اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ میں بیٹھنے سے معذرت کر لی ہے۔ نو رکنی لارجر ٹوٹ گیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر فیصلہ نہیں ہو جاتا تب تک بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا ۔ جسٹس سردار طارق مسعود بھی بینچ سے الگ ہو گئے
فوج عدالتوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران نو رکنی بینچ میں شامل دو ججز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے بینچ کی تشکیل پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ روسٹرم پر ائیں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔عدالتوں کو سماعت کا دائرہ اختیار آئین کی شق 175 دیتا ہے۔صرف اور صرف آئین عدالت کو دائرہ سماعت کا اختیار دیتا ہے۔ہر جج نے حلف اٹھایا ہے کہ وہ آئین اور قانون کے تحت سماعت کرونگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کو دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ لطیف کھوسہ سنئیر وکیل ہیں ۔ سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں یہاں خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں ۔اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ سیاسی بیان باہر جاکر دیں۔ واضح کرنا چاہتا ہوں کل مجھے تعجب ہوا کہ رات کو کاز لسٹ میں نام آیا۔ مجھے اس وقت کاز لسٹ بھیجی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے پہلے آٹھ رکنی بنچ نے روک دیا تھا۔ میرے سامنے آیا کہ حلف کی پاسداری کرکے بنچ میں بیٹھوں یا پھر میں نے حالات کو دیکھ کر چیمبر ورک شروع کیا۔ جب مجھ سے چیمبر ورک کے بارے میں پوچھا گیا تو پانچ صفحات کا نوٹ لکھ کر بھیجا ۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس وجہ سے چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہے۔ میرے دوست یقینا مجھ سے قابل ہیں لیکن میں اپنے ایمان پر فیصلہ کروں گا ۔ اس چھ ممبر بنچ میں اگر نظر ثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا۔غلطی ہوتی ہے ہم انسان ہیں، مجھ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے پہلے 8 رکنی بنچ نے روک دیا تھا۔کیونکہ فیصلہ نہیں ہوا اس لئے اس قانون پر رائے نہیں دونگا۔ایک عدالت فیصلے کو رجسٹرار کی جانب سے نظر انداز کیا گیا یہ عدالت کے ایک فیصلے کی وقعت ہے۔اس پر 8 اپریل کو میں نے نوٹ لکھا جو ویب سائیٹ پر لگا پھر ہٹا دیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس سے پہلے ایک 3 رکنی بینچ جس کی صدرات میں کررہا تھا 5 مارچ کو کررہا تھا، 5 مارچ والے فیصلے 31 مارچ کو ایک سرکولر کے ذریعے فیصلے کو ختم کردیا جاتا ہے۔میرے چیمبر ورک کرنے کا جواب چیف جسٹس بہتر دے سکتےہیں۔یہ میں نے اپنے نوٹ میں لکھا، میں اپنا نوٹ اپنے معزز ججز سے شیئر کرتا ہوں۔اس دوران حکومت نے انکوائری کمیشن بنایا جس کا مجھ سربراہ بنایا گیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پھر اس کمیشن کو عدالت نے کام کرنے سے روک دیا۔ میں فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی سماعت کرنے والے بینچ کو "بینچ” تصور نہیں کرتا۔ میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا ۔ اس سے پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ والے کیس کا فیصلہ آنا چاہیے۔ نامزد چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسٰی 9 رکنی بینچ سے علیحدہ ہوگئے
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں اس وقت تک کسی بنچ میں نہیں بیٹھ سکتا جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ میں معذرت چاہتا ہوں، ججز کو زحمت دی ۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آج کاز لسٹ میں سب سے آخر میں آنے والی درخواست کو سب سے پہلے مقرر کردیا۔ مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں چئیرمین پی ٹی آئی کی بھی درخواست شامل تھی۔میں اور جسٹس طارق مسعود اس کشمکش میں تھے کہ کیس سننے سے معذرت کریں یا نہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ لوگوں کی، درخواست گزاروں اور وکلا کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ اس معاملے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
جسٹس سردار طارق نے کہا کہ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بات سے متفق ہوں۔ میں آرٹیکل 184(3) کا مقدمہ میں بھی نہیں سن سکتا۔ اگر کل کو قانون درست ٹھہرا تو اس کے خلاف اپیل کون سنے گا؟ کیا نو رکنی بینچ کے خلاف آٹھ ججز اپیل سنیں گے۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگر آپ کیس نہیں سنیں گے تو 25 کروڑ عوام کہاں جائیں گے؟جسٹس سردار طارق نے کہا کہ 25 کروڑ عوام کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا؟
اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ کیس سن لیں میری استدعا ہے قاضی صاحب سے، گھر کے تحفظ کیلئے کیس سن لیجیے ۔قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں آپ کی بہت قدر کرتا ہوں، یہ نہیں ہوسکتا کہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کروں ۔اعتزاز احسن نے کہا کہ آپ سپریم کورٹ میں مل بیٹھ کر فیصلے کرنے کے پابند ہیں ۔ جسٹس فائز کا کہنا تھا کہ یہ گھر نہیں سپریم کورٹ ہے ۔
تبصرے بند ہیں.