا نہ ہونے سے متعلق پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات اب شاید آخری راؤنڈ میں داخل ہو گئے ہیں۔ اگرچہ یہ آخری راؤنڈ ہو سکتا ہے لیکن شرائط کے اعتبار سے ابھی کئی کڑے امتحان باقی ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے کچھ لچک دکھائی ہے اور سوا دو سو ارب سے زائد کے نئے ٹیکس لگانے کی بھی حامی بھر لی ہے۔ لیکن ابھی تک آئی ایم ایف کی جانب سے مطلوبہ ردعمل سامنے نہیں آ سکا۔ مذاکرات کے نتیجے میں سٹیٹ بینک نے ایک سرکلر جاری کیا ہے کہ درآمدات پر عائد پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں، امپورٹ کیلئے زرمبادلہ کی فراہمی میں ترجیحی درآمدات کی شرط ختم کر دی گئی ہے، اب تمام درآمدات کیلئے بلاتفریق زرمبادلہ فراہم ہو گا، زرمبادلہ کے مجاز ڈیلرز کو تمام درآمدات کیلئے زرمبادلہ فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ پابندی پچھلے سال دسمبر میں لگائی گئی تھی۔ یہ فیصلہ خوش آئند ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ قابلِ عمل ہے بھی یا نہیں۔ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 3 ارب 80 کروڑ ڈالر ہیں اور محض بندرگاہوں پر پھنسے کنٹینرز کو کلیئر کرانے کے لیے ہی تقریباً چار ارب ڈالر سے زیادہ کا زرمبادلہ درکار ہے۔ یقینا حالات اس وقت تمام اشیا کی درآمد کی اجازت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ رواں مالی سال کے ابتدائی 11 ماہ میں درآمدات پہلے ہی 49 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر معاہدہ ہونے میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟ میرے خیال میں یہ دیری پاکستان کی طرف سے ہو رہی ہے، کیوں کہ آئی ایم ایف کا موقف ہے کہ پاکستان گزشتہ کئی سال سے جھوٹے وعدوں پر اکتفا اور آئی ایم ایف سے دھوکہ دہی سے کام لے رہا ہے۔
اور پھر ظاہر ہے جب آپ کسی سے قرض لیتے ہیں اور بار بار لیتے ہیں تو پھر یا تو آپ کو اُسی کی مرضی کے مطابق معیشت چلانا پڑتی ہے، یا وہ اپنے ماہرین کے ذریعے آپ کی معیشت کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے، آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ ڈالر کو مصنوعی انداز میں نہ روکیں، نہ سبسڈی دیں اور نہ ہی کسی کو مراعات دیں۔ جبکہ ہماری حکومتیں عوامی دباؤ میں آ کر نہ صرف ڈالر کو مصنوعی طریقے سے روکتی ہیں، سبسڈیز بھی دیتی ہیں اور امرا و اشرافیہ مراعات بھی حاصل کرتے ہیں۔ اور پھر ہم مشکل معاشی حالات کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔ انہی مشکل حالات کی بدولت حکومت و اپوزیشن اس وقت عوام کی ذہن سازی کر رہے ہیں کہ خدانخواستہ ملک ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ خیر آگے چلنے سے پہلے ذرا ان قرضوں پر اور آئی ایم ایف پر سرسری نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں 1980 کے دور میں جانا پڑے گا جب آفتاب احمد خان سیکرٹری خزانہ کے عہدے پر فائز تھے۔ وہ گونج دار آواز کے مالک اور مرزا غالب کے شیدائی تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان پر مغربی ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے نوازشات کی بارش ہو رہی تھی۔ 1979 میں پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے امداد کی درخواست کی تھی جو مسترد کر دی گئی۔ 1976 اور 1979 میں پاکستان پر اقتصادی امداد کی فراہمی کے لیے پابندی عائد کی گئی۔ افغان مجاہدین کی امداد کے بعد یہ پابندیاں ہٹا لی گئیں۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی جانب سے از خود ڈیڑھ ارب ڈالر امداد کی منظوری دی گئی۔ امریکہ نے ساڑھے تین ارب ڈالر کی اقتصادی امداد اور قرضوں کی منظوری دی۔ اُس وقت بھی ماہر معاشیات آفتاب احمد خان سے سوال کرتے تھے۔ کیا قرضوں کے معاہدوں پر دستخط کرتے ہوئے آپ سوچتے ہیں کہ یہ قرضے واپس کیسے کیے جائیں گے؟ آفتاب احمد اپنی قہقہوں سے بھرپور آواز میں جواب دے کر آگے بڑھ جاتے۔ افغانستان سے روسی فوجیوں کا انخلا شروع ہوا اور اس کے ساتھ ہی امریکہ اور اس کے حواریوں نے نظریں پھیر لیں۔ اگست 1990میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بہانہ بنا کر ایک مرتبہ پھر اقتصادی امداد بند کر دی گئی۔ بارہ سال کے عرصے میں یہ تیسری پابندی تھی۔ پھر اُس کے بعد پاکستان نے سنبھلنے کا نام ہی نہیں لیا بلکہ گزشتہ 3 دہائیوں میں ہر حکومت مسلسل اور مستقل بین الاقوامی اداروں کی جانب سے عائد شرائط اور مسلط کی گئی پالیسیوں کے تابع رہی ہے۔ پہلی بے نظیر بھٹو حکومت دسمبر 1988میں اقتدار میں آئی اور صرف تین دن کے بعد آئی ایم ایف سے امداد کی درخواست کرنا پڑی کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر تھے۔ 1994 بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت نے آئی ایم ایف سے ایک اور پیکیج کے لیے معاہدہ کیا۔ نواز شریف نے ”قرض اتارو ملک سنوارو“ مہم چلائی۔ اس سے قبل نواز شریف کی دوسری حکومت نے سیکرٹری خزانہ معین افضل اور گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر محمد یعقوب کی سربراہی میں دو وفود واشنگٹن بھیجے تا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایک اور اقتصادی امدادی پیکیج حاصل کیا جائے۔ معین افضل ناکام رہے لیکن ڈاکٹر یعقوب جو آئی ایم ایف میں خدمات سر انجام دے چکے تھے، ایک اور پیکیج لینے میں کامیاب ہو گئے۔
پرویزمشرف نے شوکت عزیز کو بطور وزیرخزانہ امریکہ سے درآمد کیا تو اسلام آباد آمد سے پہلے ہی انہوں نے آئی ایم ایف کے اعلیٰ عہدے داروں سے اقتصادی امداد کے لیے گفتگو کی جس میں پرائیویٹ سیکٹر میں بجلی گھروں پر عائد پابندیاں ختم کرنا شامل تھا۔ تیسری پیپلز پارٹی حکومت اور تیسری نواز شریف حکومت نے بھی حسب عادت آئی ایم ایف سے پیکیجز کے لیے معاہدے کیے۔ پاکستان مسلم لیگ کے منشور میں ”خیرات کا پیالہ“ توڑنا شامل تھا لیکن مئی 2013 میں تیسری نواز حکومت برسراقتدار آئی تو آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ دراز کرنے کی عجیب و غریب تاویلیں گھڑیں۔ یہ کہا گیا کہ قرضوں کے حجم میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ صرف پرانے قرضے اتارنے کے لیے نئے قرضے لیے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا تو کہا گیا کہ یہ قرضہ پیپلز پارٹی نے آئی ایم ایف سے جو قرضہ لیا تھا اس کی واپسی کے لیے لیا جا رہا ہے۔
الغرض ہمارا سفر معیشت کو دلدل میں دھکیلنے کے حوالے سے گزشتہ 40 سال سے جاری و ساری ہے۔ آہستہ آہستہ چیزوں کو ٹھیک کیا جانا چاہئے، اس کے لیے لانگ ٹرم پالیسی کی ضرورت ہے، آئی ایم ایف سے قرضے لینا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا کے 130ممالک نے آئی ایم ایف سے قرض لے رکھے ہیں مگر وہ ان قرضوں کو اپنے ملکوں کی تعمیر و ترقی اور بڑے بڑے فلاحی، دیرپا اور منافع بخش پراجیکٹس بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب ہم ان قرضوں کو صرف سود ادا کرنے کی مد میں خرچ کر رہے ہیں۔ لہٰذا دس سالہ منصوبوں کو دوبارہ شروع کیا جانا چاہیے، اس کے لیے فل تگڑا اور تمام سٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے، لیکن اُس سے پہلے حکومت دس سالہ پالیسی کو ماہرین کے ذریعے مرتب کرے، ورنہ خاکم بدہن ہم آج نہیں تو کل تک ضرور ڈیفالٹ کر جائیں گے کیوں کہ بقول شاعر اب یہ سفر نہیں رُکے گا۔
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.