بر بنائے مصلحت کے محبوب کی رفاقت اور قربت کے لمحات مختصر ہوا کئے۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی محبت والی ریت زیادہ کبھی نہ چلی۔سال بھر سے زاید یہ صحبت چلی تو یقین جانئے یہ بھی بہت چلی۔ مفاہمت کے تکلفات کا پردہ بس چاک ہوا چاہتا ہے۔ دونوں جماعتیں ظاہری یاری کے مرحلے سے نکل کر سرد جنگ سے گرم جنگ کے منطقے میں داخل ہونے چلی ہیں۔ مرزا غالب نے تو کسی ترنگ اور امنگ میں کہا ہوگا لیکن آصف زرداری تو دن رات گنگنا یا کئے:
کوئی دن گر زندگانی اور ہے!
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
دیکھئے شکست یا جیت تو نصیب کی بات ہے البتہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین لڑنے اور لو ہا لینے کی ٹھان چکے ہیں۔ان کے دل کے نہاں خانے میں اک خواب ہلچل مچا رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اب پنجاب میں بازی پلٹ دی جائے۔پی پی کے بعض جیالے آج کل پھولوں کی سیج پر لوٹتے ہیں لیکن سکون اور سرور نہیں پاتے۔مسلم لیگ (ن) کے مضطرب لوگ کا نٹوں پر دوڑتے ہیں مگر اس کی چبھن میں راحت کی لذت پاتے ہیں۔
کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین کی تقرری، سابق چیئرمین نادرا کی برقراری اور الیکشن میں تاخیرکی تمنا۔۔۔یہ تین اہم عوامل ہیں جو نوازشریف اورآصف زرداری میں فاصلے بڑھا گئے۔ بھلے بلاول بھٹو جتنے مرضی خطاب کے جوہر دکھائیں اور للکاریں کہ اتحادی الیکشن کی تیاری کریں۔ یا یہ کہ سیلاب متاثرین کے فنڈزکے بغیر بجٹ منظور نہ ہونے دیں گے۔جاننے والے جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے وہ جان لیں کہ حقیقت وہ نہیں ہوتی جو نظر آتی ہے۔اصل سندیسہ اور سراغ اور ہے کہ اب مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی جدائی کا وقت آن پہنچا۔ یہ الگ بات کہ اس کے لئے شوخ سا شکوہ اور شنگ سی شکایت چاہئے۔کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی مقررہ وقت پر انتخابات کی
خواہش مند نہیں کہ ابھی وہ جنوبی پنجاب میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑنا اور پھریر ے لہرانا چاہتی ہے۔ اندرکی خبر رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ زرداری طارق ملک کو ہٹانے کے خواہاں نہ تھے۔پھر وہ ذکا اشرف کے سر پر بھی کرکٹ بورڈ کی سربراہی کا سہرا سجا دیکھنے کے لئے مچلا کئے۔ حالات کا دھارا اور وقت کا نتارا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اس دوراہے پر لے آیا کہ اب دوستی کی حیات میں ان کی موت ٹھہری۔عوام کے اندر جڑیں اور اپنا ووٹ بنک رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھلا کب اتنی قربت رکھتی ہیں کہ دونوں کے ادغام کا گماں ہو۔
مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی فطری اور جبلی طور پر ایک دوسرے کی مخالف ٹھہریں۔ تینوں کی سیاسی زندگی آپسی لڑائی میں مضمر اور حق حکمرانی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے پر موقوف ہے۔تحریک انصاف تو خیر اک دھوپ تھی جو گئی ساتھ آفتاب کے۔ویسے کپتان کے نگرانوں اور پشتی بانوں نے ان کے سر سے شفقت کا ہاتھ کیا کھینچا وہ چاروں پہر انگاروں پر لوٹ رہے ہیں۔وہ صبح شام آگ کھاتے اور شعلے اگلتے ہیں۔ان کا چہرہ کبھی سرد اور کہیں تانبے کی طرح تپا کئے۔گزرتے شب و روز میں کپتان کا انتشار اور فشار اتنا بڑھ چلا کہ دوران خطاب الفاظ ان کی گرفت سے پھسلتے رہتے ہیں۔ان کی قلبی کیفیت اس بوڑھے پیڑ جیسی ہو چلی جس کے خزاں میں پتے جھڑا کئے۔
تحریک انصاف کے ضعف اور نواز شریف کی واپسی قریب کی بدولت زرداری گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ جلد جلد بیک وقت ایک تیر سے بے شمارشکارکر گزریں۔آثار و شواہد اور قرائن و قیاس گواہی دیتے ہیں کہ جے یو آئی بھی معینہ وقت پر الیکشن کے لیے یکسو ابھی نہیں۔ خیر جو بھی ہو انتخابات کے پل صراط سے تو اب تمام جماعتوں کو گزرنا پڑے گا۔اس کے لیے ماحول پیپلز پارٹی بنا رہی اور آگے چل کر اس کی توپیں اور بھی گولے داغیں گی۔ انتخابی حکمت عملی ترتیب دینا،سیاسی بساط پر چالیں چلنا اور انتخابی سائنسی کلیے کو اپنی ریاضی میں استعمال کر نا ہر جماعت کا حق ہے اور یہ حق فائق ہے۔اس سارے منظر نامے پر گہری نگاہ البتہ زرداری کی رہی اور وہ بیک وقت چاروں جانب گرم اور سرد پھونکیں مار رہے ہیں۔حریفوں کوکبھی زرداری کی باتوں سے دوستی کا امکاں ہو تا ہے اور کبھی حامیوں کو بھی دشمنی کا گماں ہوتا ہے۔جوں جوں الیکشن قریب آتے جائیں گے زرداری دھوپ چھاؤں کا یہ کھیل کھیلتے رہیں گے۔مسلم لیگ (ن) میں البتہ مریم نوازکے علاوہ باقی سب لیڈر بستر مدہوش پر لیٹے پڑے ہیں۔انہیں کیا خبر کہ صبح ہوتے ہی سورج سوا نیزے پر نکل آئے گا۔اب دونوں پارٹیوں میں پھڈا بازی،کھینچا تانی اور پر خاش و پیکار سے کسی بالغ نظر کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔محبت و رفاقت اور قربت و الفت کا وقت بیت چکا اور اب مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اپنی اصل حالت اور ہیئت میں پلٹ آئیں گی۔
سیاسیات کی تاریخ سے آشنا لوگ جانتے ہیں کہ1997 کی انتخابی مہم میں نواز شریف نے بار بار اور با تکرار ایک بات کہی تھی۔انہوں نے کہا جو ووٹ مسلم لیگ (ن) کے علاوہ کسی بھی صندوقچی میں پڑے گا وہ عملاً پیپلز پارٹی کے بکسے میں گنا جائے گا۔یہ وہی انتخابی مہم تھی جس میں آگے چل کر نو از شریف نے دو تہائی اکثریت سے کا میابی پائی۔اسی نکتے کے پیش نظر زرداری اب بدلے بدلے لگتے ہیں کہ نواز شریف کے حامی ووٹوں کو تو ڑا اور تقسیم کیا جائے۔ سیاست کے مرشد اور مرد حر کو اس کے لیے مگر وقت چاہئے۔ شاید دوسری جانب نواز شریف کو بھی خوب احساس ہے کہ زرداری آخر چاہتے کیا ہیں؟ کہا جاتا ہے چکور کے بچے جب جواں ہوتے ہیں تو وہ خوش بھی ہوتی ہے اور اداس بھی۔”چکور خوش ہے کہ بچوں کو اڑنا آ گیا،اداس بھی ہے دن آگئے ہیں جدائی کے۔ پاکستانی جمہوری دوشیزہ نے بھی عجب قسمت پائی کہ اس کے مدعی اور والی اس سے غضب کا پیار رکھتے ہیں۔کم بخت جس پر مرتے ہیں اسے ہی مار رکھتے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.