ملک اور قوم پر مایوسی نا امیدی اور خوف کے سائے کم ہونے کی بجائے دن بدن گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔برین ڈرین کے ساتھ ساتھ بزنس مین کمیونٹی۔ نوجوان پڑھی لکھی نسل اور بڑی تعداد میں سرمایا بھی تیزی سے ملک سے باہر جا رہا ہے۔اسکی سب سے بڑی وجہ معاشی ابتری۔سیاسی عدم استحکام۔بھوک و افلاس اور مستقبل کی امید کا ختم ہو جانا ہے۔وہ مڈل کلاس لوگ یا محب وطن بزنس مین جن سے کبھی ملک سے باہر جانے کی بات ہوتی تھی تووہ لڑ پڑتے تھے۔کہتے تھے یہ ملک ہمارا عشق ہے ہمارا رومانس ہے۔اور ہم اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں کیسے سرمایہ کاری کر سکتے ہیں یارہ سکتے ہیں۔بلکہ یہ وہ لوگ تھے جو بچوں کو باہر پڑھنے کے لئے تو بھجواتے تھے مگر ساتھ ہی نصیحت کرتے تھے کہ بیٹا ڈگری مکمل کرکے اگلی دستیاب فلائٹ سے وطن واپس آؤ اور آکر ملک و قوم کی خدمت کرو۔ یقین جانئے اب وہ نسل سر عام کہتی ہوئی نظر آتی ہے۔کہ اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں۔جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے نکلو اور دوسرے ممالک میں جا کر محنت مزدوری کرو اور زندگی بسر کرو۔لاکھوں کی تعداد میں ڈاکٹرز۔ انجینئرز۔ پروفیسر۔ بزنس مین پروفیشنل اور نوجوان ملک کو خیر باد کہہ چکے ہیں مایوسی اور ناامیدی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔کارو بار اور ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔مہنگائی اور افراط زر خطرناک حدوں کو چھو چکی ہے مڈل کلاس جو کسی بھی سوسائٹی کا پلر ہوتی ہے آج وہ پلر ٹوٹ چکا ہے اور پلر ٹوٹ جاتا ہے تو پھر عمارت کی چھت جتنی بھی مضبوط ہو وہ گر جاتی ہے سب سے ظلم کی بات یہ ہے کہ قوم سے مستقبل کی امید چھین لی گئی ہے جو نوجوان بی اے اور ایم اے کر کے فارغ ہوتا ہے اگر اسکو ابھی سے بتا دیا جا ے کہ اسکو میرٹ پر نوکری نہیں ملے گی بلکہ اسکی جگہ کسی وزیر مشیر کے میٹرک پاس بھانجے بھتیجے کو ایڈجسٹ کردیا جا ے گا تو وہ نوجوان کیوں پڑھے گا کیوں نوکری کی امید رکھے گا وہ ابھی سے پستول یا چاقوخریدے گا اور لوٹ مار شروع کر دے گا۔اسی طرح جو شخص آج بھوک برداشت کر رہا ہے۔وہ بھوک برداشت کرتے ہوئے بھی اس لئے زندہ ہے کہ اسکو مستقبل کی امید ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کو پیٹ بھر کر کھانا ضرور ملے گا اگر اس کو آج یقین ہو جائے کہ وہ آج بھی بھوکا ہے اور آنے والے دنوں میں بھی وہ اسی طرح بھوکا رہے گا۔تو وہ یا تو خود کشی کرلے گا یا پھر چور ڈاکو بن کر لوٹ مار شروع کر دے گا۔اسی لئے کہتے ہیں کہ فیوچر کی ہوپ معاشرے کو زندہ رکھتی ہے لیکن اگرکسی نسل سے اس کی مستقبل کی امید ہی چھین لی جائے تو وہ معاشرے آگے بڑھنے کی بجائے زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔اور ایسی نسلیں صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔جہاں پر مایوسی کا عالم یہ ہوجا ے کہ نوجوان نا امیدی اور مستقبل کے خوف میں اپنے خاندان کی جمع پونجی بیچ کر چالیس پچاس لاکھ روپے دے کر سمندر کی لہروں کی نذر ہو کر مر جائیں تو پھر کہنا پڑے گا۔
ہمیں رہزنوں سے غرض نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
جب کسان کھیت میں بیج بوتا ہے تو اسکی آنکھوں میں لہلہاتی فصل کی تصویر ایک امید کے شکل میں سامنے ہوتی ہے۔اگر کسان کو بیج سے لہلہاتی فصل بننے کی امید نہ ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں پھر کیا ہوگا۔۔۔اگر کسی معاشرے میں۔غربت بھوک افلاس بھی ہو۔مایوسی اور نا امیدی بھی ہو۔ملک میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام بھی ہو تو ساتھ ساتھ خوف بھی ہو کہ آپ کی کون سی حرکت کی کیا سزا مل جا ئے آپ کا کون سا لفظ کسی کو پسند یا نا پسند لگ جا ئے کس بات سے آپ غدار بن جائیں ایک وقت تھا غداری کے فتوے ایک دو جگہ سے لگا کرتے تھے۔اب تو غداری کے سرٹیفکیٹ ہر گلی۔ محلے اور چوک سے مل رہے ہیں۔ایک وقت تھا غدار ڈھونڈنے پڑتے تھے اب محب وطن تلاش کرنے پڑتے ہیں۔۔مشرقی پاکستان میں طویل قید کاٹنے والے اور جو بچھڑ گئے۔کتاب کے مصنف اور ڈرامہ سیریل جو بچھڑ گئے کے مرکزی کردار غازی کرنل ریٹائرڈ فرخ چیمہ سے گزشتہ روز ملاقات ہوئی تو انہوں نے مایوسی ناامیدی اور خوف کا ایک نئے انداز میں تعارف کروایا۔انہوں نے بتایا کہ ان کو قید کے دوران کھانا دوائی سمیت ہر چیز میسر تھی۔مگر نا امیدی اور خوف نے سب کا دماغ پریشان کر رکھا تھا کہ پتا نہیں ہم کبھی آزاد ہو کر پاکستان اپنے خاندان اور بچوں میں جا سکیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ سزا ہی ہمارے لیے کافی تھی۔
وطن عزیز کی معاشی ابتری۔ سیاسی عدم استحکام۔ کرپشن۔ بھوک افلاس۔مایوسی اور ناامیدی ایک دن کی کہانی نہیں یہ 75 سال کی کہانی ہے۔لیکن اب ایک طرف حالات یہ ہیں کہ سمندر میں ڈوبنے سے بچ جانے والوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ چالیس پچاس لاکھ روپے دے کر جان کو خطرے میں کیوں ڈالتے ہو تو وہ کہتے ہیں کہ سمندر ڈبو کر مار دیتا ہے مگر ہمارے کپڑے نہیں اتارتا تو دوسری طرف کہا جاتا ہے ان بدتمیزوں کو جانے دیں دوسرے ممالک میں جائیں گے تو وہاں سے زرمبادلہ بھیجیں گے۔وزیر دفاع جناب خواجہ آصف پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر اوورسیز پاکستانیز کو بے شرم اور بے غیرت تک کہہ دیتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ یہ اوورسیز پاکستان میں مردہ دفنانے کے لیے آتے ہیں حالانکہ اوورسیز پاکستانی وینٹیلیٹر پر پڑے پاکستان کو ہمیشہ آکسیجن فراہم کرتے رہے ہیں۔اوورسیز پاکستانی بہت بڑی کمیونٹی ہے ان کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے ان حالات میں معاشی طور پر سسکتے اور قرضوں میں ڈوبے پاکستان کے خزانہ پر دن دیہاڑے ڈا کا مارا جاتا ہے چیئرمین سینیٹ کی مراعات کا ایک پرکشش پیکج منظور کرلیا جاتا ہے جس کے مطابق ان کے پاس سرکاری خرچ پر بارہ ملازمین اور چھ گارڈز تاحیات رہیں گے۔ہاؤس رینٹ۔ٹی اے ڈی اے۔ میڈیکل۔ سفری الاؤنس۔سرکاری گاڑیاں 18 لاکھ روپے کے صوابدیدی فنڈز کے علاوہ موصوف صوبائی اور قومی حکومتوں کے علاوہ فورسز کے جہاز اور ہیلی کاپٹر چارٹر بھی کروا سکتے ہیں معاملہ یہاں تک ختم نہیں ہوا سینیٹ کی فنانس کمیٹی چیئرمین سینیٹ کی صوابدیدی گرانٹ میں حسب ضرورت اضافہ بھی کر سکتی ہے۔یہ ہے پاکستان کی اشرافیہ کی سنجیدگی کا عالم دوسری طرف قوم اور ملک کی صورتحال دیکھ کر فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں۔ایسے حالات میں ہر حکومت بڑے بڑے دعوے تو کر سکتی ہے لیکن ملک سے معاشی اور سیاسی عدم استحکام ختم کیے بغیر حالات کو ٹھیک نہیں کر سکتی لگتا ہے ابھی ہماری آنے والی نسلوں کو یہ فقرے بار بارسننا پڑیں گے کہ ملک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ہم ملک کو ڈیفالٹ نہیں ہونے دیں گے۔سابق حکومت تباہ و برباد کر گئی ہم ملک کو ہر صورت میں بچائیں گے۔ سیاست نہیں ریاست کو بچانے کا وقت آ چکا ہے۔ہم آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ دیں گے۔ملک و قوم کے لئے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے وغیرہ وغیرہ۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.