محکمہ پولیس پر جہاں تنقید کی جاتی ہے وہیں ان کے مسائل پر بھی لکھا جاتا رہاہے۔ ایک عرصہ تک میں نے بھی کانسٹیبل کے مسائل پر لکھا اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ جیسے عام شہریوں کا سب سے زیادہ واسطہ کانسٹیبل سے ہی پڑتا ہے۔ مسجد سے لے کر بازاروں اور تھانوں سے لے کر شاہراہوں تک ہر جگہ ہمیں کانسٹیبل یعنی پولیس فورس کا سب سے چھوٹا ملازم یعنی کانسٹیبل ہی ملتا ہے۔ میں اس سے قبل متعدد بار لکھتا رہا ہوں کہ جس دن کانسٹیبل کے مالی مسائل حل ہوں گے اس دن سے نہ صرف یہ کہ رشوت کلچر ختم ہو گا بلکہ یہی غصہ سے بھرے چڑچڑے کانسٹیبل ہم جیسوں سے مسکرا کر بات کرنے لگیں گے۔ میں نے کبھی ان کانسٹیبلز کو سپر ہیرو نہیں سمجھا بلکہ اپنے جیسا انسان سمجھا ہے۔ میں انہیں اسی معیارپر دیکھتا ہوں جس معیار پر ہم خود کھڑے ہیں۔مجھے مساجد کے باہر کھڑے لاغر اور بوڑھے کانسٹیبل کی حالت پر ہمیشہ ہی پریشانی ہوئی ہے۔ جون جولائی کی گرمی میں 12 گھنٹے سڑک پر کھڑے رہنا عام بات نہیں ہے۔ اسی طرح دسمبر جنوری کی سرد ٹھٹھرتی راتوں میں آدھی رات کو سڑک پر کھڑے ہونا بھی معمولی بات نہیں۔ یہ کام پولیس کانسٹیبل کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے اسے ویسی مراعات اور سہولیات نہیں ملتیں جو ایسی سخت ملازمت پر ملنی چاہیے۔ان فیلڈ ہیروز کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کئی کئی سال تک ان کی جائز ترقیاں بھی نہیں ہو سکیں۔ ایک شخص جسے پتا ہو کہ اب اسے اگلے سکیل پر ترقی ملنی ہے اور دس بیس سال بس اس خوش فہمی میں ہی گزر جائیں تو وہ کیسے مسکرا کر ہمارا مسئلہ سنے گا؟ مسکراہٹ زبردستی لائی جا سکتی تو زندان میں موجود ہر قیدی قہقہے لگاتا۔ خوشیاں خریدی نہیں جاتی البتہ بانٹی ضرور جاتی ہیں۔ موجودہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے یہی خوشیاں بانٹنے کا کام شروع کیا۔ انہوں نے اپنی فورس کے ان مسائل پر جتنی توجہ دی اس کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی۔انہوں نے یہ بہانہ
نہیں کیا کہ میں تو نگران سیٹ اپ میں آیا ہوں اور اس سیٹ اپ میں ترقیاں نہیں دی جا سکتیں بلکہ آئی جی پنجاب کا چارج لیتے ہی اس مسئلہ پرحکام سے بات کی اور الیکشن کمیشن سے باقاعدہ اجازت لے کر پنجاب کے تمام اضلاع میں کانسٹیبل سے لے کر ڈی ایس پی رینک تک افسران و اہلکاروں کی ترقیوں کے راستے میں حائل دفتری رکاوٹوں کو حل کرایا۔ ان کی کوششوں سے اب تک پنجاب پولیس کے 2335 کانسٹیبلز کو ہیڈ کانسٹیبل 3892 ہیڈ کانسٹیبلز کو اے ایس آئی2487 اے ایس آئیز کو سب انسپکٹرز1385 سب انسپکٹرز کو انسپکٹر اور229انسپکٹرز کو ڈی ایس پی کے عہدے پرترقی دی جا چکی ہے۔ اندازہ لگائیں کہ جس فورس میں دس ہزار ملازمین کی جائز ترقیاں رکی ہوں وہ کیسے مسکرا کر عوام سے بات کرتی؟ جہاں دس ہزار افراد خود مظلوم ہوں وہ کیسے ظالم کا ہاتھ روک سکتے تھے؟ یہ دس ہزار افراد وہ ہیں جنہیں گزشتہ چار ماہ میں ترقیاں دی گئی ہیں جبکہ ابھی ایسے مزید پولیس ملازمین باقی ہیں جن کی ترقیوں کے لیے کام جاری ہے۔ پنجاب کو دس ہزار سے زائد مسکراتے پولیس اہلکار دینا ڈاکٹر عثمان انور کا تاریخ ساز کام ہے۔ اسی طرح پنجاب پولیس کے شہید افسران و اہلکاروں کے بچوں کی ملازمتیں بھی دفتری بابوؤں کی وجہ سے مسائل کا شکار تھیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے والد عوام کے لیے لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور ان کے بچے ملازمتوں کے لیے دفاتر کے دھکے کھا رہے تھے ان میں سے بھی فیملی کلیم میں 84 جبکہ شہدا کوٹہ میں 46 بچوں کو ملازمت دی جا چکی ہے۔ اپنی فورس کی ویلفیئر کے لیے جو کام یہ آئی جی کر گئے ہیں وہ بھی باقی اداروں کے لیے قابل مثال ہے۔ ڈاکٹر عثمان انور نے پنجاب بھر میں پولیس ملازمین کے معذور بچوں کو محکمہ کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے ان کے علاج اور مختلف مصنوعی اعضا کی فراہمی کو یقینی بنایا اوراب تک 301 بچوں کو 3 کروڑ82 لاکھ45 ہزار روپے مالیت کے مصنوعی آلات لگائے جا چکے ہیں۔ یہ ان ملازمین کے بچے ہیں جن کی تنخواہ 30، 35 ہزار ہے۔ اسی طرح دوران ڈیوٹی دشمن سے لڑتے ہوئے معذور ہو جانے والے 134 پولیس غازیوں کوبھی ہیلتھ فنڈ سے چار کروڑ 5 لاکھ80 ہزار روپے مالیت کے مصنوعی اعضا، وہیل چیئر اور دیگر ضروری آلات مہیا کیے گئے اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے 6185 افسران و اہلکاروں کو مجموعی طور پر14 کروڑ چالیس ہزار روپے نقد انعام اور تعریفی سرٹیفکیٹ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی گئی تاکہ وہ مزید جذبہ سے کام کریں۔
یہ وہ کام ہیں جو ہر ادارے کو اپنے ملازمین کے لیے کرنے چاہیے۔ ملازمین کے حقوق اور مسائل کے حل سے ہی تعمیری کام چلتا ہے۔کوئی بھی ادارہ اس وقت تک اچھا رزلٹ نہیں دے سکتا جب تک اس کے ملازمین کی پریشانیاں دور نہ ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ پولیس میں چھوٹے عہدوں اور تھانے کی سطح پر تعینات ملازمین کے مسائل حل ہو رہے ہیں۔ اب ہم یہ امید کرنے میں حق بجانب ہیں کہ عوام کو تھانے سے لے کر مسجد کے باہر بیٹھے کانسٹیبل تک پولیس ملازمین کے چہروں پر مسکراہٹ ملے گی اور اگر ان کی پبلک ڈیلنگ مزید بہتر ہو گی۔ میں جانتا ہوں ہر مقدمہ کا فوراً رزلٹ نہیں مل سکتا۔ کروڑوں افراد پر مشتمل آبادی میں سے ہر ملزم بھی فوراً گرفتار کرنا ممکن نہیں لیکن اگر تھانے آنے والے پریشان شہری کی بات پورے اطمینان سے سن لی جائے اور اسے اچھے انداز میں ڈیل کر لیا جائے تو اس سے بھی آدھی پریشانی ختم ہو سکتی ہے۔ پولیس اہلکاروں کو بھی اب سوچنا ہو گا کہ جس طرح آئی جی پنجاب اپنے ملازمین کی پریشانیاں دور کر رہے ہیں اسی طرح انہیں شہریوں کی پریشانیاں دور کرنے میں بھی کردار ادا کرنا ہو گا ورنہ صوبائی پولیس چیف کی ان کاوشوں پر پانی پھر جائے گا جنہیں جاری رکھنے کے لیے ہم جیسے اصرار کر رہے ہیں۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.